سینیٹ کے حالیہ انتخابات

محمد سعید آرائیں  منگل 20 مارچ 2018

سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور آصف علی زرداری کے دست راست آغا سراج خان درانی نے کہا ہے کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات جتنے شفاف انتخابات کبھی ماضی میں بھی نہیں ہوئے ۔ آغا صاحب کے بیان کی تائید صرف پیپلزپارٹی ہی کی طرف سے ہورہی ہے جب کہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف سمیت تمام ہی جماعتیں حالیہ انتخابات میں دھاندلیوں، ضمیر خریدے جانے، اعتراف اور دولت کے کمال کے ساتھ آصف زرداری کے سیاسی جوڑ توڑ کا خاص طور پر ذکر کررہی ہیں۔ تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کے ماسوا الیکشن کمیشن پر بھی تنقید کررہی ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے کہاکہ دھاندلی کے الزامات لگانے پر ہی ثبوت کی ذمے داری ڈال کر انھیں طلب کرلیا کہ وہ دھاندلی کے ثبوت دیں ۔

الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ دھاندلی کے الزامات کو سیاسی قرار دے اور کہے کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج سے شفافیت کا سرٹیفکیٹ لے لو تو بہت ہے ملک بھر میں سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار پر بھی الزامات لگ رہے ہیں اورکہا جا رہا ہے کہ ترجیحات عجیب ہیں جس میں دوسری ترجیح پر بہت کچھ منحصر ہوتا ہے اور دوسری ترجیح والا جیت بھی جاتا ہے۔ جیسے سندھ میں ہوا جہاں دوسری ترجیح میںایک صاحب جیت گئے۔

سندھ میں کامیابی کے لیے 21 ووٹ درکار تھے مگر وہ صاحب 14 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے یہ 14 ووٹ پہلی ترجیح کے تھے جس میں وہ پہلے ہارے اور دوسری ترجیح میں جیتے اور مرتضیٰ وہاب ہارگئے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کو پہلی ترجیح کے 44 ووٹ ملے اور وہ کامیاب ہوگئے جب کہ پنجاب میں ن لیگ نے کامیابی کے لیے 48 ووٹ کے گروپ تشکیل دیے تھے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے دعویٰ کیا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کوکوئی شکایت وصول نہیں ہوئی جب کہ اس بار تو ہارس ٹریڈنگ کا لفظ بھی چھوٹا پڑگیا ہے۔

عمران خان کہہ رہے ہیں کہ چار چار کروڑ میں ووٹ خریدا گیا کیونکہ زیادہ ارکان بھی پی ٹی آئی کے فروخت اور سب سے زیادہ خریداری میں مبینہ طور پر آصف زرداری کا نام آیا ہے۔ شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ ایک رکن کا ووٹ پانچ کروڑ میں خریدا گیا ہے۔

دھاندلی کا لفظ انتخابات میں جعلی اور بوگس ووٹنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہارس ٹریڈنگ کا لفظ زیادہ تر سینیٹ انتخابات کے لیے مخصوص ہے جہاں ہر تین سال بعد ارکان اسمبلی سے خفیہ طور پر سودے بازی کرکے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور رقم وصولی کی کوئی خریدار رسید نہیں مانگتا بلکہ قرآن پاک اٹھاکر یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ووٹ خریدنے والوں کو ہی دیے جائیں گے۔

ووٹ کی خرید و فروخت میں کوئی تیسرا فریق نہیں ہوتا بلکہ معاملہ دو افراد ہی کے درمیان ہوتا ہے جس کے بعد ایک نقد رقم دیتا ہے اور دوسرا نوٹ کے بدلے ووٹ دے کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیتا ہے کہ اس نے بھی رکن اسمبلی بننے پر رقم خرچ کی تھی وہ مفت میں منتخب نہیں ہوا تھا تو مفت میں ووٹ کیوں دے۔

مال کے بدلے ووٹ دینے والوں کو ضمیر فروش کہا جائے یا ان پر اپنی پارٹی سے بے وفائی کا الزام لگایا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ یو سی کونسلر سے صوبائی و قومی اسمبلی تک اور آخر میں سینٹر بننے تک ہر جگہ پیسہ خرچ ہوتا ہے اور کوئی مفت میں تو یوسی کونسلر بھی نہیں بن سکتا۔

ہر جگہ پیسے کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کرکے ہی کامیاب ہوا جاتا ہے تو خرچے کی رقم کیوں نہ وصول کی جائے۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم دعویٰ کرسکتی ہیں کہ وہ اپنے امیدواروں کا خرچہ نہیں کراتے اور پارٹی فنڈ سے الیکشن لڑواتے ہیں تو اس لحاظ سے ان کے منتخب ارکان پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں مگر اس بار متحدہ کے ارکان اسمبلی نے پارٹی امیدوار کو ووٹ نہ دے کر اپنی فروخت کا بھی ریکارڈ قائم کردیا اور ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو دیے مگر الیکشن کمیشن ان سمیت کسی سے نہیں پوچھ سکتا کہ قانون کے تحت وہ ووٹ اپنی پارٹی کو کہنے کے بعد دینے کے پابند ہیں مگر درجنوں ارکان اسمبلی نے اپنی پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ ایسے ارکان جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتا۔

الیکشن کمیشن نے دو سال گزرنے کے بعد بھی ان ریفرنس کو لٹکا رکھا ہے کہ متحدہ کے ارکان نے کس قانون کے تحت پی ایس پی میں شمولیت اختیارکی تھی اور اب انھوں نے متحدہ کی بجائے فنکشنل مسلم لیگ کو ووٹ کیوں دیا۔ پارٹی سے منحرف ہونے والے عائشہ گلالئی اور پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے والوں سیکوئی کیسے پوچھ سکتا ہے جنھوں نے پارٹی تبدیل اس وقت کی جب انتخابات سر پر آگئے ہیں۔

اگر وقت پر فیصلے ہوتے اور پارٹیاں بدلنے والوں کی بروقت نا اہلی ہوتی تو ہارس ٹریڈنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی اور آصف زرداری سے بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ مطلوبہ ووٹ نہ ہونے کے باوجود پی پی امیدوار سندھ اور کے پی کے میں کیسے جیت گئے۔ اب ن لیگ، پی ٹی آئی، متحدہ اور ق لیگ احتجاج کرتی رہیں کہ ان کے امیدواروں کے ووٹ خریدے گئے مگر یہ کہا جاتا رہے گا کہ ہارس ٹریڈنگ کی کوئی شکایت نہیں ملی اور آغا سراج کا بیان اس کا ثبوت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔