قصور اور ’’بے قصور‘‘

جاوید قاضی  جمعرات 25 جنوری 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

دل زارکا حال آپ کے سامنے ہے، وطن عزیز پر جو نشتر اس بار برسائے گئے ہیں۔ یہ وہی بند دریچے ہیں جو ہم نے اب پھر نئی سمت میں کھولے ہیں یہ انھیں باتوں کا تسلسل ہے جو بند ہو بھی گئی یا شاید پھر سے کھلی ہیں، پشاور میں ایک شاگرد نے پرنسپل کو خود ہی عدالت بن کر فیصلہ کرکے مار بھی دیا۔ عین اسی وقت حیدرآباد میں ایک شاگرد نے اپنے استاد کو زد وکوب کیا۔ یہ سب Fake Encounters  ہیں۔ یہاں ہر کوئی اپنے انداز میں راؤ انوار ہے۔

قصور، صرف قصور کا نہیں ہے۔ یہاں ہر چوراہے،گلی کوچے میں ایک قصور ہے۔ اب یہ تمام زخم جیسے ابل پڑے ہیں مجھے یوں گماں ہوتا ہے کہ اب ان میں شدت آگئی ہے۔ یہ ہے وہ ہے لمحہ فکریہ کہ سرجوڑ کر بیٹھنا ہے۔

دنیا کا ایسا کونسا ملک ہوگا جہاں ادارے آپس میں اس طرح سے گتھم گتھا ہونگے جیسے کے یہاں۔ پھر دل یہ بھی کہتا ہے:

’’کب ٹھہرے گا درد دل
کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے
سنتے تھے سحر ہوگی

کب جان لہو ہوگی
کب اشک گہر ہوگا

کس دن تری شنوائی
اے دیدۂ تر ہوگی‘‘

ہم نے بہت دیر کر دی مگر مجموعی بیانیہ جو اس دفعہ بنا ہے وہ صحت مند ہے۔اس سے ایک امید کی کرن پھوٹتی ہے۔ ہر ادارہ تنقید کا خواہاں ہے۔ تنقید سے بڑ اکوئی نہیں۔ اس ترتیب سے تعظیم بھی ٹھہرتی ہے اور عدلیہ و پارلیمنٹ اس تعظیم میں دوسروں سے بر تر ہیں اور سب سے برتر اس ملک کے لیے آئین ہے۔ اس آئین میں سب سے پہلے آتا ہے اللہ کا نام اور پھر یوں سمت متعین ہوتی ہے۔

ہم ماڈرن ریاست ہونے کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ ماڈرن ریاستیں صرف آئین سے نہیں بنتیں، آئین عکس ہوتا ہے بنانے والوں کا۔ یہ کیا ہے کہ چھبیس سال گزرگئے ہمیں آئین بناتے ہوئے شاید پاکستان ہی ایسا ملک ہوگا دنیا کا۔ دو دھڑے ہوئے تو آئین کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہم نے اس وقت بھی بہت دیرکردی، مہرباں آتے آتے۔ یہ مملکت، مختلف اقوام ، مختلف زبانوں، ثقافتوں اور مختلف لوگوں کا مجموعہ ہے اور یہی بات ہے جو ہم نے نہیں مانی تھی اور یہی بات ہے جو آئین مانگتا ہے۔

اٹھارویں ترمیم میں اس خیال کو آئین نے بڑی خندہ پیشانی سے تسلیم کیا اور بھی بہت کچھ جذب کرنے کے لیے اور تسلیم کرنے کے لیے اس آئین میں گنجائش ہے۔ اس طرح کی ترامیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اور بھی مضبوط ہوتا ہے، مگر ایسی ترامیم آئین میں کم ہوئیں زیادہ تر اس آئین میں وہ ترامیم کی گئیں جس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو زبوں کیا۔ ہر ملک کے قوانین ہوتے ہیں اچھے بھی اور کچھ برے بھی اورجو عدالتیں ہوتی ہیں بشرطیکہ وہ آزاد ہوں، ایسی عدالتیں اچھے قوانین کی تشریح میں اور بے باک ہو جاتی ہیں اور برے قانون کی تشریح میں محدود ہو جاتی ہیں اسی کوکہتے ہیں Rule of Law  جو ہمارا بھی ہے اور ہر ماڈرن ریاست کا بھی۔

کونسی ریاست کی فہرست میں اتنے گمشدہ افراد ہونگے جتنے کے ہمارے۔ لاہور میں رضا سے لے کر سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کئی نوجوانوں کے نام اس فہرست میں ہیں۔ جو اچھی بات ہے وہ شاید یہ ہے کہ اب صرف تین چھوٹے صوبوں کو یہ شکایت نہ رہی۔ چلو ظلم ڈھانے کی اس روایت میں ہم نے سب کو ایک نظر سے تو دیکھا۔ یہ Fake encounters  ، Missing persons  ، ہر قصور اور ’’بے قصور‘‘ کراچی سے لے کر خیبر تک فیضؔ کی اس بات کی طرح ہے۔

ہر سخن جو ہم نے رقم کیے
سب ورق ہیں تیری یاد کے

کوئی لمحہ صبح فراق کا
کئی شام ہجر کی مدتیں

یہ میرا وطن عزیز کچھ بھی نہیں بس کئی شامیں ہجر کی ہیں، وصال میسر نہیں اور جستجو ابھی جاری ہے۔ جانے کتنے FakeEncounters  اب بھی ہونے ہیں کتنے گمشدہ اب بھی ہونے ہیں،کتنے قصور اب بھی رقم ہونے ہیں اور کتنے بے قصور اب بھی مرنے ہیں۔ ادارے ہیں کہ آپس سے فارغ ہوتے نہیں۔

انصاف ہے کہ جیسے پہاڑکی چٹانوں پر ہو، روٹی چاند کے ساتھ اٹک گئی ہے اور میری بھوک سورج بسر ہوگئی ہے، مگر ہم ہیں بیس کروڑ اورکچھ عرصے بعد ہم تیس کروڑ۔ جہاں Spring Revolutions  آئے تھے ان اقوام کی قدامت بھی ہم جیسی تھی یعنی 50% سے زیادہ تیس سے کم عمر پر مبنی تھی۔ ہمارا ماجرا بھی کچھ اس طرح کا ہے یا شاید اس سے بھی برا کے وہ اقوام اور ممالک فیڈریشن نہ تھے جب کہ ہم فیڈریشن ہیں۔

جیسا بھی ہے لیکن ایک چیز بہت خوش آیند ہے کہ ہم سب جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ ہم آئین کو بھی مانتے ہیں لیکن ہم آئین کو اتنے معیاری ماننے والوں میں سے نہیں جوکہ اس وقت کی ضرورت ہے۔ جمہوریت توہے لیکن زرداری اور نواز شریف کی۔ خانصاحب ہیں وہ پارلیمنٹ کی عزت نہیں کرتے، ہماری عدالتیں بھی ابھی حال ہی میں نظریہ ضرورت سے آزاد ہوئی ہیں اور ہماری افواج بھی حال ہی میں ضیاء الحق اور جنرل مشرف سے آزاد ہوئی ہیں۔

ادارے بنتے ہیں جب ان کے رہبر ثانوی اور ادارے اول ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ خود عوام ہیں، سوئے ہوئے، نڈھال بھوک و افلاس کے شکار اور نا خواندہ۔ ہماری جمہوریت کمزور اس لیے ہے کہ عوام کمزور ہیں۔ ہماری جمہوریت مضبوط تب ہوگی جب ہمارے عوام خواندہ، جاگی ہوئے، ہنر مند اور اکثریت مڈل کلاس ہوگی۔

جمہوریت ان ریاستوں کا گہنا ہے جہاں مڈل کلاس مضبوط ہوتی ہے۔ جتنے بھرپور، مضبوط اور وسیع یہ معاشی تعلقات ہوتے ہیں اتنا ہی اس سوسائٹی کے اندر علم، ادب، آرٹ اور تحقیق غرض کے سوسائٹی ہونے کے تمام زاویے بھرپور ہوتے ہیں۔ غور سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ساؤتھ سندھ، سینٹرل پنجاب ، ساؤتھ بلوچستان اور شاید نصف پختونخوا ووٹ مجموعی طور پر بیانیے کی بنیاد پر دیتا ہے۔ وہ ٹھیک ہے اس بیانیے پر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن جمہوریت ایسی مڈل کلاس سوچ سے ہی پروان چڑھتی ہے اور یہی لوگ اس کے محافظ ہوتے ہیں۔ ہمارا ایسٹ پاکستان اسی طرزکا عکس تھا کہ شیخ مجیب، بھٹوکی طرح جاگیردار نہ تھے۔

آجکل دنیا کے پولیٹکل سسٹم میں جمہوریت کو جیسے پھپوندی (Fungus)  لگ گئی ہو اور اسی پھپوندی کی ایک شکل ٹرمپ جیسے لیڈران کا پیدا ہونا ہے لیکن یہ سلسلہ طویل المعیاد نہیں اور جمہوریت کے اس تسلسل کوکوئی سسٹم نہیں روک سکتا۔

آئیے ہم بھی اپنے آپ کو اور سے اور جمہوریت کے تابع کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی ہو کہ پھر آیندہ نہ کوئی قصور رقم ہو، نہ بے قصور مظلوم ہو، نہ جعلی مقابلےFake Encounters  ہوں اور نہ کوئی لاپتہ افرادMissing Persons  ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔