بھارت چین تعلقات بحالی کی کوششیں

کلدیپ نئیر  جمعـء 4 مئ 2018

بھارت کے اولین  وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے چینی وزیراعظم چو این لائی کی حمایت کی تھی جب اس نے چین کے فوجی کمانڈر چیانگ کائی شیک کو شکست دے کر فتح حاصل کر لی تھی۔ اس سے قبل چینی وزیراعظم نے بھارت کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کی تھی،جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ بھارت کی کامیابی جنگ عظیم دوئم میں اتحادیوں کی فتح پر منتج نہ تھی جب امریکا کی طرف سے  برطانیہ اور دیگر جمہوری قوتوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔

نہرو کو کانگریس کی حمایت حاصل ہو گئی تھی حالانکہ مہاتما گاندھی کا خیال تھا کہ جرمنی کا ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر جیت جائے گا جو فسطائی قوتوں کی پشت پناہی کر رہا تھا لیکن چواین لائی نے 1962ء میں بھارت پر حملہ کر دیا جس کا نہرو کو سخت دھچکہ لگا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ نہرو یہ حملہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس کے بعد غیر وابستہ تحریک نے مل کر کولمبو پلان کی  تجاویز میں ترمیم کر دی جس سے نہرو کی ساکھ کسی حدتک بحال ہونے میں مدد ملی۔

نئی تجاویز میں چین اور بھارت کے درمیان اس سرحد کو تسلیم کر لیا گیا جو چینی فوج نے قائم کی تھی۔ نئی دہلی نے اس بات پر غصے کا اظہار کیا اور بیجنگ سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب چلے آ رہے ہیں۔

تاہم اب ایسے لگتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چین کی طرف سے بنائی گئی سرحد کو تسلیم کر لیا ہے۔ حکمران بی جے پی کا موقف ہے کہ اب یہی حقیقت ہے۔ لیکن اگر یہ اقدام کانگریس پارٹی کرتی تو اس پر ملک کو فروخت کرنے کا الزام لگ جاتا۔ مودی ہندی زبان میں بڑی گل و گلزار قسم کی تقریریں کرتے ہیں۔ بھارتی عوام چونکہ سیاست کی پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہیں اس لیے انھیں مودی کی تقریریں پسند آتی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پارٹی کو اصل حمایت ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر سے ملتی ہے۔ جہاں تک بھارت چین سرحدی تنازعے کا تعلق ہے وہ آج تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ اصل سرحد کہاں پر واقع ہے۔

نہرو نے کہا تھا کہ انھوں نے بھارتی فوج کو یہ حکم دیدیا ہے کہ دراندازوں کو ہماری سرزمین سے باہر نکال کر ملک کو ان سے صاف کر دیں۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت حد تک معاندانہ ہو گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت نے ’’دو کلام‘‘ کی سرحد پر اپنی فوجیں کھڑی کر دیں جس پر چین کو اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لینی پڑیں۔

وزیراعظم مودی کی گزشتہ ستمبر میں ’’برکس‘‘ کے اجلاس میں شرکت کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں فوری کمی واقع ہو گئی۔ مودی کے اس اقدام سے دونوں کے تعلقات میں بہتری آئی ہے کیونکہ دونوں دہشت گردی کے خلاف مل کر کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف پاک چین دوستی دن بدن مضبوط ہو رہی ہے جس کی بھارتی حکومت کو تشویش ہے۔

زیادہ دیر کی بات نہیں جب چین نے آروناچل پردیش سے چین جانے والے سیاحوں کو ان کے پاسپورٹ پر ویزے کی مہر لگانے کے بجائے اسٹیپلر سے ویزا منسلک کرنا شروع کر دیا تھا جس سے چین کا یہ مقصد تھا کہ آروناچل پردیش بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے یہ توہین بڑی خاموشی سے چپ چاپ برداشت کر لی۔ بھارت اور چین کے درمیان ایک چھوٹے سے علاقہ کا تنازعہ زیادہ بڑھایا نہیں جاتا۔ چینیوں کے لیے تبت کا مسئلہ ویسا ہی ہے جیسے بھارت کے لیے کشمیر کا مسئلہ۔ یہ دونوں مسائل آزادی کے وقت سے قائم ہیں البتہ ان میں ایک فرق ہے۔ دلائی لامہ چین کے اندر رہتے ہوئے تبت کو آزاد ریاست قرار دینے پر آمادہ ہیں جب کہ کشمیری مکمل آزادی طلب کر رہے ہیں۔

یہ مسئلہ اسقدر پیچیدہ ہے کہ اس میں تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ دلائی لامہ گزشتہ سال آروناچل پردیش کے دورے پر آئے اور ان یادداشتوں کو واپس لے کر گئے جب تبت چین کا حصہ نہیں تھا۔ نہرو نے اس وقت تبت کی چین میں شمولیت پراعتراض نہیں کیا کیونکہ چواین لائی کے ساتھ نہرو کی ذاتی دوستی تھی۔

چین نے بھارت کو انتباہ کیا کہ دلائی لامہ کا آروناچل پردیش کا دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کر دے گا لیکن اس کے باوجود بھارت نے دوکلام کی سرحد پر اپنی طاقت کا مظاہرہ جاری رکھا۔ بھارت کے ساتھ چین کے مسائل کی اصل وجہ برطانیہ کی طرف سے سرحدی خط کا کھینچنا ہے۔ چین نے میک موہن لائن کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے ذریعے آروناچل پردیش کو بھارت کا حصہ قرار دیدیا گیا۔ وزیر دفاع نرمالہ ستھارا مان کا متنازعہ علاقے کا دورہ چین کی ناراضگی کا باعث بن گیا۔

چین اور بھارت کے درمیان ایک پہاڑی درہ دونوں ملکوں کے لیے وجہ نزاع بنا ہوا ہے لیکن بھارتی وزیر دفاع نے اس درے کا دورہ کر کے چین کی ناراضگی کو ہوا دی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو اسی طرح ہوا دی جاتی رہے گی تو اس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ ایک زمانے میں ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بڑا مقبول تھا چین کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں میں پھر ویسے ہی تعلقات بحال ہو جائیں۔ وزیراعظم مودی نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا ہے جس سے تعلقات میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔

اگر دونوں ملک اپنے اختلافات کو پرامن طور پر دور کر لیتے ہیں تو یہ دونوں کی دانش مندی سمجھی جائے گی۔ دونوں ملکوں نے سرحد بندی کے موضوع پر خصوصی نمایندے مقرر کر دیے ہیں۔ دونوں ملکوں کی افواج اعتماد سازی کے اقدامات کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گی۔ دریں اثناء چین اور بھارت ایک اعلیٰ سطح کا ثقافتی اور عوام سے عوام کے رابطے کا پروگرام بھی شروع کر رہے ہیں۔

وزیراعظم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی سربراہ ملاقات دونوں ملکوں کے ترقیاتی منصوبوں کو شروع کرانے میں مدد کریں گی۔ وزیراعظم مودی اور صدر شی جن پنگ نے ایک جھیل کے کنارے پیدل چہل قدمی کی نیز ایک کشتی کی سیر بھی کی‘ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی توقع پیدا ہو گئی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔