دولت مشترکہ ممالک کی تجارت اور پاکستان کا مقام

دولت مشترکہ کی باہمی تجارت میں چین اور بھارت بڑی تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔


Editorial April 23, 2018
دولت مشترکہ کی باہمی تجارت میں چین اور بھارت بڑی تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے دولت مشترکہ سربراہ اجلاس 2018ء کے اختتام پر پریس کانفرنس میں خطاب میں اجلاس کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دولت مشترکہ کے سربراہان مملکت نے تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر اتفاق کیا ہے جس سے2030ء تک دولت مشترکہ ممالک کی باہمی تجارت کو 2 کھرب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔

اجلاس کے اعلامیہ میں سائبر کرائم کے خلاف دولت مشترکہ بلیو چارٹر اوشیئن ایکشن پر عملدرآمد بھی اجلاس میں کیے گئے اہم فیصلوں میں سے ایک ہے، اسی طرح باہمی رابطوں اور سرمایہ کاری کے فروغ اور دولت مشترکہ کے انتخابات میں مبصرین کے لیے گائیڈ لائنز پر کیا جانے والا اتفاق بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

ادھر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میںافغان وزیر خزانہ اکلیل احمد حکیمی اور پاکستان کے مشیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان اور افغانستان دوطرفہ تجارتی مسائل حل کرنے پر رضا مند ہوگئے، اس سلسلے میں ورکنگ گروپ بنایا جائے گا جب کہ آیندہ ماہ کے آغاز میں دونوں ممالک اس حوالے سے تجاویزکو حتمی شکل دیں گے۔

دولت مشترکہ میں یورپ' ایشیا اور افریقہ کے 53ممالک شامل ہیں جو دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔ بڑے ممالک میں برطانیہ' کینیڈا' آسٹریلیا' نیوزی لینڈ کے علاوہ ترقی پذیر ممالک پاکستان' بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس تنظیم کا حصہ ہیں۔ دولت مشترکہ میں آبادی کے لحاظ سے بھارت کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں بڑی طاقتوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تجارت کو فروغ دینے اور معاشی فوائد سمیٹنے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے' اس حقیقت کا سب کو ادراک ہو چکا ہے کہ معاشی میدان میں ترقی کے بغیر کوئی بھی ملک دنیا میں اہم مقام حاصل نہیں کر سکتا اور عالمی سطح پر ہونے والے فیصلوں میں بھی اس کا کوئی کردار تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں نے معاشی میدان میں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا اور آج ٹیکنالوجی کے کاروبار سے وہ سالانہ کھربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ یورپی ممالک نے تجارت کے فروغ کے لیے باہمی رنجشوں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا اور باہمی آمدورفت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے موثر قوانین تشکیل دیے۔

انھوں نے دوسرے ممالک تک اپنے تجارتی مال کی باآسانی رسائی کے لیے یورپی یونین' دولت مشترکہ سمیت مختلف ناموں سے تنظیمیں تشکیل دیں، سائنس و ٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے مختلف مقاصد اور اہداف کا تعین کیا اور ان کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اب برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے کا دولت مشترکہ ممالک کی باہمی تجارت کو 2کھرب ڈالر تک بڑھانے کا اعلان بھی حقیقت میں یورپی ممالک کی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔

دولت مشترکہ کی باہمی تجارت میں چین اور بھارت بڑی تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں' کھربوں ڈالر کی اس تجارت میں پاکستان کا کیا مقام اور کتنا حصہ ہے، یہ حقیقت انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان اپنی ناقص پالیسیوں اور حکومتوں کی نااہلی کے باعث عالمی منڈی میں کوئی اہم مقام حاصل نہیں کر سکا اور آج صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے میدان میں اسے بڑے پیمانے پر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔

اب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانے کا فیصلہ کر کے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ پاکستانی حکام نے افغان حکام کو ملاقات کے دوران بتایا کہ 2010-11ء کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 2ارب 40کروڑ ڈالر تک تھا جو اب کم ہو کر صرف 80کروڑ ڈالر تک رہ گیا ہے۔ پاکستان ابھی تک لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہی حل نہیں کر سکا دوسری جانب پانی کا تیزی سے بڑھتا ہوا بحران صنعتی،زرعی اور معاشی میدان کے لیے نئے چیلنجز لے کر آ رہا ہے۔

ترقی کے بلند گراف دعوؤں اور بیانات میں تو دکھائی دیتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے صنعتوں کے فروغ اور برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی موثر پالیسی اور منصوبہ سامنے نہیں آ رہا' کوئی ایسی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی جس سے یہ امید بندھے کہ پاکستان دولت مشترکہ ممالک کی باہمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد سمیٹ سکے گا۔

چین اور دیگر ممالک پاکستان کی داخلی تجارتی منڈیوں سے تو فائدے اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان ان ممالک کی تجارتی منڈیوں میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔خوشحالی اور ترقی کے لیے میدان کھلا ہے مگر دولت مشترکہ ممالک کی تجارتی منڈیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو بہتر اور جدید معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں