قرارداد پاکستان کے تناظر میں

نسیم انجم  اتوار 24 مارچ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

23 مارچ پھر آکر گزر گئی لیکن یہ گزرا ہوا دن اور بیتے ہوئے ماہ و سال ہمیں بہت کچھ یاد دلاتے ہیں، قائد کی جدوجہد آزادی اور علامہ اقبال کا جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہوا خواب جو نگاہوں کے سامنے آگیا ہے، دسمبر 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں منعقد ہوا تھا، اس اجلاس میں ڈاکٹر اقبال نے اہم تاریخی خطبہ پڑھا تھا۔

اس خطبے میں انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کئی انسانی گروہوں کا براعظم ہے جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، ان کے طور طریقے مشترکہ نسلی شعور پر مبنی نہیں، لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان پیدا کیا جائے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب شمال، مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر ایک مملکت بنادیا جائے، مجھے ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلمانوں کی متحدہ مملکت کم ازکم شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کی قسمت کا آخری فیصلہ نظر آتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر اقبال کے افکار کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’وہ ایک عالمی شہرت کے حامل اور غیر معمولی شاعر تھے۔ مسلمانوں اور اپنے ملک کے لیے ان کی خدمات بے شمار ہیں، باوجود یہ کہ وہ ایک عظیم شاعر اور فلسفی تھے ان کی حیثیت ایک عملی سیاستدان سے کچھ کم نہ تھی۔‘‘

جدوجہد آزادی کے لیے عظیم ہستیوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا تھا انھی میں مولانا محمد علی جوہر کا نام بے حد نمایاں ہے۔ مولانا نے لندن کی گول میز کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں اور میرے بھائی پہلے دو اشخاص ہیں جنھیں لارڈ ریڈنگ نے جیل بھجوایا، میں اس معاملے میں ان سے کوئی بغض نہیں رکھتا لیکن اتنا اختیار ضرور چاہتا ہوں کہ لارڈ ریڈنگ ہندوستان میں پھر کسی غلطی کے مرتکب ہوں تو میں انھیں جیل بھجواسکوں، میں اپنے ملک میں آزادی کا پروانہ لے جانا چاہتا ہوں، بصورت دیگر میں غلام ملک میں نہیں جاؤں گا۔ اگر آپ آزادی نہیں دے سکتے تو آپ کو مجھے یہاں ایک قبر دینی ہوگی۔‘‘

اس کانفرنس کے چھ ہفتے بعد ہی مولانا جوہر لندن میں ہی رحلت فرماگئے۔ انھوں نے مسلمانوں کی خدمت اور آزاد وطن کی خواہش میں اپنی زندگی قربان کردی۔ مغربی مفکر ایچ جی ویلز محمد علی جوہر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’محمد علی نپولین کا دل، برک کی زبان اور میکالے کا قلم رکھتے تھے۔‘‘قیام پاکستان کے حوالے سے مجاہدین اسلام کی ایثار و قربانی بے مثال ہے۔ پاکستان اتنی آسانی سے ہرگز وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ سالہا سال کی محنت، مشقت، شبانہ روز کی جدوجہد اور جذبہ ایمانی کے تحت دنیا کے نقشے پر ابھرا ہے۔

محمد علی جناح نے 22 مارچ 1940 کو مسلم لیگ لاہور کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’مسلمان اقلیت نہیں ہیں ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں، انھوں نے برطانوی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر برطانوی حکمران چاہتے ہیں کہ برصغیر کے لوگ امن اور خوشی سے رہیں تو یہ بات لازمی ہے کہ بڑی قوموں کو علیحدہ علیحدہ وطن دیا جائے اور برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے۔ 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ قرارداد پاکستان محمد علی جناح کی بہت بڑی کامیابی تھی۔

1941 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جوکہ مدراس میں منعقد ہوا تھا اس قرارداد کو لیگ کے آئین میں شامل کیا گیا اور اسے مسلم لیگ کا نصب العین قرار دیا گیا۔ پھر ’’انگریزو! ہندوستان چھوڑو‘‘ کے بھی نعرے لگائے گئے، شملہ کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس کا مقصد ہندو مسلم کے مسئلے کو حل کرنے کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ مسلم لیگ کا یہ مطالبہ جائز تھا کہ تمام مسلم نشستوں پر نامزدگی کا حق اسے حاصل ہو جب کہ کانگریس اس مطالبے کی نفی کر رہی تھی، اس طرح شملہ کانفرنس 1945 ناکامی کا شکار ہوگئی اور ہندوستان کے گورنر جنرل اور وائسرائے لارڈ دیول نے اپنی ناکامی کا برملا اعتراف کرلیا۔

1935 میں نئے گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات ہوئے، ان انتخابات میں کانگریس کو نمایاں کامیابی ہوئی، اسی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے کانگریس کے لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے اعلان کیا کہ ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، ایک انگریزوں کی حکومت اور دوسری جماعت کانگریس ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فوراً اس اعلان کا ایکشن لیا اور کہا کہ ’’ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے، کانگریس مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں بلکہ مسلم لیگ ہے۔‘‘

محمد علی جناح نے کانگریس کی متعصبانہ پالیسی پر کڑی تنقید کی۔ کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو محمد علی جناح نے ان حالات کو شدت سے محسوس کیا اور جب 1939 میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہوگئیں تو انھوں نے مسلمانوں کو یوم نجات منانے کا حکم دیا۔1939 میں دو قومی نظریہ کے بارے میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے پہلی بار وضاحت کی کہ ہندوستان ایک قومی ریاست نہیں ہے بلکہ کئی قومیتوں کا مجموعہ ہے، قائد اعظم نے اعلان کیا کہ ’’ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں۔‘‘

ہزاروں مشکلات اور مخالفتوں کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان حاصل کرلیا اور قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو دستور ساز اسمبلی کا ایک خاص اجلاس دہلی میں منعقد ہوا اور اس نے برطانوی دولت مشترکہ کی جانب سے ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہی رہے۔ پاکستان وجود میں تو آگیا لیکن قائد اعظم کو بڑے کٹھن مراحل اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا، انھوں نے اپنے بیان میں کہا ’’جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ختم کردیں گے بڑی بھول میں مبتلا ہیں۔

دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہوسکے، اس پاکستان کا جو اب مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہوچکا ہے۔‘‘ انھوں نے مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر تشدد کے حوالے کہا کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ تو نے ہی آزاد وخودمختار سلطنت ہمیں بخشی ہے تو ہی یہاں کے باشندوں کو مصائب و آلام برداشت کرنے کی ہمت دے اور صبرو استقلال عطا فرما اور انھیں یہ صلاحیت بھی دے کہ ہر قسم کے اشتعال کے باوجود پاکستان کی خاطر اس کے امن و امان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں۔‘‘

قائداعظم کی دعا قبول ہوئی اور مہاجرین نے تمام تکالیفوں کے باوجود صبر کا دامن نہ چھوڑا کہ ان کے قائد کا یہی درس تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان کن مشکلات اور سنگلاخ چٹانوں پر گزرنے کے بعد وجود میں آیا یقیناً اس کی قدروقیمت وہی لوگ سمجھتے ہیں جنھوں نے اس کی تشکیل وتعمیر میں اپنے خاندان اور مال و اسباب کی قربانی دی اور آج جن لوگوں کو پاکستان سونے کی پلیٹ میں رکھا ہوا ملا، انھوں نے اس کی قدر اس کے وسائل کے حصول کی حد تک کی، جب کہ اس کی تعمیر میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

یہ پاکستان کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ جنھیں قائداعظم جیسا مدبر، صاحب ذی فہم، عقل و دانش کا پیکر اور سچا مسلمان میسر آیا، جس نے اپنی پوری زندگی ایک علیحدہ اس وطن کے لیے وقف کردی جو نہ صرف مسلم ملک ہوگا بلکہ مذہبی آزادی بھی نصیب ہوگی، کسی کا ڈر اور خوف نہ ہوگا۔ لیکن افسوس کہ سب کچھ الٹ ہوگیا۔ قائداعظم جیسے لوگ صدیوں میں پید اہوتے ہیں۔ ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ امریکا کے ایک سابق صدر ٹرومین (Trueman) نے قائداعظم محمد علی جناح کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے ’’دولت پاکستان کا معمار دنیا کی سب سے عظیم اسلامی سلطنت کا باپ ہے، مجھے یقین ہے کہ مسٹر جناح کی غیر معمولی قیادت کی یاد حکومت پاکستان اور باشندوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔‘‘

ہم ہر سال پاکستان کی سالگرہ رنگ برنگی جھنڈیوں اور جھنڈوں کو سرکاری عمارات اور گھروں و گاڑیوں پر لگا کر مناتے ہیں، کوئی پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کے لیے کوشاں نظر نہیں آتا، جس ملک میں بے شمار وسائل موجود ہیں وہاں اس قدر محرومی، گیس و معدنیات کے معاملے میں پاکستان خود کفیل تھا، پھر اچانک کیا ہوا؟ گیس غائب، بجلی غائب، پانی غائب، مہنگائی کی دھوپ سروں پر چھائی ہے۔ دہشت گردی عروج پر ہے۔ جانوں کی حفاظت کرنا مشکل ترین کام بن چکا ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات جن میں ڈاکٹر، پروفیسر، پرنسپل، فلاحی کام کرنے والے ہیں ہر روز بڑی آسانی سے مار دیے جاتے ہیں۔ اگر قائد اعظم اور ان کے رفقا کو ان حالات کا اندازہ ہوتا تب پاکستان کے قیام کی ضرورت ہرگز پیش نہ آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔