دنیا کا بدنام ترین ہیرا

جواد گیلانی  منگل 16 جنوری 2018
جو صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ۔  فوٹو : فائل

جو صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ۔ فوٹو : فائل

کوہ نور ہیرے کا شمار دنیا کے متنازع ترین ہیروں میں ہوتا ہے۔یہ ہیرا کئی صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ہے اور مغل شہزادوں، ایرانی جنگجوؤں، افغان حکمرانوں اور پنجابی مہاراجوں کے قبضے میں رہا ۔105 قیراط وزنی یہ قیمتی پتھر انیسویں صدی کے وسط میں برطانویوں کے ہاتھ آیا۔ اب اسے شاہی زیور کے طور پر ٹاور آف لندن میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

اس ہیرے کی ملکیت بہت سارے بھارتیوں ہی نہیں پاکستانیوں اور افغانوں کے لیے بھی جذباتی معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ برطانیہ نے یہ ہیرا ان سے چرا لیا تھا۔پچھلے سال برطانوی صحافیوں،ولیم ڈیلرمپل اور انیتا آنند نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’کوہ نور: دنیا کے مشہور ہیرے کی تاریخ “Koh-i-Noor: The History of the World’s Most Infamous Diamond”  ہے۔کتاب میں مصنفین نے اس بیش قیمت ہیرے کے گرد گھومنے والی افسانوی کہانیوں یا غلط فہمیوں کا احاطہ کیا ہے۔

سنہ 1849 ء میں جب کوہ نور ہندوستان کے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کے ہاتھ آیا تو انھوں نے اس کی باضابطہ تاریخ کے ہمراہ اسے ملکہ وکٹوریا کو بھیجنے کی تیاری کی۔انھوں نے اس ہیرے کی تحقیق کا کام دہلی میں ایک جونیئر اسسٹنٹ مجسٹریٹ تھیو میٹکاف کو سونپا جو جوئے اور پارٹیوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔لیکن میٹکاف نے افواہوں اور گپ شپ سے کچھ زیادہ ہی استفادہ کر لیا۔ اس وقت سے لے کر لاتعداد مضامین میں وہی کہانیاں بیان کی گئی ہیں، یہاں تک کہ کوہ نور کے حوالے سے ویکی پیڈیا پر بھی اس بات کو حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ذیل میں کوہ نور سے متعلق ان چھ ’’افسانوی کہانیوں‘‘ کا ذکر ہے جس کا تذکرہ کتاب میں کیا گیا۔

٭کوہ نور ممتاز انڈین ہیرا ہے
حقیقت: کوہ نور جب برطانیہ آیا تو اس کا وزن 190.3 میٹر قراط تھا اور اس سے ملتے جلتے کم از کم دو ہیرے اور بھی تھے… دریائے نور (اندازاً -195-175 میٹرک قیراط وزنی) جو اب تہران میں ہے، اور مغل اعظم ہیرا (189.9 قراط) جس کے بارے میں جدید جوہریوں کا خیال ہے کہ وہ اورلوف ہیرا ہے۔ یہ تینوں ہیرے سنہ 1739 ء میں ہندوستان پر ایرانی حکمران نادر شاہ کے حملے کے بعد وہاں سے لوٹے گئے اور دیگر مال کے ساتھ ایران لے جائے گئے تھے۔انیسویں صدی کے اوائل میں جب یہ ہیرا پنجاب پہنچا تو اس کو ایک ممتاز اور افضل ہیرا سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

٭ کوہ نور ایک بے عیب ہیرا تھا
حقیقت: غیرتراشیدہ کوہ نور کے درمیان میں پیلے داغ تھے جو اس کے وسط تک موجود تھے، ان میں ایک دھبہ بڑا تھا اور وہ روشنی کو منعکس نہیں کرتا تھا۔اسی وجہ سے ملکہ وکٹوریا کے شوہر،پرنس البرٹ کوہ نور کو دوبارہ تراشنے کے حق میں تھے۔یہ واضح رہے کہ کوہ نور دنیا کا سب سے بڑا ہیرا نہیں ۔ درحقیقت یہ دنیا کا 90واں بڑا ہیرا ہے۔

سچ یہ ہے کہ جو سیاح اسے ٹاور آف لندن میں دیکھتے ہیں، وہ اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کتنا چھوٹا سا ہے۔ خاص طور پر جب وہ اس کا موازنہ قریب ہی نمائش کے لیے رکھے گئے دو بڑے کلینن ہیروں سے کیا جاتا ہے۔

٭کوہ نور انڈیا میں کولور کان سیتیرہویں صدی میں دریافت ہوا
حقیقت: یہ جاننا ناممکن ہے کہ کوہ نور کی دریافت کب اور کہاں ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ ایک پراسرار پتھر ہے۔کچھ ماہرین یہ بھی خیال کرتے ہیں کوہ نور دراصل شیامنتک پتھر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے بھگوان، کرشنا سے متعلق مذہبی کتاب بھگوت پران میں ملتا ہے۔تھیو میٹکاف کی رپورٹ کے مطابق یہی روایت ہے کہ یہ ہیرا کرشنا کی زندگی کے دور میں کان سے نکالا گیا تھا۔

لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں یہ ہیرا کان سے نہیں نکالا گیا تھا بلکہ شاید جنوبی انڈیا میں خشک دریائی سطح سے نکالا گیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی ہیرے کانوں سے نہیں نکلتے بلکہ دریائی زمین سے ملتے ہیں۔

٭ کوہ نور مغلوں کا قیمتی ترین خزانہ تھا
حقیقت: ہندو اور سکھ ہیروں کو دوسرے جواہرات سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ جبکہ مغل اور ایرانی بڑے، غیرتراشیدہ اور چمکتے پتھروں کو ترجیح دیتے تھے۔بلاشبہ کوہ نور کا شمار مغلوں کے اس بیش قیمت خزانے میں ہوتا تھا جس میں بہترین اور غیرمعمولی جواہرات موجود تھے۔ لیکن اس خزانے میں بیشتر قیمتی پتھر ہیرے نہیں تھے۔ مغل بدخشان کے سرخ سپینل اور برما کے سرخ یاقوتوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ ہمایوں نے اپنے باپ،بابر کی ملکیت ایک ہیرے کو ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کو جلاوطنی کے دوران تحفے میں دے دیا تھا۔ یہ خیال بھی ہے کہ یہی کوہ نور تھا۔بابر کا یہ ہیرا دوبارہ دکن پہنچا لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ دوبارہ کب اور کیسے مغلوں کے پاس کیسے پہنچا۔

کوہ نور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا سے پگڑی تبدیل کرکے چرایا گیا
حقیقت: یہ معروف قصّہ ہے کہ نادر شاہ نے مغل بادشاہ کو اس کے ہیرے سے محروم کرنے پر اکسایا، جو اس نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔لیکن محمد شاہ کے پاس یہ واحد قیمتی پتھر نہیں تھا جسے وہ اپنی پگڑی میں چھپا کر رکھتے، اور جسے نادر شاہ چالاکی سے پگڑی تبدیل کر کے حاصل کر لیتے۔ایرانی مورخ ماروی کے مشاہدے کے مطابق بادشاہ قیمتی پتھر اپنی پگڑی نہیں چھپا نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس وقت وہ انتہائی دلکش اور قیمتی شاہی تخت کاحصہ تھا جسے شاہ جہان کا مور تخت کہا جاتا تھا۔وہ اپنے ذاتی مشاہدے کے حوالے سے لکھتے ہیں کوہ نور اس غیر معمولی تخت کی چھت پر ایک مور کے سر پر نصب تھا۔

کوہ نور کو اناڑی پن سے تراشا گیا جس سے اس کا سائز کم ہوگیا
حقیقت: فرانس سے تعلق رکھنے والے جواہر کے تاجر اور مسافر ،یاں پیتستے ٹوورنیئر کو مغل بادشاہ اورنگزیب نے اپنے ذاتی جواہرات دیکھنے کی اجازت دی تھی۔ یاں پیتستے کے مطابق فرانس ہی سے آنے والے ایک پتھر تراش، ہوٹینسیو بورگیو نے ایک بڑے ہیرے کو جلا دیا تھا۔ نتیجتاً اس کا سائز کم ہو گیا۔

لیکن انھوں نے جلائے گئے ہیرے کی شناخت مغل اعظم ہیرے کے طور پر کی تھی جو ہیروں کے تاجر میر جملا نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کو تحفے میں دیا تھا۔دور جدید کے ماہرین کو یقین ہے کہ مغل اعظم ہیرا دراصل اولوف ہے، جو اس وقت کریملن میں روسی ملکہ کیتھرین کی عصائے شاہی پر نصب ہے۔

مغلوں کے دیگر اہم اور قیمتی ہیروں کے بارے میں تقریباً سبھی بھول چکے ۔دنیا بھر کے تاریخی حوالوں میں تمام ہندوستانی غیرمعمولی ہیروں کا ذکر کوہ نور سمجھ کر ہی کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔