عدلیہ کے چیلنجزاور سیاسی قیادت کا کردار
ہمارا عدالتی نظام دہشتگردوں کے مقدمات سننے کے قابل ہی نہیں تھا۔
msuherwardy@gmail.com
پاکستان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ایک شور ہے۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدالتی اصلاحات کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ عدلیہ اس وقت عوام کے کٹہرے میں ہے۔ لوگ عدلیہ پر بات کر رہے ہیں۔ عدلیہ کی کارکردگی پر بات ہو رہی ہے۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ عدلیہ کے ذمے داران خود بھی عدالتی اصلاحات پر بات کر رہے ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ انھیں بھی احساس ہے کہ عدالتی اصلاحات کے بغیر اب کام نہیں چلے گا۔
عدلیہ کو اس وقت دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج مخصوص سیاسی قیادت کی جانب سے عدلیہ پر چڑھائی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نا اہلی کے بعد نواز شریف کی جانب سے عدلیہ پر جو چڑھائی شروع کی گئی تھی اس نے عدلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو مقدمات کے سیاسی تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے لیکن پھر بھی سیاسی مقدمات کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں۔ شاید نواز شریف کے مقدمہ میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
وقت ثابت کر رہا ہے کہ جو لوگ کہہ رہے تھے کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم کے مصداق عمران اور نواز دونوں کو نا اہل کر دیا جائے۔ وہ شاید سیاسی طور پر درست بات کر رہے تھے۔ اس سے عدلیہ پر آج جو دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے۔ وہ نہ ہوتا۔ نواز شریف کا عوامی مقدمہ بھی کمزور ہو جاتا۔ مجھے کیوں نکالاکی اہمیت ختم ہو جاتی۔ عمران بھی شور مچانے کی پوزیشن میں نہ ہوتے۔ عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ آج عدلیہ عمران کے بچ جانے کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ اور شاید جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ عدلیہ کی مشکلات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ کیونکہ عدلیہ کے فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ جو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
عدلیہ کی مشکل صرف نواز شریف کے حوالہ سے نہیں ہے۔ آپ تحریک انصاف کو ہی دیکھ لیں۔ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو عدلیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے انھیں پارٹی سے نہیں نکالا۔ بلکہ ان کے استعفیٰ کے باوجود سیکریٹری جنرل کا عہدہ خالی رکھا گیا ہے۔ ان کے بیٹے کو ان کی جگہ ٹکٹ دے دیا گیاہے۔ طاہر القادری کی اے پی سی میں وہی نا اہل جہانگیر ترین تحریک انصاف کی نمایندگی کر رہے تھے۔ حیرانگی کی بات تو یہ تھی کہ نہ طاہر القادری کو اس پر اعتراض تھا اور نہ ہی عمران خان کو اس پر اعتراض ہے۔
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کی مصداق عمران خان کا بھی نا اہلی کے حوالے سے دوہرا معیار ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی اور ان کی پارٹی صدارت پر عمران خان کا کچھ اور موقف ہے جب کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی اور پارٹی کی سیکریٹری جنرل کے عہدہ کے حوالے سے ان کا موقف اور ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں نے عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ انداز اور حکمت عملی مختلف ہے۔ نواز شریف کی مجبوری ہے کہ انھیں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لیجانا تھا تا کہ وہ اپنا ووٹ بینک بچا سکتے۔ جب کہ جہانگیر ترین کے کیس میں تحریک انصاف نے ان کو بحال رکھ کر عدلیہ کے فیصلے کی نفی کر دی ہے۔
انداز مختلف ہے لیکن بات ایک ہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی عدلیہ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ اسی لیے بلاول بھٹو اور خورشید شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس اور تقاریر پر منفی رد عمل ظاہر کیا ہے۔ دونوں کی جانب سے عدلیہ کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالتی اصلا حا ت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ گرین سگنل بھی دیا گیا ہے لیکن مقدمات کے التوا کی بھی بات کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ تاثر غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو عدالتی نظام پر تحفظات ہیں جن کا اب وہ کسی نہ کسی شکل میں کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اب جو صورتحال بن گئی ہے عدلیہ کے پاس بھی اس سے راہ فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عدلیہ کو اب اپنے اندر اصلاحات کرنا ہو نگی۔ اس ساری بحث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عدلیہ کو سیاستدانوں کے مقدمات نہیں سننے چاہیے۔ حالانکہ میرے چند دوستوں کی یہ رائے ہے اگر دہشتگردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جا سکتے ہیں تو سیاستدانوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں جا سکتے۔ میں نے اپنے دوستوں سے بہت گزارش کی ہے کہ ایک مہذب اور جمہوری معاشرہ میں متبادل عدالتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن میرے دوست بضد ہیں کہ اگر نہیں ہے تو دہشتگردوں کے لیے کیوں بنائی گئی ہیں۔ میں نے کہا یہ درست ہے کہ ایک مہذب اور جمہوری معاشرہ میں دہشتگردوں کے مقدمات کے لیے بھی فوجی عدالتیں نہیں ہو سکتیں لیکن مخصوص حالات میں وہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ میرے دوست ہنسنے اور مسکرانے لگے اور مجھے کہا کہ تم ڈرتے ہو اس لیے نہیں کہہ رہے کہ ہمارا عدالتی نظام دہشتگردوں کے مقدمات سننے کے قابل ہی نہیں تھا۔
میں نے کہا کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ اب سیاستدانوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج دئے جائیں۔ دوست مسکرائے۔ اور ہنسنے لگے۔ پھر کہا کہ جو حالات ہیں۔ اس میں تو یہی ثابت ہو رہا ہے۔ میں اپنے دوستوں کی بات سن کر پریشان ہو گیا ہوں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی عدلیہ کا ساتھ نہیں دیا۔ بھٹو کے فیصلے سے لے کر ہر فیصلے کا مذاق ہی اڑایا گیا۔ لیکن شاید اب صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ لیکن دہشتگردوں کی حد تک تو مان لیا گیا کہ ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیج دیے جائیں۔ اب یہ سیاستدانوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج دیے جائیں۔ پھر نیب کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی بات ہو گی۔ پھر کہیں گے کہ یہ آپشن ہونی چاہیے کہ آپ اپنا مقدمہ عام عدالتی نظام میں لیجانا چاہتے ہیں یا فوجی عدالت میں۔ لیکن اس کو کون مانے گا۔ پھر تو عدلیہ کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ پھر تو سارے مقدمے ہی فوجی عدالتوں میں بھیجنے پڑیں گے۔ پہلے ہی زینب کا کیس فوجی عدالت میںبھیجنے کی بات ہو رہی ہے جو درست نہیں۔ اس مقدمہ کا ٹرائل ہمارے عدالتی نظام کے تحت ہی ہونا چاہیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میں عدلیہ کو کیا کرنا چاہیے۔ شاید چیف جسٹس پاکستان کو صورتحال کا انداز ہ ہے۔ وہ متحرک بھی نظر آرہے ہیں۔ اتوار کو بھی کام کر رہے ہیں۔ وہ عوامی اہمیت کے ہر مقدمہ کو سن بھی رہے ہیں۔ لیکن عام آدمی کیا کرے وہ اپنا مقدمہ عوامی اہمیت کا کیسے بنائے۔ مزہ تو تب ہے کہ پورے پاکستان کی تمام عدالتیں اتوار کو کام کرنا شروع کر دیں۔ چھٹیاں ختم کر دی جائیں۔ اکیلے چیف جسٹس کے بنچ کا اتوار کو کام کرنا کافی نہیں۔ ماتحت عدلیہ کو بھی اتوار کو کام کرنا ہو گا۔ جس طرح چیف جسٹس مقدمات میں التوا نہیں دیتے۔ کم از کم جج صاحبان جو مقدمہ سننے لگیں اس میں تاریخ نہ دیں۔ جس کی باری نہ آئے وہ اور بات ہے۔ میری چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ اگر وہ خود رات کو آٹھ بجے تک کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تو باقی جج صاحبان کو تیار کریں کہ کام کرنے کے اوقات میں اضافہ کریں۔ چھٹیاں ختم کریں۔ اگست کی چھٹیاں ختم کریں۔ سردیوں کی چھٹیاں ختم کریں۔ شام کو کام کریں۔ انشاء اللہ اللہ مدد کرے گا۔
عدلیہ کو اس وقت دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج مخصوص سیاسی قیادت کی جانب سے عدلیہ پر چڑھائی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نا اہلی کے بعد نواز شریف کی جانب سے عدلیہ پر جو چڑھائی شروع کی گئی تھی اس نے عدلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو مقدمات کے سیاسی تقاضوں کے مطابق نہیں بلکہ قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے لیکن پھر بھی سیاسی مقدمات کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں۔ شاید نواز شریف کے مقدمہ میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
وقت ثابت کر رہا ہے کہ جو لوگ کہہ رہے تھے کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم کے مصداق عمران اور نواز دونوں کو نا اہل کر دیا جائے۔ وہ شاید سیاسی طور پر درست بات کر رہے تھے۔ اس سے عدلیہ پر آج جو دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے۔ وہ نہ ہوتا۔ نواز شریف کا عوامی مقدمہ بھی کمزور ہو جاتا۔ مجھے کیوں نکالاکی اہمیت ختم ہو جاتی۔ عمران بھی شور مچانے کی پوزیشن میں نہ ہوتے۔ عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ آج عدلیہ عمران کے بچ جانے کی وجہ سے مشکل میں ہے۔ اور شاید جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ عدلیہ کی مشکلات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ کیونکہ عدلیہ کے فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ جو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
عدلیہ کی مشکل صرف نواز شریف کے حوالہ سے نہیں ہے۔ آپ تحریک انصاف کو ہی دیکھ لیں۔ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو عدلیہ کی جانب سے نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے انھیں پارٹی سے نہیں نکالا۔ بلکہ ان کے استعفیٰ کے باوجود سیکریٹری جنرل کا عہدہ خالی رکھا گیا ہے۔ ان کے بیٹے کو ان کی جگہ ٹکٹ دے دیا گیاہے۔ طاہر القادری کی اے پی سی میں وہی نا اہل جہانگیر ترین تحریک انصاف کی نمایندگی کر رہے تھے۔ حیرانگی کی بات تو یہ تھی کہ نہ طاہر القادری کو اس پر اعتراض تھا اور نہ ہی عمران خان کو اس پر اعتراض ہے۔
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کی مصداق عمران خان کا بھی نا اہلی کے حوالے سے دوہرا معیار ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی اور ان کی پارٹی صدارت پر عمران خان کا کچھ اور موقف ہے جب کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی اور پارٹی کی سیکریٹری جنرل کے عہدہ کے حوالے سے ان کا موقف اور ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں جماعتوں نے عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ انداز اور حکمت عملی مختلف ہے۔ نواز شریف کی مجبوری ہے کہ انھیں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لیجانا تھا تا کہ وہ اپنا ووٹ بینک بچا سکتے۔ جب کہ جہانگیر ترین کے کیس میں تحریک انصاف نے ان کو بحال رکھ کر عدلیہ کے فیصلے کی نفی کر دی ہے۔
انداز مختلف ہے لیکن بات ایک ہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی عدلیہ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ اسی لیے بلاول بھٹو اور خورشید شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس اور تقاریر پر منفی رد عمل ظاہر کیا ہے۔ دونوں کی جانب سے عدلیہ کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالتی اصلا حا ت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ گرین سگنل بھی دیا گیا ہے لیکن مقدمات کے التوا کی بھی بات کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ تاثر غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو عدالتی نظام پر تحفظات ہیں جن کا اب وہ کسی نہ کسی شکل میں کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اب جو صورتحال بن گئی ہے عدلیہ کے پاس بھی اس سے راہ فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
عدلیہ کو اب اپنے اندر اصلاحات کرنا ہو نگی۔ اس ساری بحث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عدلیہ کو سیاستدانوں کے مقدمات نہیں سننے چاہیے۔ حالانکہ میرے چند دوستوں کی یہ رائے ہے اگر دہشتگردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جا سکتے ہیں تو سیاستدانوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں جا سکتے۔ میں نے اپنے دوستوں سے بہت گزارش کی ہے کہ ایک مہذب اور جمہوری معاشرہ میں متبادل عدالتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن میرے دوست بضد ہیں کہ اگر نہیں ہے تو دہشتگردوں کے لیے کیوں بنائی گئی ہیں۔ میں نے کہا یہ درست ہے کہ ایک مہذب اور جمہوری معاشرہ میں دہشتگردوں کے مقدمات کے لیے بھی فوجی عدالتیں نہیں ہو سکتیں لیکن مخصوص حالات میں وہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ میرے دوست ہنسنے اور مسکرانے لگے اور مجھے کہا کہ تم ڈرتے ہو اس لیے نہیں کہہ رہے کہ ہمارا عدالتی نظام دہشتگردوں کے مقدمات سننے کے قابل ہی نہیں تھا۔
میں نے کہا کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ اب سیاستدانوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج دئے جائیں۔ دوست مسکرائے۔ اور ہنسنے لگے۔ پھر کہا کہ جو حالات ہیں۔ اس میں تو یہی ثابت ہو رہا ہے۔ میں اپنے دوستوں کی بات سن کر پریشان ہو گیا ہوں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی عدلیہ کا ساتھ نہیں دیا۔ بھٹو کے فیصلے سے لے کر ہر فیصلے کا مذاق ہی اڑایا گیا۔ لیکن شاید اب صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ لیکن دہشتگردوں کی حد تک تو مان لیا گیا کہ ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیج دیے جائیں۔ اب یہ سیاستدانوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج دیے جائیں۔ پھر نیب کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی بات ہو گی۔ پھر کہیں گے کہ یہ آپشن ہونی چاہیے کہ آپ اپنا مقدمہ عام عدالتی نظام میں لیجانا چاہتے ہیں یا فوجی عدالت میں۔ لیکن اس کو کون مانے گا۔ پھر تو عدلیہ کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ پھر تو سارے مقدمے ہی فوجی عدالتوں میں بھیجنے پڑیں گے۔ پہلے ہی زینب کا کیس فوجی عدالت میںبھیجنے کی بات ہو رہی ہے جو درست نہیں۔ اس مقدمہ کا ٹرائل ہمارے عدالتی نظام کے تحت ہی ہونا چاہیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے میں عدلیہ کو کیا کرنا چاہیے۔ شاید چیف جسٹس پاکستان کو صورتحال کا انداز ہ ہے۔ وہ متحرک بھی نظر آرہے ہیں۔ اتوار کو بھی کام کر رہے ہیں۔ وہ عوامی اہمیت کے ہر مقدمہ کو سن بھی رہے ہیں۔ لیکن عام آدمی کیا کرے وہ اپنا مقدمہ عوامی اہمیت کا کیسے بنائے۔ مزہ تو تب ہے کہ پورے پاکستان کی تمام عدالتیں اتوار کو کام کرنا شروع کر دیں۔ چھٹیاں ختم کر دی جائیں۔ اکیلے چیف جسٹس کے بنچ کا اتوار کو کام کرنا کافی نہیں۔ ماتحت عدلیہ کو بھی اتوار کو کام کرنا ہو گا۔ جس طرح چیف جسٹس مقدمات میں التوا نہیں دیتے۔ کم از کم جج صاحبان جو مقدمہ سننے لگیں اس میں تاریخ نہ دیں۔ جس کی باری نہ آئے وہ اور بات ہے۔ میری چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ اگر وہ خود رات کو آٹھ بجے تک کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تو باقی جج صاحبان کو تیار کریں کہ کام کرنے کے اوقات میں اضافہ کریں۔ چھٹیاں ختم کریں۔ اگست کی چھٹیاں ختم کریں۔ سردیوں کی چھٹیاں ختم کریں۔ شام کو کام کریں۔ انشاء اللہ اللہ مدد کرے گا۔