یوم کشمیر

مقتدا منصور  پير 5 فروری 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج پورے ملک میں یوم کشمیر کے سلسلے میں تعطیل ہے۔ کیوں تعطیل ہے؟ بیشتر لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں۔ کشمیری عوام کے کیا مسائل ہیں؟ زیادہ تر لوگ اس سے نابلد ہیں۔ بس یہ معلوم ہے کہ اس دن کشمیری عوام سے یکجہتی کی خاطر چھٹی ملتی ہے۔ دیر سے سو کر اٹھنا ہوتا ہے۔ عزیز واقارب اور دوست و احباب سے ملنے جانا ہوتا ہے، یا پھر انھیں اپنے یہاں بلانا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ تو چاندی ہوگئی، تین چھٹیاں ایک ساتھ آگئیں۔ اس لیے اغلب گمان ہے کہ بہت سے لوگوں نے پکنک یا دوسرے تفریحی پروگرام بنا رکھے ہوں۔

ہم آج تک اس دن چھٹی کے منطقی جواز کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔ کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی خاطر اپنے کام کاج ٹھپ کرلینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا صرف چھٹی کرلینے سے کشمیر کاز کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر درست انداز میں سفارتی کوششوں کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ایک مولانا صاحب گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ مگر انھوں نے اس سلسلے میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے، یہ بھی سب کے علم میں ہے۔

یہ بھی سوال ہے کہ آیا وہ بلند پایہ سفارتکار ہیں؟ کیا وہ اس مسئلہ کے ماہر (Expert) ہیں؟ اگر وہ معاملہ کی نزاکتوں اور موشگافیوں سے ناآشنا ہیں، تو پھر انھیں بھاری تنخواہ اور دیگر مراعات کے ساتھ اس منصب پرکیوں فائز کر رکھا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کشمیری عوام اور کشمیر کاز کے ساتھ کھلا مذاق نہیں ہے؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ بھی اس مسئلے کو محض لٹکائے رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے محض لیپاپوتی کرکے عوام کو بہلانے کی کوشش کررہی ہے۔ ہمیں یہ یقین واثق ہے کہ حکمران اشرافیہ نے 70 برسوں کے دوران کشمیر کے معاملہ پر جتنے پینترے بدلے ہیں، اس عمل نے اس مسئلے کو حل کی طرف لے جانے کے بجائے، مزید الجھاوے کا شکار کردیا ہے۔ بلکہ باالفاظ دیگر عالمی رائے عامہ کو جو کبھی کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی اور ان کی آزادی کے لیے آواز اٹھایا کرتی تھی، ہمارے غیر ذمے دارانہ رویوں کی وجہ سے اب خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔

کشمیر کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے برٹش انڈیا میں آزادی کی تحاریک کا مطالعہ ضروری ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ، دیگر چھوٹی جاتیوں اور مذاہب (سکھ، بدھ، مسیحی اور دیگر) کے ماننے والوں کا آزادی کے بعد کا نکتہ نظر سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی تناؤ نہیں، بلکہ یہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔

جو لوگ انسانیت اور انسانوں کے حق خود ارادیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انسانوں کے کسی گروہ کو ان کی مرضی کے بغیر کسی جغرافیائی حدود میں مقید نہیں رکھا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کا کنونش بھی یہی کہتا ہے کہ جب کسی علاقے کے 40 لاکھ افراد اگر کسی جغرافیائی بندوبست میں غیر مطمئن اور اپنے الگ تشخص کے خواہاں ہوں، تو آزادی ان کا بنیادی حق ہے۔

اب اس حق کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اور کس کی غلطیوں کے سبب یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرگیا ہے؟ تاریخ کے اوراق پر پردہ ڈال دینے یا شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لینے سے حقائق کی تلخی کم نہیں ہوتی۔ ہمیں جرأت کے ساتھ ان غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا جو ہم سے سرزد ہوئیں۔ ان حقائق تک پہنچنے کے لیے ان دستاویزات کا عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کرنا ہوگا، جو اس حوالے سے اب تک سامنے آتی رہی ہیں۔ اس کے بعد برصغیر میں آباد مختلف قوموں، قومیتوں اور مذاہب و عقائد اور بعد از آزادی تصورات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔

ہم نے ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم کا مطمع نظر ہندوستان کی تقسیم نہیں تھی۔ قائداعظم کی 30 برسوں (1916ء سے 1946ء) پر محیط سیاسی جدوجہد کا مطالعہ کریں تو وہ آزاد ہند میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔

اس کے برعکس انڈین نیشنل کانگریس پر حاوی اعلیٰ جاتی کے ہندوؤں کو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اگر مسلمانوں کے نچلی جاتیوں اور دیگر مذاہب (سکھ، مسیحی، بدھ وغیرہ) کے ساتھ سیاسی روابط قائم ہوگئے تو 25 فیصد بالادست ہندوؤں کی سیاسی بالادستی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جن لوگوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کو پڑھا اور ان کی تحریروں کے بین السطور کو سمجھنے یا مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کے خیالات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، وہ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ یہ دونوں اور ان جیسے دیدہ ور صاحبان علم کیوں متحدہ ہند کے حامی تھے۔

یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن کی ناکامی کے بعد تقسیم ہند کو حقیقت کے طور پر قبول کیا تھا۔ اس بات کی دلیل برطانوی حکومت کی مختلف دستاویزات کے علاوہ BJP کے سینئر رہنما جسونت کی کتاب ہے، جس میں انھوں نے نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل کو تقسیم ہند کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ جو اصحاب بھارت میں 70 برسوں کے دوران مسلم کش فسادات کا نفسیاتی نکتہ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان فسادات میں نچلی جاتیوں کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں 2002ء کے گجرات کے فسادات کا مطالعہ کرلیجئے، بہت کچھ سمجھ آجائے گا۔

اس تناظر میں کشمیر کے مسئلے کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940ء میں خودمختار ریاستوں (States) کا نعرہ محض دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر لگایا تھا۔ مگر اس نے کبھی بھارت کی جغرافیائی سسٹم اور اس کی بنیاد پر تقسیم کے کلیہ کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا تو مسٹر ریڈکلف کو باؤنڈری لائن کمیشن کے سربراہ کے طور پر قبول ہی نہ کرتی۔ دوسرے جس انداز میں تقسیم ہوئی، اسے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتی۔ یہ ایک باریک کھیل تھا، جو نہایت چابکدستی کے ساتھ انگریز آقاؤں نے کھیلا، جس میں انڈین نیشنل کانگریس برابر کی شریک تھی۔

جب تقسیم ہند کا مطالعہ کرتا ہوں تو میری سمجھ میں کئی باتیں نہیں آتی ہیں۔ یہاں تین شکوک کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اول، 1940ء کی قرارداد میں دیے گئے لفظ Statesسے “S” کاٹنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ دوئم، جب شیر بنگال مولوی فضل الحق اور حسین شہید سہروردی یہ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ اپنی توجہ مغربی خطے پر ملحوظ رکھے تو وہ کون سے عوامل تھے، جو ان کی بات کو تسلیم کرنے میں مانع تھے۔ سوئم، مشرقی پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1941ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 52 فیصد سے کچھ زیادہ تھی۔ اس ضلع کو پاکستان میں شامل کرنے پر کیوں زور نہیں دیا گیا؟ صرف تحصیل نارووال پر کیوں اکتفا کیا گیا؟ کیا مسلم لیگی قیادت اس حقیقت سے بے بہرہ تھی کہ کشمیر کو ہندوستان سے ملانے کا واحد زمینی راستہ پٹھان کوٹ سے گزرتا ہے، جو مسلم اکثریتی تحصیل تھی۔

عرض یہ ہے کہ کھری بات ماتھے پر شکن لاتی ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اس خطے کے دونوں بڑے ممالک کشمیری عوام کے جذبات کا مسلسل استحصال کررہے ہیں۔ دونوں ہی ایک خودمختار اور آزاد کشمیر کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ مسئلہ ایک طویل اور مسلسل تنازع کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی حیثیت اور اس سے وابستہ مفادات اس کی خودمختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

دراصل کشمیر کے قدرتی وسائل اور اس سے نکلنے والے آبی ذخائر اس کی مکمل آزادی اور خودمختاری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، مگر اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر اور ہم شہ رگ کہہ کر اپنے اپنے عوام کو بہلا رہے ہیں، مگر کشمیری عوام سے کسی کو کوئی رغبت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔