غریبوں کی گھڑی گھڑائی بات

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 17 فروری 2018

حد سے زیادہ دولت، بے انتہا طاقت اور حد سے بڑھی ہوئی خوش نصیبی ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئی ہے، اگر آپ کو اس بات پر شک ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کے پیچھے چھٹی صدی ق م کے یونان کے نامور ادیب ایسوپ کی حکایت ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ چھپی بیٹھی ہے۔ یہ غریبوں، کمزوروں اور بدنصیبوں کی گھڑی گھڑائی بات ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی سازش ہے تو پھر آئیں تھوڑی دیر کے لیے سقراط کے زمانے میں چلتے ہیں اور پھر واپس آ کر موجودہ زمانے میں آوارہ گھومتے اور پھرتے ہیں۔

سقراط کو بچپن میں سیموس کے پولی کریٹیز کا قصہ سنایاگیا، بہت سال پہلے یہ شخص مشرقی جزیروں کا طاقتور حکمران تھا۔ وہ اتنا دولت مند اور ہر لحاظ سے اتنا خوش نصیب تھا کہ فرعون مصرکی نظروں میں جچ گیا اور دونوں میں دوستی کا معاہدہ ہو گیا۔ لیکن فرعون ڈرتا تھا کہ دیوتا پولی کریٹیزکی خوش نصیبی کو اچھا نہیں جانیں گے۔ اس لیے اس نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی سب سے بیش قیمت چیز پھینک دے تا کہ یہ نقصان اٹھا کر دیوتاؤں کے عذاب سے محفوظ رہے۔

پولی کریٹیز نے بھی اسی مشورے پر عمل کرنا مناسب خیال کیا۔ اس نے اپنے تمام خزانوں کو کھنگالا ور ایک بہت قیمتی طلائی انگوٹھی نکالی جس میں زمرد جڑا ہوا تھا، وہ ایک بڑی کشتی میں بیٹھ کر جو پچاس چپوؤں سے کھینچی جاتی تھی سمندر میں گیا اور انگوٹھی گہرے پانی میں پھینک دی۔ اس کے بعد اس نے سمجھا کہ اب مجھے تکلیف نہ پہنچے گی۔ ایک دن ایک ماہی گیر ایک تازہ مچھلی لے کر آیا اور کہا کہ مچھلی اتنی عمدہ ہے کہ میں اسے کسی معمولی آدمی کے ہاتھ فروخت نہیں کرنا چاہتا، بلکہ آپ کی خد مت میں تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

پولی کریٹیز اس تحفے اور تعریف سے بہت خوش ہوا، اس نے ماہی گیرکو رات کے کھانے پر مدعو کیا اور حکم دیا کہ مچھلی شاہی باورچی خانے میں پکائی جائے۔ لیکن جب باورچیوں نے مچھلی کو کاٹا تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان کے آقا نے جو انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی وہ اس مچھلی کے پیٹ میں موجود تھی۔ جب فرعون کو اس انگوٹھی کی واپسی کی اطلاع ملی تو اس نے فوراً ہی پولی کریٹیز سے دوستی کا معاہد ہ توڑ دیا کیونکہ یہ بات صاف عیاں تھی کہ دیوتا اس آدمی پر سخت عذاب نازل کرنے کی تدبیروں میں مصروف تھے، اور ہوا بھی یہ ہی۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد پولی کریٹیز بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔

دیوتاؤں نے اس کا یہ قصور معاف نہیں کیا تھا کہ وہ بہت خوش نصیب، طاقتور اور خو ش حال ہے۔ اگر آپ قدیم انسانی تاریخ میں اور جھانکیں تو آپ کو مصر کے اخناتون، توت آنخ آمن، ایرانی سلطنت کے بانی سائیرس اعظم، فاتح عالم سکندر اعظم کے باپ فلپوس، دار یوش سوم، پومپی دی گریٹ، جولیس سیزر، کلاڈیس، چین کا بادشاہ سوئی وین تی، ایوان خونخوار کے قتل کے پیچھے ان کی حد سے زیادہ دولت، بے انتہا طاقت اور حد سے بڑھی ہوئی خوش نصیبی ہی ملے گی۔

اس کے بعد ہم اگر موجودہ تاریخ کے کوڑے دان کو کھنگالیں تو ہمیں شاہ ایران، ہٹلر، مسولینی، نپولین، صدام حسین، کرنل قذافی کی کہانیوں کے پیچھے بھی یہ ہی تینوں چیزیں کھڑی مسکراتی ملیں گی اور پھر اس کے بعد ہم اگر حال پر اپنی نظریں دوڑائیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہو گا کہ خود ہمارے ملک میں حد سے زیادہ دولت، بے انتہا طاقت اور حد سے بڑھی ہوئی خوش نصیبی کے مالک مارے مارے پھر رہے ہیں جنہیں نہ تو دن کا سکون ہے اور نہ ہی رات کا چین ہے۔ ان ہی تینوں چیزوں کی وجہ سے وہ چاروں اطراف سے خطروں کا شکار ہیں۔ جن چیزوں کے لیے انھوں نے ہر جائز و ناجائزکام کیے، ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کیے، لوگوں کو اپنے لیے سیڑھیاں بنائیں، لوگوں کو دھوکے دیے۔ ان کے ساتھ ناانصافیاں کیں آ ج وہ ہی چیزیں ان کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہیں۔

نوبیل انعام یافتہ مصرکا نجیب محفوظ لکھتا ہے ’’زندگی کے حالات نے مجھے ایک مرتبہ اس مقام تک پہنچا دیا کہ میں لٹیرا بن گیا، اپنے اس پیشے پر عمل میں نے پہلی بار ایک اندھیری رات میں کیا جب ایک راہگیر پر پل پڑا وہ شخص اتنا خو فزدہ ہوا کہ مرنے کو ہو گیا اور میرے آگے گھگھیانے لگا، میرے پاس جو کچھ ہے سب لے لو مگر میری جان نہ لو۔ اس لمحے کے بعد سے میں اپنی روح کے ساتھ زندگی کے راز کے چاوں طرف منڈلا رہاہوں‘‘ ہمارے سارے لٹیرے بھی اب زندگی کے رازکے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں صرف ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

جس روز وہ زندگی کے راز پا لیں گے انھیں بھی سکون حاصل ہوجائے گا، اور ان کے سکون میں آنے کی وجہ سے ملک کے بیس کروڑ انسان بھی پر سکون ہو جائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ انھیں آیا سکون نصیب ہوتا ہے یا پھر حد سے زیادہ دولت، بے انتہا طاقت اور حد سے بڑھی ہوئی خوش قسمتی انھیں لے ڈوبتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔