متحدہ قومی موومنٹ: پی آئی بی سے شروع، پی آئی بی میں دفن

مختار احمد  بدھ 14 فروری 2018
گروپ بندی کے سبب متحدہ کی سینیٹ میں نشستیں مشکوک ہوگئی ہیں جس کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔ (اسکرین شاٹ)

گروپ بندی کے سبب متحدہ کی سینیٹ میں نشستیں مشکوک ہوگئی ہیں جس کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔ (اسکرین شاٹ)

مجھے یاد ہے ذرا ذرا کہ 38 سال قبل کراچی یونیورسٹی میں، جہاں مہاجر طلبہ و طالبات کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا تھا، انہیں نہ صرف داخلوں میں پریشانی تھی بلکہ ان کا چلنا پھرنا بھی دو بھر تھا، ایسے میں الطاف حسین نے ’’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ (اے پی ایم ایس او) کی داغ بیل ڈالی۔ کیونکہ یہ لسانیت والی طلبہ تنظیم تھی لہذا زیادہ پذیرائی نہیں ملی اور محض چند مہاجر نوجوان طلبہ و طالبات ہی اس تنظیم کا حصہ بنے۔

تنظیم بنانے کی پاداش میں متحدہ کے قائد اور کارکنان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے تحت دوسری سیاسی طلبہ تنظیموں کے طلبہ نے اے پی ایم ایس او سے تعلق کی بناء پر اس کے قائد اور کارکنان کو زیادتیوں کا نشانہ بنا نا شروع کردیا۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور طلبہ تنظیم کراچی یو نیورسٹی سے نکل کر کالجوں تک جا پہنچی۔ سلیم شہزاد اردو سائنس کا لج کے یونٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی طرح دیگر رہنماؤں اور کارکنان نے شہر کے مختلف کا لجوں میں اپنے یو نٹ قائم کردیئے۔ تاہم مہاجر طلبہ و طالبات کو، جو اس وقت صرف اپنی قوم کی جنگ لڑ رہے تھے، زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ یہ جنرل ضیا الحق کی آمریت کا دور تھا لہذا حکومت نے تمام طلبہ تنظیموں پر پا بندی عائد کرکے اسے کالعدم قرار دے دیا۔

ایسے میں طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں کی تحریر و تقریر پر پا بندی عائد کردی گئی۔ اخبارات اول تو ان کے بیان ہی شائع نہیں کرتے تھے اور اگر کچھ عرصے بعد بیان شائع کیا جانا شروع کیا گیا تو تمام طلبہ تنظیموں کے ساتھ کالعدم کا اضافہ ضروری تھا جس کی بنیاد پر طلبہ تنظیموں نے مل جل کر اس بات کا یہ حل نکالا کہ انہوں نے اپنی طلبہ تنظیموں کو کالعدم ہو نے سے بچا نے کےلیے تنظیموں کے ساتھ ویلفیئر اور موومنٹ کے نام جوڑنا شروع کردیئے اور کئی ایک نے، جن میں اے پی ایم ایس او بھی شامل تھی، طلبہ سیاست چھوڑ کر ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ (ایم کیو ایم) بنالی اور طلبہ تنظیموں کے دائرہ کار کو شہر بھر میں پھیلانا شروع کردیا۔

کیونکہ ڈاکٹر فاروق ستار، احمد جمال، عظیم احمد طارق اور طارق جاوید سمیت بیشتر رہنماؤں کا تعلق پی آئی بی کالو نی سے تھا لہذا الطاف حسین اپنی ہونڈا ففٹی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر یہاں سیاست کےلیے آتے تھے۔ فٹ پاتھوں پر نشستیں ہوا کرتی تھیں اور ان ہی فٹ پاتھ کی نشستوں پر شہر کے مختلف علاقوں سے جلسوں کے دعوت نامے آتے۔ ایسے میں مجھے بھی لانڈھی میں ہونے والا ایک جلسہ یاد ہے جب شہر بھر میں شدید با رش ہورہی تھی لیکن لانڈھی کے علاقے میں بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا تھا۔ تب الطاف حسین، احمد جمال کی گاڑی میں بیٹھے (جس کے اوپر ایک ہوٹر بھی لگا ہوا تھا) سائرن بجاتے ہوئے جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کے قائد نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے شدید بوندا باندی کا لفظ تو سنا ہے کہ ایک علاقے میں ہورہی ہے لیکن دوسرے علاقے میں نہیں، مگر کبھی شدید بارشوں کا لفظ نہیں سنا کہ تمام علاقوں میں بارش ہورہی ہے اور لانڈھی میں بارش کا نام و نشان ہی نہیں جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اللہ بھی مہاجر قوم کے ساتھ ہے اور اسی وجہ کر بارش نہیں ہورہی تاکہ یہ جلسہ کامیاب ہوسکے۔

پھر مہاجر رہنما اسی طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں اپنا اثر رسوخ قائم کرتے رہے اور قوم پرست سیاستداں جی ایم سید مرحوم سے (جنہوں نے اپنی آخری سانس تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور ’’پاکستان نہ کھپن‘‘ کے نعرے لگاتے رہے) ناتہ جوڑ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مہاجر قومی موومنٹ نے برسوں کی ترقی کا سفر دنوں میں طے کرلیا۔ اسی دوران اچانک ایم کیو ایم کی جانب سے نشتر پارک میں جلسے کا اعلان کیا گیا۔ اس دن بھی شدید بارش ہورہی تھی لیکن نشتر پارک عوام سے بھرا ہوا تھا۔ ایسے میں مہاجر سیاستداں الطاف حسین نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہو ئے حسب معمول پارک کے اوپر سے گزرتے ہوئے ایک پی آئی اے کے طیارے کو دیکھ کر کہا کہ یہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا طیارہ نہیں بلکہ پنجاب انٹرنیشنل ایئرلائنز کا طیارہ ہے؛ اور حسب دستور اپنے خطاب میں پنجاب اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنایا۔

پھر اپنے مخصوص لب و لہجے میں، جو انتہائی سحر انگیز ہوتا تھا، انہوں نے سی آئی اے والوں، پولیس والوں، ایجنسی والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: لکھو کہ الطاف حسین نے جب ’’ایک دو تین‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنی قوم کو خاموش ہونے کو کہا تو وہاں مکمل طور پر خاموشی چھا گئی۔ اور واقعتاً جب انہوں نے ایک دو تین کی گنتی گنی تو پوری جلسہ گاہ اور اس کے اطراف کے علاقے میں، جہاں عوام کے سروں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، پن ڈراپ سائلنس ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں نے اس بارش کے دوران صرف لوگوں کی سانسوں اور پرندوں کے پھڑپھڑا نے کے سوا اور کوئی آواز نہیں سنی۔

اس طرح مہاجر قومی موومنٹ کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔ یہ سفر اس تیزی سے جاری ہوا کہ شہر بھر میں مہاجر قومی موومنٹ کی ایک اجارہ داری قائم ہوگئی اور لوگوں کی قسمت یا مقدمات کے فیصلے تھانوں اور کچہری کے بجائے مہاجر قومی موومنٹ کے یونٹ اور سیکٹر آفسز میں ہونے لگے۔ پھر جب عام انتخابات سمیت بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پتنگ کو وہ بھرپور مقبولیت حاصل ہوئی جس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔

لیکن اتنی مقبولیت مل جانے کے بعد یہ تنظیم کنٹرول میں آنے کے بجائے کنٹرول سے باہر ہو گئی اور اس کے عہدیداران و کارکنان نے پیسے کو اپنا ایمان سمجھ کر، لوگوں کی خدمت چھوڑ کر، پیسے کمانا شروع کردیئے۔ خود مہاجر عوام اس چیز سے پریشان تھی کہ ایسے میں 1992 میں ریاستی آپریشن شروع کیا گیا اور بے شمار کارکنان و رہنما پکڑے گئے جبکہ ڈاکٹر عمران فاروق، سلیم شہزاد و دیگر رہنماؤں نے، جن کے سروں کی قیمت مقرر کردی گئی تھی، بیرون ملک فرار ہونے میں ہی عافیت جانی۔ کوئی لانچوں کے ذریعے تو کوئی کسی اور ذریعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ایسے میں الطاف حسین نے بھی بیرون ملک راہ فرار اختیار کی اور لندن میں بیٹھ کر مہاجر قومی موومنٹ کو (جسے ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ میں تبدیل کیا جاچکا تھا) آپریٹ کرنا شروع کردیا۔

آپریشن ختم ہوا تو ایک بار پھر متحدہ قومی موئومنٹ نے اپنی صف بندی شروع کردی اور ہو نے والے عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں ہمدردی کا ووٹ لے کر بھرپور انداز سے کامیابیاں حاصل کیں۔ مگر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ جانے اور بلدیاتی نظام کے تحت کراچی، حیدر آباد، سکھر، اور میرپور خاص میں کامیابی کی صورت میں اسٹریٹ پاور قائم ہوجانے کے باوجود عوام کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی تجوریاں بھر تے رہے۔

تنظیم کی اسٹریٹ پاورکا یہ عالم تھا کہ الطاف حسین کے منہ سے نکلا ہوا ہڑتال کا جملہ پتھر پر لکیر ہوتا اور شہر بھر میں ایک روز کے بجائے دو روز کی ایسی ہڑتال ہوا کرتی تھی کہ پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔ کسی کی عزت نفس محفوظ نہیں تھی۔

متحدہ کے کارکنان جس کی چاہتے، اس کی پگڑی اچھال دیا کرتے تھے۔ ایسے میں عوام کے اندر ایک نفرت کی کیفیت تھی۔ اس کے باوجود لوگ ’’جئے مہاجر‘‘ کا نعرہ لگانے اور ووٹ دینے پر مجبور تھے۔ مگر کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، لہذا متحدہ کے رہنما، جنہوں نے اگست کے مہینے میں اپنے مطالبات کے حق میں کراچی پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال اور دھرنا دے رکھا تھا جس سے الطاف حسین دن میں کئی کئی بار ٹیلیفونک خطاب کرتے تھے جس پر رہنما اور کارکنان بھرپور تالیاں بجا کر انہیں داد و تحسین پیش کرتے تھے۔

اچانک 22 اگست 2016 کو قائد تحریک الطاف حسین جوش خطابت میں آکر پاکستان کے خلاف نعرے بلند کردیئے اور دھرنے میں بیٹھے کارکنان کو میڈیا ہاؤسز پر حملے کےلیے اکسایا۔ اس پر وہ کارکنان جن کی تعداد لاکھوں سے کم ہوکر سینکڑوں میں پہنچ گئی تھی، قائد کے حکم پر ’’قائد کا ہو ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے میڈیا ہاؤسز پر حملہ آور ہوگئے جس پر ریاستی ادارے بھی حرکت میں آ گئے اور انہوں نے بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے کارکنان اور عہدیداران کو گرفتار کرلیا، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔

حکومت نے متحدہ کے قائد کی تحریر و تقریر پر مکمل پابندی عائد کردی جس کے بعد کارکنان کی ایک بڑی اکثریت یا تو گرفتار ہوگئی یا پھر انہوں نے روپوشی اختیار کرلی۔ اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آج شاید متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیم کا آخری دن ہے مگر اچانک ڈاکٹر فاروق ستار نے، جو متحدہ کے بنیادی کارکنان میں شمار کئے جاتے ہیں، اپنی گرفتاری اور رینجرز ہیڈکوارٹر میں جانے کے بعد 23 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کردیا بلکہ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے نام سے اس تنظیم کو نئے سرے سے منظم کرنا شروع کردیا۔

متعدد رہنما ان کے ساتھ بھی ہوگئے اور اس طرح ایک بار پھر متحدہ کا سیاسی سفر شروع ہوگیا۔ مگر انہیں عوام میں پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کے باوجود وہ یہ باور کراتے رہے کہ اب متحدہ کا مکمل کنٹرول ان کے پاس ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ میں سب سے پہلے 1992 میں آفاق احمد کی قیادت میں ایک گروپ مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کی صورت میں مہاجر سیاست کا نعرہ بلند کرتے ہو ئے علیحدہ ہوگیا۔ پھر 2016 کے اوائل ہی میں مصطفی کمال نے بھی وفاق کی سیاست کے نام پر پاک سر زمین پارٹی کا اعلان کردیا۔

متحدہ سے جڑے، بچے کچھے کارکنان ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ تھے مگر اچانک سینیٹ کے الیکشن میں ان کی جانب سے کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے کی بات ہوئی تو عامر خان سمیت اہم رہنماؤں نے اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کی مگر فاروق ستار نے، جو الطاف حسین کی غیر موجودگی میں اپنے آپ کو ان کی جگہ تصور کرنے لگے تھے، اپنے پرانے ساتھیوں کی باتیں نظرانداز کرتے ہوئے ضد اختیار کرلی کہ چند روز پہلے ہی آنے والے کامران ٹیسوری کو (جو ڈپٹی کنوینر بھی ہیں) سینیٹ کی رکنیت کےلیے نامزد کیا جائے۔ اس پر ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کے درمیان اختلافات انتہائی شدید ہوگئے۔

عامر خان گروپ نے بہادر آباد کے مر کز میں بیٹھ کر اس فیصلے کی مخالفت جبکہ فاروق ستار نے پی آئی بی میں موجود اپنے گھر کے مرکز سے ان پر لفظی گولہ باری شروع کردی۔ مسلسل ایک ہفتے تک میڈیا اور مہاجر عوام شدت کے پیدا ہونے والے ان اختلافات کی زد میں رہی اور پوری مہاجر قوم تماشا بنتی رہی۔

اس ایک ہفتے کے دوران دونوں گروپوں کی جانب سے صبح شروع ہو نے والی لڑائی رات گئے تک جاری رہتی، جس کا سلسلہ سات روز تک مسلسل جاری رہا اور اس دوران دن رات کا خیال کیے بغیر لگ بھگ 50 سے زائد پریس کانفرنسز، جنرل کونسل کے اجلاس اور دوسرے اجلاس ہوتے رہے۔

ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ متحدہ کے قائد فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کے اراکین کو، جن میں اہم سینئر رہنماؤں عامر خان، خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری و دیگر کو معطل کردیا جبکہ دوسری طرف بہادر آباد نے اپنے تنظیمی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کو ان کی کنوینر شپ سے فارغ کردیا۔

دونوں گروپوں کی جانب سے الیکشن کمیشن میں سینیٹ کی نشستوں کےلیے علیحدہ علیحدہ کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے مگر گروپ بندی کے سبب متحدہ کی سینیٹ میں نشستیں مشکوک ہوگئی ہیں جس کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔

اس طرح وہ تنظیم جو 38 سال پہلے پی آئی بی کالونی سے شروع ہوئی تھی، پی آئی بی کالونی میں ہی دفن ہوچکی ہے۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس تنظیم کو کیسے اور کون بچائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔