پاکستانی سیاست پر آدھے پاکستانیوں کا کوئی حق نہیں

یہ بھی ایک مذاق ہے کہ آپ ایک دن پہلے کسی دوسرے ملک کی شہریت چھوڑیں اور اگلے دن پاکستان میں پارلیمنٹ کے رکن بن جائیں۔

msuherwardy@gmail.com

آجکل بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور دوہری شہریت کے حامل سیاستدانوں کے حق سیاست کے حوالہ سے بہت شور ہے۔ یہ دو اہم معاملات ہیں۔ جو پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا رخ متعین کر سکتے ہیں۔

جہاں تک دوہری شہریت کے حامل سیاستدانوں کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے میں سمجھتا ہوں کہ دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کی کوئی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ پاکستان پاکستانیوں کا ہے جو پاکستانی نہیں ہے وہ ہمارے لیے اجنبی ہے۔ اور اجنبیوں کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی ایک مذاق ہے کہ آپ ایک دن پہلے کسی دوسرے ملک کی شہریت چھوڑیں اور اگلے دن پاکستان میں پارلیمنٹ کے رکن بن جائیں۔ اس کی بالکل اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جس نے ایک دفعہ پاکستان کی شہریت چھوڑدی کسی دوسرے ملک کی شہریت لے لی کم از کم اس پر پاکستان کی پارلیمنٹ اور پاکستان پر حق حکمرانی کے دروازے بند ہونے چاہیے۔

یہ کیسا مذاق ہے کہ ایک دن پہلے آپ کسی اور ملک کے شہری تھے پھر آپ کو ٹکٹ مل گیا آپ نے ایک دن پہلے وہ شہریت چھوڑ کر واپس پاکستان کی شہریت لے لی اور آپ کوپاکستان کا حاکم بنا دیا جائے۔ یہ پاکستان کی حکمرانی اغیار کو دینے کا ایک چور دروازہ ہے جس کو فوری بند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا مذاق کسی دوسرے ملک میں ممکن نہیں ۔

ویسے تو کسی دوسرے ملک میں پیسے کے زور پر پارلیمنٹ کا ٹکٹ خریدنے کا بھی کوئی رواج نہیں۔ یہ ہمارے پیارے پاکستانی جو پاکستان کی شہریت چھوڑ کر مغرب امریکا برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت حاصل کر تے ہیں کیا وہاں یہ راتوں رات ممبر پارلیمنٹ بن سکتے ہیں۔

آپ پاکستان سے جتنی مرضی دولت لے جائیں کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی اس دولت کے بل بوتے پر راتوں رات وہاں حکمران جماعت کا ٹکٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں۔ وزیر بن جائیں اور اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے لگیں۔نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ بے شک وہاں ایک سیاسی عمل موجود ہے۔ جہاں نیچے سے اوپر آنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ شہریت ملنے کے بعد وہاں کی سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانا اور پھر کوئی مقام حاصل کرنا ایک لمبا سفر ہے۔ پاکستان جیسے شارٹ کٹ وہاں موجود نہیں ہیں۔

لیکن پاکستان میںایک چور دروازہ کھل گیا ہے۔ باہر کی دولت کے بل بوتے پر اقتدار کے محلات میں نقب لگانے کا ایک چور راستہ کھل گیا ہے جس کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی جب اقتدار میں نقب لگ جاتی ہے پاکستان آجاتے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور جب اقتدار کے سہانے دن ختم ہو جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہنی مون ختم ہو جاتا ہے تو واپس اپنے انھی ممالک میں لوٹ جاتے ہیں۔


پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں کے سیاستدان اقتدار کے مزہ لینے تو پاکستان آجاتے ہیں اور اقتدار ختم ہونے کے بعد لوٹی ہوئی دولت کو انجوائے کرنے واپس باہر چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست اور حکمرانی کا حق صرف اس کو ہونا چاہیے جس کا جینا مرنا پاکستان ہو ۔ جس کا جینا مرنا پاکستان نہیں ہے اس کو پاکستان میں سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے لیے پاکستان کی سیاست اور پاکستان کا اقتدار ایک ٹرانزٹ لاؤ نج سے کچھ کم نہیں۔

افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جب اقتدار اور سیاست کے مزے لینے ٹرانزٹ پر پاکستان آتے ہیں توان کے بچے اور دیگر گھر والے نہیں آتے۔ وہ اپنی باہر کی شہریت برقرار رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ن لیگ کے سربراہ کے دونوں بیٹے بھی غیر ملکی ہیں۔ ان کے بیٹے باپ کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کے سرکاری وفود کا نہ صرف حصہ ہوتے تھے بلکہ پاکستان کی طرف سے دیگر ممالک کے سربراہان سے بھی ملتے تھے۔ اور آج جب پاکستان کا قانون انھیں پکار رہا ہے تو وہ یہ کہہ کر لال جھنڈی دکھا رہے ہیں کہ وہ تو پاکستانی نہیں ہیں اور ان پر پاکستان کا قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب پرویز مشرف ملک کے صدر تھے تو ان کا بیٹا بھی امریکا کا شہری تھا۔ چوہدری سرور کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کے بچے بہو بیگم سب برطانیہ کے شہری ہیں۔

اس لیے صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ لوگ پاکستانی ہیں، کب سے پاکستانی ہیں ، کم از کم اس کی مدت متعین ہونی چاہیے کہ کون کب سے پاکستانی ہو تو اسے پاکستان میں کسی بھی قسم کا انتخاب لڑنے کی اجازت ہو سکتی ہے۔ راتوں رات پاکستانی بننے والے کیسے الیکشن لڑنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جن کے بچے پاکستانی نہیں ہیں، جن کی بیوی یا شوہر پاکستانی نہیں ہیں وہ کیسے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ کم ازکم بچے تو پاکستانی شہری ہونے چاہیے۔ یہ آدھے پاکستانی پاکستان کی کیا خدمت کریں گے۔ ان کی اولاد ان کی دولت سب باہر ہے۔ یہ تو صرف وقتی طور پر ایک نوکری ملنے کی وجہ سے پاکستان آتے ہیں۔ اور نوکری کے ثمرات سمیٹ کر نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ ظلم ہے۔

اسی طرح جنہوں نے پاکستان کی شہریت چھوڑ دی ہے اور وہ انھوں نے کسی بھی وجہ سے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لی ہے اور اب وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ کیا ان کو پاکستان کی سیاست میں ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان ان کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ دوہری شہریت میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہی ہے۔اس لیے ان کو اتنا سر پر چڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے انتخابات میں صرف ان کو ہی حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے جو مکمل پاکستانی ہوں۔ آدھے پاکستانیوں کو یہ حق کسی بھی صورت نہیں دیا جا سکتا۔

جو پاکستان میں رہتے نہیں ہیں۔ جن کو پاکستان کے حالات کا علم نہیں۔ وہ ہمارے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ جہاں پاکستان میں صادق اور امین کی نا اہلی کی مدت کا تعین کر رہی ہے۔ وہاں اس کو یہ بھی طے کرنا چاہیے کہ اگر کوئی کسی دوسرے ملک کی شہریت چھوڑ کرپاکستان کی شہریت لیتا ہے تو کم از کم دس سال تک اس کے پارلیمنٹ کے رکن بننے پر پابندی ہونی چاہیے۔ دس سال کے بعد اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے اس سے پہلے نہیں۔ اس کے ساتھ بچوں کے بھی پاکستانی ہونا شرط ہونی چاہیے۔

اسی طرح جن بیوروکریٹس کے پاس بھی دوہری شہریت ہے انھیں بھی نوکری کا حق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جن کے بچوں اور بیگمات کے پاس بھی دوہری شہریت ہے انھیں بھی نوکری کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ یہ سب پاکستان کے لیے اجنبی ہے۔ ان نوکریوں اور پارلیمنٹ کی رکنیت پر صرف اور صرف پاکستانیوں کا حق ہے۔ یہ اتنی فالتو نہیں ہیں کہ دوہری شہریت والوں میں بانٹ دی جائیں۔ ان پر آدھے پاکستانیوں کا کوئی حق نہیں ۔
Load Next Story