کنٹرولڈ ڈیمو کریسی اِک متبادل نظام حکومت

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 18 اپريل 2018
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے غیر اعلانیہ لیکن طے شدہ اُصولوں اور ضابطوں کے تحت حکومتیں تشکیل دینے والوں نے اِس بار بھی حسب معمول اپنا کام بہت پہلے ہی سے شروع کررکھا ہے۔ سیاست سے تعلق رکھنے والے تمام سورماؤں کو یہ اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ اگلی حکومت کا تاج کس کے سر سجے گا لیکن جن لوگوں اور اداروں نے یہ کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے وہ اپنا کام بڑی ہشیاری اور تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ تما م سروے اور اندازے خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن اقتدار کا ہما جس کے سر سجانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے وہی اگلا سربراہ مملکت کہلائے گا۔ مطلوبہ نتائج کی یقین دہانی حاصل ہوجانے کے بعد ہی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے گا۔

اِس مقصدکے حصول کے لیے مقبول جماعتوں کو توڑ کر مختلف آزاد گروپوں کی تشکیل اِس میگا گیم کا اہم ٹاسک قرار پایا ہے۔ سندھ کے شہری حلقوں میں یہ کام تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ ایم کیو ایم کے دو ٹکڑے تو پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔ اُسے اب اِس قابل ہی نہیں چھوڑا جارہا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کر پائے۔ پھر پی ایس پی کے قافلے میں ایم کیو ایم چھوڑ کر آنے والوں کو بھرتی کر کے اُسے ایک ایسے بڑے اور مؤثر گروپ کی شکل دی جا رہی ہے جسے آنے والے انتخابات میں اُن دیگر گروپوں کے ساتھ شامل کردیا جائے گا جو اداروں کے اشاروں پر وفاق میں حکومت بنانے والی کسی ایک سیاسی پارٹی کی جھولی میں جا گرینگے۔

بلوچستان میں آزاد ارکان پر مشتمل گروپ بھی اِسی مقدس مقصد کے حصول کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اداروں کی ذہانت اور حکمت عملی کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ اُنہوں نے یہ کام بڑی مہارت سے اُس وقت ہی شروع کردیا تھا جب کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ چند ماہ بعد پاکستان میں سیاسی منظر نامہ کچھ اِس طرح کا ہوگا کہ حالات واقعات خود بخود سازگار ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر توڑ پھوڑ اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی لیڈروں کی اُس سے اچانک علیحدگی سبھی اِس بات کی غماز ہے کہ کرشمہ سازی میں مہارت دکھانے والے فرشتے واقعی اپنے کام میں بڑے ماہر،زیرک اور بے مثال ہیں۔

اب آنے والے نئے انتخابا ت کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات اب ناقابل تردید حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اِس ملک میں نادیدہ قوتیں جو چاہیں کرسکتی ہیں ۔ وہ جسے چاہیں حقِ حکمرانی سے سرفراز کرسکتی ہیں اور جسے چاہیں عوام کے زبردست تائید و حمایت کے باجود تخت و تاج سے محروم کرسکتی ہیں۔ وہی اِس ملک کی اصل قوت اور طاقت کاسر چشمہ ہے۔ اُس سے محاذآرائی کر کے آج تک ہمارے یہاں کوئی بھی سرخرو نہیں ہو پایا بلکہ جس کے دماغ میں یہ خناس پرورش پانے لگتا ہے اُسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ پہلے سے تیار شدہ آزاد اور ہم خیال گروپس آنے والے انتخابات میں اہم رول ادا کرتے دکھائی دینگے۔ وہ عوام کی بڑے پیمانے پر تائید و حمایت نہ رکھتے ہوئے بھی اِس قدر طاقتور اور اہمیت کے حامل ہونگے کہ جسے چاہیں اِس ملک کا اگلا حکمراں بنادیں۔ یہ گروپس فیصلہ کرنے میں اپنے اُنہی غیبی سرپرستوں کے اشاروں کے تابع اور فرمانبردار ہونگے جن کی کاوشوں سے وہ تشکیل دیے گئے ہیں۔

جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تیزی کے ساتھ بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ (ن) جس کی کامیابی کے آج سے چند ماہ پہلے بہت روشن اور واضح امکانات تھے رفتہ رفتہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اُس کا حال بھی ایم کیو ایم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔الیکشن سے پہلے پہلے اُس کا یہ حال کردیا جائے گا کہ اُسے انتخابی معرکے میں پنجہ آزمائی کے لیے مضبوط اُمید وار ہی نہیں ملیں گے۔ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے خان صاحب ہیں جنکی بیس بائیس سالا سیاست کا مقصد اور محور ہی مرکز میں اقتدارکا حصول تھا۔ اور جنھیں ہر قیمت پر 2018ء کا انتخاب جیتنا مقصود تھا وہ بے چارے بھی اب مایوسیوں کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں شاید کوئی نیا اجنبی شخص ہی وزیراعظم بن پائے گا۔

جس طرح سینیٹ کے انتخابات میں ایک ایسا شخص چیئرمین بن گیا جس کے نام سے بھی ہمارے لوگ پہلے سے واقف ہی نہیں تھے۔ ممکن ہے وزارت عظمیٰ کے نشست پر بھی شاید کوئی ایسا ہی اجنبی شخص جلوہ افروز ہوجائے۔ وزیراعظم بننے کی خان صاحب کی تمام آرزوئیں2018ء کے اِسی انتخابات سے وابستہ تھیں۔ وہ اگر اِس بار پوری نہ ہوئیں تو خان صاحب کے لیے سیاست میں مزید رہنے کا جواز ختم ہوجائے گا۔ اُن سے اب اگلے پانچ سال کا انتظار کسی صورت نہیں ہوگا۔ وہ اپنے اِس مقصد کو پانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہونگے۔ وہ مقتدر حلقوں کی تمام شرائط من و عن مان لینے پر یقینا تیار بھی ہوجائیں گے لیکن اُنہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ اگلی حکومت اُن کے لیے تو کیا کسی کے لیے بھی اتنی آسان اور سہل نہ ہوگی۔ آزاد گروپوں پر مشتمل حکومت چلانا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔

حکومتیں تشکیل دینے اور گرانے پر مامور قوتوں نے اگلی حکومت کی ساری گرفت اور لگام ابھی سے اپنے ہاتھوں میں ہی لے رکھی ہے۔ وہ اُسے کسی طور آزاد اور خود مختار ہونے نہیں دینگی۔ جس روز یہ محسوس ہونے لگے گا کہ وزارت عظمیٰ کے مسند پر بیٹھا شخص خود اپنی مرضی کے بنائے گئے فیصلے صادر کرنے لگا ہے اُسی روز اُس کی لگام کھینچ لی جائے گی۔ پہلے یہ کام مشہور زمانہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے ذریعے کردیا جاتا تھا۔

اب یہ کام کنٹرولڈ جمہوریت کے پر اسرار فارمولے کے تحت باآسانی کرلیا جائے گا۔ کہنے کو یہ انداز بھی جمہوری اور عوامی ہی کہلائے گا۔ جس طرح بلوچستان میں ہم نے جمہوری طریقہ کار کے مطابق ایک حکومت کو منٹوں میں معزول ہوتے دیکھا اور پھر سینیٹ کے الیکشن سمیت اُسکے چیئرمین کے انتخاب تک ووٹ کو اُس کے تقدس سے سرفراز ہوتے دیکھا۔ ایسا ہی آیندہ آنے والے دنوں میں بھی دیکھیں گے۔ میاں نواز شریف کو اُن کے ناقدین آج طعنہ دے رہے ہیں کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے وقت اُنہوں نے دستور کی شق 62 اور63کو ختم کرنے کی مخالفت کی تھی مگر آج خود ہی اُس کا نشانہ بنے ہیں۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ لینے یا نہ لینے کے معاملے پر نا اہلی تو اِک بہانہ تھا۔آئین و دستور کے شق نمبر 62اور 63کو اگر اٹھاریں ترمیم کے ذریعے خارج بھی کردیا جاتا تو بھی میاں صاحب کو کسی اور بہانے سے گھر ضرور بھیج دیا جانا تھا۔ اُن کا جانا تو لکھا جاچکا تھا۔

یہ ہر صورت میں ہونا ہی تھا۔ تنخواہ نہ ظاہر کرنے پر کسی کا صادق اور امین نہ کہلانا اور پھر سیاست سے عمر بھی کے لیے نا اہل کردیا جانا دنیا کے تاریخ میں ایک منفرد اور بے مثال فیصلہ ہے۔ اگر اِس منطق اور توجیح کو تسلیم کرتے ہوئے باقی پارلیمنٹرین کو بھی اِسی سولی سے گزارا جائے تو سو فیصد یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی پارلیمنٹرین زندہ بچ پائے گا۔ہم سب صبح سے شام تک نجانے کتنے جھوٹ بولتے ہیں۔ کتنے گوشوارے غلط بھرتے ہیں۔ جس ملک میں زکوۃ کی کٹوتی سے بچنے کے لیے لوگ اپنا مسلک بدل لینے کو تیار بیٹھے ہوں وہاں ہم صادق اور امین کے اعلیٰ معیارات کوکیسے تلاش کرتے پھریں گے۔آئین کی شق نمبر 62اور63رہے یا نہ رہے حکومتیں بنانے اور گرانے کا یہ مکروہ اور گھناؤنا کھیل یونہی چلتا رہے گا۔اِسے آپ پارلیمنٹ کی کمزوری اور بد نصیبی کہہ لیں یا پھر دیگر اداروں کی مضبوطی اور سپر میسی۔ یہ پاکستانی قوم کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ اِس سے جان چھڑانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔ ہم سب کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ”کنٹرولڈ ڈیمو کریسی”کے اِس مروجہ نظام ہی کو آئین و دستور کا حصہ بنالیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔