جمہوریت کی ریل گاڑی

رئیس فاطمہ  جمعرات 18 اپريل 2013

کیا قوم ہیں ہم؟ سبحان اﷲ! جمہوریت کے عشق میں پاگل ہوئے جارہے ہیں، بالکل اس طرح جیسے بچے للچا للچا کر ٹافیوں کے ڈبے کو دیکھتے ہیں کہ کب وہ کھلے گا اور کب انھیں مزیدار ٹافیاں کھانے کو ملیں گی۔ بچوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک وہ جن کے اماں ابا ارکان اسمبلی کی طرح ہوتے ہیں۔ جو خود جاگیردار، سردار ، وڈیرے اور سرمایہ دار ہونے کے باوجود کروڑوں کے قرضے چشم زدن میں معاف کروا لیتے ہیں اور دوسرے وہ بچے جن کے ماں باپ دن بھر محنت مزدوری کرکے بمشکل پیٹ کا دوزخ بھرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ بچے نہ ٹافیوں کے ذائقے سے واقف ہوتے ہیں نہ کیک، پیسٹری اور پھلوں سے۔

اس لیے ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے منہ میں پانی نہیں بھر آتا، وہ تو صرف روٹی کی خوشبو کے دیوانے ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان ممنوعہ اشیاء کی طرف دیکھتے ہی نہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ البتہ جو تمام ’’ذائقوں‘‘ سے واقف ہوتے ہیں انھی میں ہوکا بھی بہت ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ کھا جائیں، ان کے معدے بھی بڑے مضبوط ہوتے ہیں، سارا سارا دن کھاتے ہیں پھر بھی پیٹ نہیں بھرتا۔ کیونکہ ہر طرح کا مال ہضم کرنا انھیں ورثے میں ملا ہوتا ہے۔ پہلے وراثت میں شرافت اور اعلیٰ نسبی ملتی تھی جو اب خال خال نظر آتی ہے بلکہ اب یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ خامی ہے کہ اعلیٰ نسب لوگ نہ تو جعلی ڈگری خرید سکتے ہیں نہ اربوں کے قرضے حاصل کرسکتے ہیں، نہ چوروں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیلنے کی تیاری میں مصروف ہیں وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی دیگ پکنے کا انتظار وہ بھی کر رہے ہیں جو کفگیر سے نکالے جانے والے ان چاولوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں جو ادھر ادھر گرجاتے ہیں، لیکن یہ ’’بابو جی‘‘ کی پلیٹ سے گرے گرائے چاول کے دانے ان کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ کوئی کسی من چلے کی ٹانگ کا آپریشن کرکے اربوں کا مالک بن جاتا ہے، کوئی صرف ’’جی ہاں آپ سچ کہتے ہیں‘‘ کا راگ الاپ کر کروڑوں کے قرضے معاف کروا لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر چینل پر اپنے گرو کو ولی اﷲ ثابت کرکے رہیں۔

ایک طرف معمولی چوری کرنے والے کو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے، لیکن اربوں کے قرضے دھونس اور دھاندلی سے معاف کروانے والوں کی کوئی پکڑ نہیں ہوتی۔ جس قوم کے لیڈروں کا یہ حال ہو کہ انھیں جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا ہنر آتا ہو وہ یقیناً اس الیکشن میں (اگر ہوئے تو) کامیاب ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ پشتینی امیر بھی تو اسی طرح بنے ہیں نا۔۔۔۔ قرضے معاف کروا کر، لوگوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرکے، لوٹ مار اور کرپشن کرکے۔ حاجیوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے، کمزور عمارتیں بنا کے، بوسیدہ پل بنا کے، پلاٹوں کی جعلی فائلیں تیار کروا کے، جعلی پرمٹ حاصل کرکے،پرائیویٹ اسکول کھول کے،بے وقعت یونیورسٹیاں کھول کے، جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرکے، وغیرہ وغیرہ۔

الف لیلہ میں ایک علی بابا کا ذکر ہے جس نے اپنی خادمہ مرجینا کے ذریعے چالیس چوروں کا خزانہ حاصل کیا تھا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ کرپشن کے سمندر کے مگرمچھوں کو علی بابا چالیس چور سے تشبیہہ کیوں دیتے ہیں۔ علی بابا تو ایک ایمان دار محنت کش تھا۔ اور اس نے مرجینا کی عقل مندی سے ان ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا تھا جنہوں نے لوگوں کی دولت، مال و اسباب لوٹ کر ایک غار میں جمع کیا تھا۔ علی بابا نے تو لوگوں کو چوروں اور ڈکیتوں سے نجات دلائی تھی۔ وہ تو محسن تھا، کاش! پاکستانی قوم۔۔۔۔۔ شاید میں غلط کہہ گئی۔۔۔۔۔یہاں قوم ہے کہاں؟ ذات برادری کے  فرسودہ اور بدبودار نظام کے پروردہ لوگوں کو قوم نہیں کہا جاسکتا۔

یہی لوگ ہزار خرابیوں، بے ایمانیوں، جعلی ڈگریوں اور لوٹ مار کرنے کے باوجود اسمبلی کے ممبر بن جائیں گے، کیونکہ سب ذات پات، زبان و نسل کی بنیاد پر اپنے اپنے لوگوں کو ووٹ دیں گے۔ ان کی اپنی برادری میں کوئی کتنا ہی گنہگار اور بڑا مجرم ہو، پھر بھی قابل معافی محض اس لیے ہے کہ یہاں قوم ناپید ہے، تقسیم سے پہلے ایک قوم تھی، مسلمان قوم۔۔۔۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد قوم تو وہیں رہ گئی، ذات برادریاں پاکستان آگئیں، پھر بھی اگر اپنی اپنی ذات، برادری اور قبیلوں ہی کو چوروں، اچکوں سے نجات دلانے کے لیے کوئی علی بابا ہمت کرکے نکل آئے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگا۔ خواہ وہ صرف اپنی برادری ہی کو لٹیروں سے نجات دلائے، لیکن یہ بھی ایک نیکی ہوگی، کچھ لوگ تو سکھ کا سانس لے سکیں گے، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔

کہانیوں میں ایک رابن ہڈ بھی ملتا ہے، جو امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں کو دیتا تھا۔ لیکن یہ بھی گئے زمانے کی باتیں ہیں۔ سنا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے محلوں میں بدمعاش ہوا کرتے تھے۔ وہ محلے سے باہر خوب دادا گیری کرتے تھے، لوگ ان کے نام سے کانپتے تھے۔ مائیں بچوں کو ان بدمعاشوں کا نام لے کر ڈراتی تھیں۔ لیکن یہی بدمعاش اپنے محلے کی حفاظت کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے تھے۔ یہ ذمے داری انھوں نے خود ہی اپنے کاندھوں پر لے لی تھی۔ محلے کی کسی لڑکی کو اگر کسی نے چھیڑ دیا تو اس کی شامت آجاتی تھی۔

محلے کے بدمعاش اپنے محلے کے رکھوالے ہوتے تھے، اور آج۔۔۔۔؟ پڑوسی، پڑوسی کا قاتل ہے، نفسا نفسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کسی کے گھر میں مارپیٹ ہورہی ہو، جھگڑا ہورہا ہو، رونے پیٹنے کی آوازیں آرہی ہوں، لوگ اپنے کان بند کرکے ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں، کوئی گھر سے نکل کر نہیں دیکھتا کہ معاملہ کیا ہے؟ کہیں کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہورہی، کوئی کسی مشکل میں تو نہیں ہے، عجیب نفسا نفسی کا دور ہے، کسی بچے کو آپ اس کی غلط حرکتوں پر ٹوک نہیں سکتے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔

الیکشن پاکستان میں کوئی نئے نہیں ہورہے، یہ کھیل تو پرانا ہے، لیکن میڈیا نے جس طرح ’’جمہوریت‘‘ کی ٹوٹی پھوٹی ریل گاڑی کو دھکا لگانے کا ٹھیکہ لیا ہے اس سے ثقہ اور سمجھدار لوگ تشویش میں مبتلا ہیں، کہتے ہیں کہ صحافی اور جج کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ ان میں سے ایک لوگوں کو انصاف مہیا کرتا ہے اور دوسرا عوام میں شعور بیدار کرتا ہے۔ انھیں اچھے برے، غلط اور صحیح کی پہچان کرواتا ہے۔ لیکن کیا یہ دونوں طبقے ایسا کر رہے ہیں؟ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو کالم نگار، تجزیہ کار اور اینکر پرسن، ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر کوئی بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہا۔

تجزیہ نگار اور پروگراموں کے میزبانوں ہی کو لے لیجیے، بیشتر نہایت غیر ذمے داری سے اپنی پسندیدہ جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ واضح طور پر وہ دوسری پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بطور مہمان بلاکر مخالف پارٹیوں کے سیاستدانوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ ان سے تضحیک آمیز اور توہین آمیز سوالات کیے جاتے ہیں اس مقصد کے لیے دو چار زرخرید پٹھو بھی بٹھالیے جاتے ہیں بلکہ سامعین میں سے بھی کچھ لوگوں کو تکلیف دہ سوالات لکھ کر دے دیے جاتے ہیں کہ جیسے ہی اشارہ ہو وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر ’’مہمان‘‘ کی ایسی کی تیسی کردیں تاکہ میزبان کی مزدوری پکی ہوسکے۔ اسی طرح جہاں تک کالم نگاروں کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے۔

ان کی وابستگی جس پارٹی سے بھی ہو، اس کا اظہار انھیں اپنی تحریروں میں نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی تحریر اور ذات دونوں پر حرف آتا ہے، کسی کالم نگار، تجزیہ کار، رپورٹر، اینکرپرسن اور میزبان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار میڈیا کے اوپر اپنی تحریر کے ذریعے کریں۔ یہ بددیانتی ہے۔ اور ان سب کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ تمام امیدوار، تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈروں کو صرف ان کے ذاتی کردار اور سیاسی کردار کے حوالے سے تنقید کا نشانہ ضرور بنانا چاہیے، لیکن برملا اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ جیساکہ نگراں وزیر داخلہ نے نہایت ’’معصومیت‘‘ سے اپنے جذبات کا اظہار کردیا۔

آگے ان کے ستارے کیا کہتے ہیں یہ تو سب کو پتہ ہے، کیونکہ اگر وہ اپنے موجودہ عہدے پر برقرار نہ بھی رہے تو میاں صاحب کی محبت انھیں آیندہ کوئی نہ کوئی بڑا عہدہ پنجاب میں ضرور دلوا دے گی۔ انھوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا ہے۔ کیونکہ نگراں حکومت تو عبوری ہے۔ انھوں نے (ن) لیگ کے لیڈر کے دل میں اپنی بے پایاں محبت کا جو بیج جان بوجھ کر بویا ہے وہ یقیناً بڑا تناور درخت بنے گا اور خوب پھل دے گا۔ کیونکہ جمہوریت کے درخت کے پھل کبھی عوام کے لیے (پاکستان میں) نہیں ہوتے۔ آج جمہوریت جمہوریت کے گیت گانے والے، آنے والے دنوں میں بڑے بڑے بینڈز کے مالک بن جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔