پنجاب کا مہا یدھ

لطیف چوہدری  بدھ 3 اپريل 2013
latifch910@yahoo.com

[email protected]

عام انتخابات کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی۔ وہ جو کہتے تھے کہ جمہوریت اپنا سفر مکمل نہیں کر پائے گی‘ شاید اب بھی چین سے نہ بیٹھیں‘ انھیں امید ہو کہ شاید عین وقت پر کچھ ہو جائے لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ جیسے ہی نگران حکومتیں قائم ہوئیں‘ بہت کچھ واضح ہوگیا‘ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ طاقت کے مراکز یہ طے کر چکے ہیں کہ عام انتخابات ہر صورت ہوں گے اور کسی خاص سیاسی جماعت کی مرضی کے مطابق نگران سیٹ اپ قائم نہیں ہو گا۔ مرکز اور صوبوں میں جو ارینجمنٹ قائم ہوا ہے‘ وہ کسی سیاسی جماعت  کے خلاف ہے نہ حق میں، البتہ دائیں بازو کے موقعے پرستوں اور انتہا پسندوں کو ضرور پریشانی اور شرمندگی  ہوئی ہے۔

اس طبقے کو زیادہ ہزیمت پنجاب میں ہوئی جہاں ایک ایسے شخص کو نگران وزیر اعلیٰ بنایا گیا، جن کا ٹیگ ہی لبرل ازم ہے۔ یوں سب سے اہم فیصلہ پنجاب میں ہوا ہے۔ کسی صحافی کو حکومتی عہدہ قبول کرنا چاہیے یا نہیں اس بحث کو ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔ یہ بحث چونکہ پہلی بار شروع ہوئی ہے اس کا کچھ عرصہ جاری رہنا یقینی ہے۔ میرے خیال میں نجم سیٹھی کا نگران وزیر اعلیٰ بننا ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ دائیں بازو کے موقع پرستانہ نظریات کے حامل خود ساختہ دانشوروں کے لیے یہ گولی نگلنا آسان نہیں تھا لیکن کیا کیا جائے‘ جب ڈاکٹر نے صرف ایک ہی دوا تجویز کر رکھی ہو اور مارکیٹ میں اس کا متبادل موجود نہ ہو تو پھر اسے نگلنا تو پڑتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن‘ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی اور ق لیگ جیسی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں نجم سیٹھی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے پر مضطرب نہیں اور ان پر اعتماد ظاہر کر رہی ہیں لیکن خود کو عقل کل سمجھنے والے بعض قلمکار غصے سے پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض شاید اس منصب پر اپنی تصویر دیکھنا چاہتے ہوں، اور نجم سیٹھی کے وزیر اعلیٰ بننے کو اپنی توہین سمجھتے ہوں۔ بہر حال ان کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے‘ ’’کیا پدی کیا چہ پدی کا شوربہ‘‘۔

نجم سیٹھی کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طاقت کے مراکز کو کنٹرول کرنے والوں کو ان کے بارے میں پتہ نہیں ہے، وہ لبرل نظریات کے حامل ہیں اور یہ کوئی برائی نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ دائیں بازو کا انتہا پسند بھی اپنے عمل میں لبرل ہوتاہے، یقین نہیں آتا تو دائیں بازوکے دانشوروں کی آل اولاد کو دیکھ لیں، کوئی امریکا میں ہے اور کوئی یورپ میں، زیادہ تر بہترین انگریزی میڈیم اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ویسے بھی نگران حکمران دو ماہ کے لیے ہیں‘ ان کا مینڈیٹ شفاف اور غیر جانبدارنہ عام انتخابات کرانا ہے‘ وہ کوئی نظریاتی جنگ کرنے نہیں آئے ہیں لہٰذا نگران وزیر اعظم یا کسی وزیر اعلیٰ کو نظریاتی حوالے سے ہدف تنقید بنانا درست طرز عمل ہے نہ اسے دانشوری قرار دیا جا سکتا ہے۔

کسی کو اس حوالے سے خوفزدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ نجم سیٹھی کے نگران وزیر اعلیٰ بننے سے پنجاب کا لبرل تشخص ضرور بحال ہوا ہے۔ حنیف رامے مرحوم کے بعد وہ دوسرے وزیر اعلیٰ ہیں جو صاحب مطالعہ بھی ہیں اور جنھیں فائن آرٹس کا شوق بھی ہے۔ پنجاب صدیوں سے روا داری کے کلچر کا علمبردار ہے‘ یہاں مولوی، پنڈت یا مہنت کبھی حکمران اشرافیہ میں شامل نہیں رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں پروان چڑھنے اور پھر ضیاء الحق کے دور میں عروج پانے والے دائیں بازو کے موقع پرستوں نے پنجاب کے کلچر کو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے زہر سے آلودہ کرنے کی کوشش کی۔

فائن آرٹ کو فحاشی اور تفریح کو عیاشی کا ہم معنی بنا کر پیش کیا۔ پنجاب کے کلچر اور ثقافت کو دانستہ تباہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ پنجاب کو فاٹا بنانے کی پالیسی کا حصہ تھا لیکن اب شاید ایسا نہ ہوسکے۔ میڈیا میں کچھ ایسی خبریں آئیں کہ نجم سیٹھی کے ساتھ میجر (ر) قمر الزماں چوہدری نے بطور چیف سیکریٹری کام کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن اندر کی کہانی میرے دوست خالد قیوم کی زبانی یہ ہے کہ نجم سیٹھی نے مذکورہ چیف سیکریٹری کی خدمات لینے سے معذرت کر لی تھی۔ اس معاملے کو یار لوگوں نے الٹا بنا کر پیش کر دیا۔

وفاق اور تین دوسرے صوبوں میں نگرانوں پر تنقید اس لیے نہیں ہو رہی کہ پنجاب کا انتخابی معرکا ہی وفاق میں حکمرانی کا فیصلہ کرے گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا اس حوالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہٰذا وہاں نگران سیٹ اپ خاموشی سے طے پا گیا‘ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دو بڑی قوتیں تھیں۔ حکومت کی مدت ختم ہونے سے کچھ عرصہ پہلے پانچ سال کی ساتھی ایم کیو ایم اپوزیشن بن گئی اور وہاں بھی خوش اسلوبی سے سب کچھ ہو گیا‘ پنجاب میں چونکہ مہایدھ پڑنا ہے‘ لہٰذا یہاں ایسا نگران وزیر اعلیٰ چاہیے تھاجو مقتدر حلقوں کو بھی قبول ہو اور طاقتور سیاسی جماعتوں کے درمیان بیلنس برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو اور اس پر غیر ملکی اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد ہو۔

مجھے لگتا ہے کہ پنجاب میں یہ الیکشن نئے دور کی ابتدا ہوں گے۔ پنجاب میں انتہا پسندوں نے بریک تھرو کرنے کے لیے جو منصوبہ بندی کر رکھی تھی‘ وہ کامیاب نہیں ہو گی‘ مسلم لیگ ن کے لیے فضا بظاہر مشکل ہوئی ہے لیکن اسے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے قریب ہونے کا داغ دھونے میں کامیاب ہو گئی ہے‘ اس سلسلے میں ایک کوشش شیخ وقاص اکرم کو پارٹی میں  شامل کر کے کی گئی تھی اور اب یہ دوسری کامیاب کوشش ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے اب معتدل اور ماڈریٹ سیاسی فکر کو ساتھ لے کر چلنا آسان ہو گیا ہے۔ میاں نواز شریف اب کسی مذہبی جماعت سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔

پنجاب میں دائیں بازوکے شدت پسندوں کا سیاسی زوال شروع ہو چکا ہے‘ انھیں اب اپنے سائز کے مطابق ہی بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ مذہب کی من مانی تشریح کریں اور بندوق کے زور پر معاشرے کو یرغمال بنا لیں۔ نجم سیٹھی تو دو ماہ بعد گھر چلے جائیں گے لیکن مجھے امید  ہے کہ وہ آنے والے وزیر اعلیٰ کے لیے بہت سی اچھی چیزیں چھوڑ جائیں گے۔ اب مسلم لیگ ن بھی اقتدار میں آئی تو لبرل سیاسی اپروچ کے بغیر حکومت نہیں کرسکے گی۔ میاں صاحب نے شاید حقائق کا ادراک کر لیا ہے، نجم سیٹھی کا پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ بننا اس سوچ کا عملی اظہار لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔