فلسطینیوں کا روپ دھارے اسرائیلی ایجنٹس ’مستعربین‘ کا انکشاف

ویب ڈیسک  پير 16 اپريل 2018
اسرائیلی ایجنٹ فلسطینیوں میں شامل ہوکر انہیں شہید کرنے یا اسرائیلی افواج کی جانب دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں (فوٹو: بشکریہ الجزیرہ ویب سائٹ)

اسرائیلی ایجنٹ فلسطینیوں میں شامل ہوکر انہیں شہید کرنے یا اسرائیلی افواج کی جانب دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں (فوٹو: بشکریہ الجزیرہ ویب سائٹ)

فلسطین: فلسطینیوں کے روپ میں چھپے اسرائیل ایجنٹس کا انکشاف ہوا ہے جو موقع ملتے ہی فلسطینیوں کو مار ڈالتے ہیں یا اسرائیل فوج کے سامنے لے آتے ہیں تاکہ انہیں قتل کردیا جائے اس گروپ کو ’مستعربین‘ کا نام دیا گیا ہے۔

عرب ویب سائٹ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایجنٹس فلسطینیوں کے لب و لہجے میں عربی بولتے ہیں، عین عربوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں ان کے چہرے فلسطینی رومال سے ڈھکے ہوتے ہیں، یہ اسرائیل مخالف مظاہروں میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگاتے ہیں جب یہ فلسطینی مظاہرین میں شامل ہوتے ہیں تو اچانک اپنے لباس میں چھپی گنیں ان پر تان لیتے ہیں اور انہیں شہید کردیتے ہیں یا پھر انہیں دور موجود اسرائیلی  افواج میں بیٹھے اسنائپرز کا تر نوالہ بنادیتے ہیں یا اسرائیلی افواج آگے بڑھ کر ان فلسطینیوں کو دبوچ لیتی ہے اس کے بعد تمام مظاہرین غائب ہوجاتے ہیں اور صرف ایک نعرہ سنائی دیتا ہے ’ مستعربین‘ ۔

مستعربین یا مستعروِم عبرانی زبان کا لفظ ہے جو عربی لفظ مستعرب سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ کسی ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو عرب زبان اور تہذیب سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو۔ لیکن اسرائیلی تناظر میں مستعربین ایسے لوگوں کو کہتے ہیں جو خاص خوفناک مشن لے کر فلسطین کی صفوں میں جاگھستے ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اسرائیل کے سب سے چالاک ایجنٹ ہیں۔

کہتے ہیں کہ اسرائیل نے مستعربین کا پہلا یونٹ 1942ء میں بنایا تھا۔ اسرائیلی ماہر اینٹوئن شالاٹ کے مطابق مستعربین اسرائیلی ایجنٹ ہوتے ہیں جو فلسطینیوں کی معلومات جمع کرتے ہیں اور فلسطینیوں کی سرگرمیوں اور احتجاج کو ناکام بناتےہیں ان کی  پشت پر اسرائیلی افواج کی حمایت موجود ہے۔

ان ایجنٹوں کو سخت فوجی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے فلسطینیوں کی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ ان کا مشن خفیہ ہوتا ہے اور ایک کارروائی کے بعد وہ غائب ہوجاتے اور دوسرا یونٹ ان کی جگہ لے لیتا ہے۔

شالاٹ کہتے ہیں کہ ’یہ فلسطینیوں کی طرح فرفر عربی بولتے ہیں اور ان کے لہجے میں ہی بات کرتے ہیں، چار سے چھ ماہ کی تربیت میں وہ نماز اور روزے کی معلومات بھی حاصل کرلیتے ہیں، سب سے اہم مستعربین یونٹ رائمون تھا جو 1978ء سے لے کر 2005ء تک سرگرم رہا  جو غزہ کی پٹی میں کارروائی کرتا تھا۔ پھر 80ء اور 90ء کی دہائی میں شمشون گروہ سرگرم رہا‘۔

اسی طرح 1980ء کا ڈووڈیون 217 ایلیٹ یونٹ سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود بارک نے بنایا تھا جو مغربی کنارے پر اب بھی سرگرم ہے۔

فلسطینی صحافی راشہ ہرزلا کے مطابق جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیا تو رملہ میں مستعربین کے کئی ایجنٹ مظاہرین میں داخل ہوئے اور تین نوجوان فلسطینی مظاہرین کو پکڑ کر لے گئے۔ یہ ایجنٹ 10 ماہ سے وہاں مقیم تھے اور ان کے لباس بھی فلسطینیوں جیسے تھے۔ انہوں نے 13 دسمبر 2017ء کو کامیاب کارروائی کی اور فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا۔

ان میں پانچ افراد شامل تھے جنہوں نے پہلے ہوائی فائرنگ کی اور اس کے بعد لوگوں کو سامنے سے نشانہ بنایا۔ ان میں سرخ شرٹ پہنے ایک شخص نے بندوق لہرا کر مجھے کہا کہ قریب مت آؤ اور اس دوران اسرائیلی افواج بھی قریب تر آگئی۔ راشہ کے مطابق مستعربین اسرائیلی افواج پر پتھر پھینک رہے تھے لیکن صیہونی سپاہیوں نے انہیں کچھ نہ کہا۔ اس سے قبل مستعربین نے دو فلسطینیوں کو قریب سے سر اور ٹانگوں پر گولیاں ماری تھیں۔ پہلا شخص فوری طور پر شہید ہوگیا تھا جبکہ دوسرا نوجوان محمد زاہدے اب معذور ہوچکا۔

مستعربین کی ہولناک کارروائیوں سے اب فلسطینی شدید محتاط ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ ڈھیلی شرٹ پہنتے ہیں اور انہیں پینٹ کے اندر اڑس کر رکھتے ہیں تاکہ وہاں ہتھیار چھپاسکیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مظاہرین کو اسرائیلی فوج کے قریب لے جانا چاہے تب بھی فلسطینی ہوشیار ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔