ارتھ ڈے دنیا بھر میں منایا گیا
ایک ایسا وقت بھی بالآخر آ سکتا ہے جب ہماری زمین حیات انسان کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے گی۔
ایک ایسا وقت بھی بالآخر آ سکتا ہے جب ہماری زمین حیات انسان کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے گی۔ فوٹو : فائل
اتوار 22 اپریل کو دنیا بھر میں یوم الارض یا ارتھ ڈے منایا گیا جس کا مقصد اس کرہ ارض کو ان آفات سے بچانے کا شعور اجاگر کرنا ہے جو بتدریج ہماری زمین کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ اگرچہ ابھی یہ مضر اثرات نظر نہیں آتے مگر ایک ایسا وقت بھی بالآخر آ سکتا ہے جب ہماری زمین حیات انسان کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے گی، حیات انسانی ہی نہیں بلکہ حیوانی حیات کا بھی ممکن نہ رہے گی۔
فی الوقت زمین کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے وہ ہے پلاسٹک کی حد سے زیادہ آلودگی جس کے نتیجے میں آبی حیات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک پلاسٹک کی وجہ سے کرہ ارض پر تمام جانداروں کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اگرچہ ترقی یافتہ ملکوں میں سائنسدان مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں کہ پلاسٹک کی تیاری میں کوئی ایسا کیمیاوی مادہ شامل کر دیا جائے جس کی وجہ سے پلاسٹک کے شاپر اور بوتلیں ایک خاص وقت کے بعد خود بخود گُھل کر مٹی یا پانی میں تحلیل ہو جائیں لیکن فی الوقت ایسا نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق سمندروں کی تہہ میں اس قدر پلاسٹک ویسٹ جمع ہو چکا ہے جس نے آبی حیات کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک سمندر کی تہہ سے پلاسٹک ویسٹ نکلوانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ درختوں کی بے تحاشا کٹائی کے نتیجے میں گرمی بڑھی ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اورپہاڑی تودے گرنے میں تیزی آئی ہے جو سیلاب اور زلزلوں میں زیادتی کا باعث ہے۔
اگرچہ فضائی اور آبی آلودگی میں اضافہ کرنے کی زیادہ ذمے داری ترقی یافتہ ممالک پر آتی ہے لیکن اس کا خمیازہ پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔لہٰذا ماحول کو بچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
فی الوقت زمین کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے وہ ہے پلاسٹک کی حد سے زیادہ آلودگی جس کے نتیجے میں آبی حیات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک پلاسٹک کی وجہ سے کرہ ارض پر تمام جانداروں کی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اگرچہ ترقی یافتہ ملکوں میں سائنسدان مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں کہ پلاسٹک کی تیاری میں کوئی ایسا کیمیاوی مادہ شامل کر دیا جائے جس کی وجہ سے پلاسٹک کے شاپر اور بوتلیں ایک خاص وقت کے بعد خود بخود گُھل کر مٹی یا پانی میں تحلیل ہو جائیں لیکن فی الوقت ایسا نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق سمندروں کی تہہ میں اس قدر پلاسٹک ویسٹ جمع ہو چکا ہے جس نے آبی حیات کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک سمندر کی تہہ سے پلاسٹک ویسٹ نکلوانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ درختوں کی بے تحاشا کٹائی کے نتیجے میں گرمی بڑھی ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اورپہاڑی تودے گرنے میں تیزی آئی ہے جو سیلاب اور زلزلوں میں زیادتی کا باعث ہے۔
اگرچہ فضائی اور آبی آلودگی میں اضافہ کرنے کی زیادہ ذمے داری ترقی یافتہ ممالک پر آتی ہے لیکن اس کا خمیازہ پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔لہٰذا ماحول کو بچانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔