کراچی کی صدا 

عبدالرحمان منگریو  اتوار 22 اپريل 2018

کراچی سندھ کے دارالحکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن شہر بھی ہے جو اپنی ڈیمو گرافی کی وجہ سے عالمی میٹروپولیٹن شہروں کی صف میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔

کراچی کے شمال میں موجود کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے سے آنیوالے بارش کے پانی کو یا توتھڈو ڈیم میں جمع کیا جاتا ہے یا پھر اس پانی کو سمندر تک پہنچانے والی حب و ملیر ندیوں کے علاوہ چھوٹے بڑے 41قدرتی برساتی نالے ہیں جو نکاسی ِ آب کے قدرتی راستے ہیں جو صدیوں سے کراچی کو ایک نخلستان کے طور پر سرسبز و شاداب خطہ بنائے رکھے ہوئے تھے۔ پھر  یہی قدرتی برساتی نالے آگے چل کر شہر بھر میں ڈرینیج و سیوریج سسٹم کا کام دینے لگے۔

لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال یکسر بدل گئی کراچی نخلستان اور روشنیوں کے شہرسے گنجان آبادی والا گندگی کا ڈھیر نظر آنے والا شہر بن گیا۔ یہاں نہ تو عوام کے لیے رفاحی و فلاحی ماحول میسر ہے ، نہ ہی بنیادی سہولیات، نہ ہی صحت مند آب و ہوا اور نہ ہی جدید طرز ِ تعمیر کا شہری انفرا اسٹرکچر۔ بس یہاں بے ربط و بے ہنگم زندگی رواں نظر آتی ہے ۔ ٹریفک کا نظام ہو یا امن و امان کی صورتحال ، تعلیم و صحت کی معیاری سہولیات کی بات ہو یا صحت مند غذا و پانی کی دستیابی یا صفائی ستھرائی کا نظام ، سب کے سب درہم برہم ہیں۔

گذشتہ ایک صدی کی تاریخ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کراچی انتہائی خوبصورت فلاحی و رفاحی شہر کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی سہولیات و آسائشات کا حامل شہر تھا ۔ لیکن جب کراچی کی غیر فطری طریقے سے آبادی بڑھی یعنی پاکستان کے دیگر علاقوں سے(حتیٰ کہ بیرون ِ پاکستان سے) لوگ کراچی میں آکر آباد ہونے لگے تو کراچی مسائل کا شکار ہوتا چلا گیا ۔

بلا روک ٹوک و مانیٹرنگ کے ،ان باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے حکومتی جانب سے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی ۔ نہ اُن کی رہائش ،غذائی و آبی اور دیگر ضروریات ِ زندگی کو پورا کرنے والی اشیاء کی دستیابی کا بندوبست کیا گیا اور نہ ہی اُن آنے والے لوگوں کی وجہ سے شہر کی ڈیمو گرافی پر بڑھنے والے بوجھ کے تدارک کا کوئی انتظام کیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں دیگر صوبوں سے آنے والے لوگ اور Refugeesشہر میں موجود سرکاری زمینوں بالخصوص شہر بھر میں پھیلے قدرتی برساتی پانی اور نکاسی ِ آب کو سمندر میں اخراج کرنے والے ڈرینیج نالوں پر قبضہ کرکے اپنے مکانات بناتے گئے ۔ نہ انھیں روکا گیا اور نہ ہی انھیں کوئی متبادل دیا گیا۔

دوسری جانب شہر میں تعمیری و توسیعی عمل کے تحت سڑکوں اور گلیوں کی سطح اونچی ہوگئی ہے اور مکانات کی سطح نیچی ہوکر رہ گئی ہے جس وجہ سے یہاں کے ڈرینیج کا نظام اکثر و بیشتر مسائل کا شکار رہتا ہے جب کہ بارشوں کے موسم میں تو زیریں علاقے پانی سے بھر جاتے ہیں اور کئی کئی روز تک پانی  کا اخراج نہیں ہو پاتا ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ شہر بھر میں موجود اِن چھوٹے بڑے 41نالوں پر کچی آبادیاں بن چکی ہیں ۔ ان نالوں میں سب سے زیادہ خطرناک صورتحال موسیٰ کالونی گجر نالے کی ہے ۔ جس کی اصل چوڑائی 100فٹ تھی جو اب 15فٹ رہ گئی ہے ۔ دوسری جانب لیاقت آباد ، منظور کالونی ، کشمیر کالونی ، اعظم بستی ، محمود آباد بھی نالوں پر تجاوزات میں سرفہرست ہیں اور اس ضمن میں حد تو یہ ہے کہ دہلی کالونی میں تو ان نالوں کے اوپر اس کمال ہوشیاری سے 6،6منزلہ عمارات تعمیر کردی گئی ہیں کہ نالوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے۔

نہ صرف ان نالوں پر مکانات تعمیر کردیے گئے ہیں بلکہ ان مکانات میں بسنے والے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ و فضلہ اور پلاسٹک کی تھیلے (شاپنگ بیگس) بھی ان نالوں میں پھینکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نالے بالکل جام ہو کر رہ گئے ہیں ، اب ان میں نہ ہی برسات کا پانی سفر کر سکتا ہے اور نہ ہی نکاسی ِ آب و سیوریج کا پانی ان میں بہہ سکتا ہے۔ نتیجتاً اکثر و بیشتر شہر میں خاص طور پر زیریں علاقوں میں گٹر ابلتے رہتے ہیں اور سڑکوں و راستوںپر پانی جمع رہتا ہے۔

ایسے میں جب مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں تو اس کا پانی قدرتی آبی راستے بند ہونے کے باعث شہر بھر میں پھیل جاتا ہے پھر جہاں رکاوٹ آجائے تو وہاں جھیل و تالاب کا سماں ہوجاتا ہے جن میں شہریوں بالخصوص بچوں کے ڈوبنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں جیسے گذشتہ برس ہونے والی شدید بارشوں کے باعث شہر بھر میںہونے والی بارشیں اہلیان ِ کراچی کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن گئیں۔20سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے اور کئی افراد زخمی و متاثر ہوئے۔

اس طرح کی صورتحال 2017میں پہلی مرتبہ نہیں ہوئی تھی بلکہ 4مرتبہ اس سے پہلے بھی 2006، 2011، 2012، 2015میں بھی ایسی بدترین صورتحال کا سامنا کرچکی ہے ۔ لیکن  برپا ہونے والی صورتحال تب گمبھیر بن گئی جب شدید بارشوں کے باعث تھڈو ڈیم ٹوٹنے سے پاکستان کی معیشت کی شہ رگ سمجھی جانے والی ملک کی سب سے بڑی شاہراہ سپر ہائی وے ڈوب گئی ۔ گڈاپ ، نارتھ کراچی ، نارتھ ناظم آباد ، ڈرگ روڈ ، نیپا چورنگی ، اورنگی ٹاؤن ، ملیر ، نادرن بائی پاس اور دیگر ملحقہ علاقوں کو سیلابی پانی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ پھر سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں بھی ہر طرف پانی پھیل گیا اور شہر بھر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ۔

اس شدید صورتحال کے باوجود ہماری حکومت و انتظامیہ کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے ۔ نہ ہی ان تجاوزات کو مستقل بنیادوں پر ہٹایا جاتا ہے ، نہ ان نالوں کو پکا کرکے ان کی مؤثر نگرانی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی صفائی ستھرائی کا مؤثر نظام بنایا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ انگریز کی جانب سے ماضی میں بنائے ہوئے اس بہترین نظام کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے جو ایئر پریشر ماڈیول کے ذریعے شہر بھر کے زیر ِ زمین ڈرینیج سسٹم کو چلاتا تھا ۔ جس کا ثبوت کے ایم سی فٹ بال گراؤنڈ کے قریب Tunnelمیں موجود موجود خستہ حال مشینیں اور چمنی ٹاور  آج بھی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں ۔

صوبائی حکومت اور شہری حکومت شہر کی ذمے داری اٹھانے کے بجائے صرف ایک دوسرے پر بہتان تراشیوں میں مصروف ہیں ۔ شہری حکومت کے سربراہ کراچی کے میئر موصوف صوبائی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ شہر کو بجٹ میں مناسب حصہ نہیں دیا جاتا اس لیے شہر کی حالت زار ہوگئی ہے ۔ جب کہ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ کراچی میونسپل کو مکمل بجٹ و اختیاری دے دیے گئے ہیں لیکن وہ شہر کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

اگر ان دونوں فریقین کی باتیں تسلیم بھی کرلی جائیں تو بھی ان دونوں کی نااہلی یوں نظر آتی ہے کہ ایک طرف کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ادارے30سال قبل 1988میں فاروق ستار کے میئر بننے سے لے کر آج تک ایم کیو ایم کے کنٹرول میں رہے ہیں لیکن شہر کی حالت بد سے بدترین ہوتی چلی گئی بلکہ اسی عرصہ کے دوران ان نالوں پر قبضوں میں شدت نظر آتی ہے ۔ بلکہ انھی کے لوگوں کی جانب سے گٹر باغیچہ کی صورت و دیگر نالوں پر قبضے کرکے شادی ہال بنائے گئے ۔

اسی طرح دوسری جانب صوبائی حکومت کا حال کچھ اس طرح ہے کہ یوں تو سندھ اسمبلی کی جانب سے 27ستمبر 2010کو تجاوزات کے خاتمے کا قانون پاس کیا گیا جس کا نوٹیفکیشن 26اکتوبر 2010کو جاری کیا گیا ۔ جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت ِ سندھ کے ماتحت سرکاری زمین بشمول زمین سے ملحقہ چیزیں یا مستقل طور پر قائم کیے گئے باندھ ، کنویں ، فٹ پاتھ ، سڑک ، سُرنگھ، پُلیں ، گلیاں اور نالوں پر کیے گے قبضہ کے ذمے دار شخص کو تعمیرکردہ ڈھانچے سمیت قبضہ ہٹانے کا حکم نامہ جاری کیا جائے گااور اس حکم کی تعمیل میں نافرمانی کرنے والے قبضہ خوراور اس کے مددگار کے خلاف اس قانون کی سب سیکشن (3) کے تحت6ماہ سزا اور کم از کم 50ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا اور تعمیر کیے گئے ڈھانچے کو مسمار کرکے قبضہ بھی چھڑایا جائے گا۔

لیکن اس کے باوجود گذشتہ 8برس میں پی پی پی کی صوبائی حکومت کی جانب سے نہ تو ان نالوں سے قبضے چھڑائے گئے اور نہ ہی قبضہ خوروں کو کوئی سزا ہوئی بلکہ دن بہ دن قبضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ حالانکہ صوبائی حکومت کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ صوبے کے دارالحکومت کو اپنی خصوصی توجہ و بجٹ سے خوبصورت ترین بنائے ۔ لیکن یہاں تو ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ والی کہانی عملاً نظر آتی ہے ۔

حد تو یہ ہے کہ ان قبضہ شدہ جگہوں پر قائم کی جانے والی کچی آبادیوں میں تعمیر کردہ عمارتوں میں سرکار کی جانب سے پانی ، گیس اور بجلی وغیرہ کے کنیکشن بھی مل جاتے ہیں ۔ جس کی تمام تر ذمے داری ان دونوں جماعتوں ( ایم کیو ایم اور پی پی پی ) پر عائد ہوتی ہے جو اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی لالچ میں ان ناجائز بستیوں کے مکینوں کو کے ڈی اے اور کے ایم سی و دیگر اداروں سے غیر قانونی طریقوں سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ یعنی NOCدلاتی ہیں جس کی بناء پر یہ قبضے پکے ہوتے جاتے ہیں ۔ یعنی یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ اس شہر کو سرکاری طور پر تباہ و برباد کیا جارہا ہے ۔

اب اگر اس شہر کی زمان حال میں بات کریں تو یہاں ایک ساتھ تین نظام چل رہے ہیں ۔ ایک صوبائی نظام ، دوسرا شہری حکومت کا نظام جو کبھی ناظموں کے کنٹرول میں تھا اور اب میئر کے توسط سے میونسپل بجٹ کے تحت چل رہا ہے جب کہ تیسرا نظام شہر بھر میں مختلف علاقوں جیسے ڈیفنس ، کلفٹن ، ملیر کینٹونمنٹ ، صدر تا کینٹ کراچی کنٹونمنٹ سمیت دیگر علاقوں میں وہاں کے اداروں کے ماتحت علیحدہ انتخابات، ترقیاتی کام و بجٹ کا انتظام موجود ہے۔ لیکن پھر بھی یہ شہر انتظامی بدحالی کا شکار ہے ۔

نالوں و قدرتی آبی راستوں پر کیے جانے والے ان قبضوں اور ان نالوں میں ڈمپ کیے جانے والے گند و کچرے کی وجہ سے کراچی کو ہر سال مون سون کے موسم میں درپیش شدید نقصانات کے خطرے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر ان نالوں سے قبضے چھڑا کر اور ان کی صفائی کرکے ان کو اصل حالت میں بحال نہ کیا گیا تو کراچی کو کسی بڑی قدرتی آفت یا سمندری طوفان کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ مون سون کی رحمت والی بارشیں ہی اس شہر کو نیست و نابود کردیں گی اور سرکار و سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ ہم اہلیان ِ کراچی بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔