گورنر سندھ محمد زبیر سے ایک سیاسی مکالمہ

گورنر سندھ محمد زبیر سے پوچھا کہ آجکل سیاسی منظر نامے پر کیا ہورہا ہے، انھوں نے کہا جو ہورہا ہے وہ سب کو نظرآرہا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

گورنر سندھ محمد زبیر مسلم لیگ (ن) کی کور ٹیم میں شامل ہیں۔ انھوں نے ن لیگ میں بہت جلدی ترقی کی ہے اور اگلی صفوں میں جگہ بنا لی ہے۔ اس وقت وہ گورنر سندھ ہیں اس لیے اپنے عہدہ کی وجہ سے سیاسی محاذ پر اس طرح متحرک نظر نہیں آتے لیکن جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں ان کی موجودگی لازمی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے اور ن لیگ کی موجودہ سیاست پر ان سے ایک مکالمہ ہوا۔

میں نے گورنر سندھ محمد زبیر سے پوچھا کہ آجکل سیاسی منظر نامے پر کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا جو ہو رہا ہے وہ سب کو نظرآرہا ہے۔ پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، سیاسی انجینئرنگ ہو رہی ہے۔ نواز شریف کو نکالنے والے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں ن لیگ دوبارہ نہ آجائے۔ سب کام اسی تناظر میں ہو رہا ہے۔ ن لیگ کو توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لوگوں کو ان کی کمزوریاں دکھا کرفائلیں دکھا کر نوٹس بھیج کر ن لیگ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

جیتنے والے امیدوار زبردستی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میڈیا پر قدغن لگائی جا رہی ہیں۔ اس طرح اس وقت نہ ملک کی سیاست آزاد ہے، نہ سیاستدان آزاد ہے، نہ میڈیا آزاد ہے۔ ایسے ماحول میں ہونے والے انتخابات کو ہم آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات کیسے کہہ سکیں گے۔ سیاست کو آزاد کرنا ہو گا۔ یہ سیاستدان کی مرضی ہونی چاہیے کہ وہ کس جماعت اور نعرہ کے ساتھ سیاست کرنا چاہتا ہے۔ اسے کسی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور کرنا سیاست کو قید کرنے کے مترادف ہے۔

پھر مسکرائے اور کہنے لگے لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس سب کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بینک کم نہیں ہو رہا۔ ہر سروے اور ہر پول یہ ظاہر کر رہا ہے کہ تمام تر ہتھکنڈوں اور ظلم و زیادتی کے باوجود ن لیگ کی حمائت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ ن لیگ کے ساتھ ہیں۔ ایک یہی چیز ہے جس نے ن لیگ کو کھڑا کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا پھر یہ سب پری پول دھاندلی اور سیاسی انجینئرنگ تو ناکام ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے اصل میں سیاسی انجینئرنگ جو لوگ کر رہے ہیں یہ ان کا کام نہیں ہے۔

انھوں نے جب بھی یہ کام کیا غلط ہی کیا ہے۔ لیکن کیا کریں وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر بار غلط کرنے کے بعد وہ پھر دوبارہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر دوبارہ غلط ہی کرتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں انھوں نے پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ بنائی، کیا ہوا جو پیٹر یاٹ میں گئے ان کا مستقبل ختم ہو گیا۔ ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی آپ دیکھ لیں جو ق لیگ میں گئے وہ دربدر ہو گئے۔ اسی طرح آج پھر وہ جو کر رہے ہیں اس سے ن لیگ کو کم اور ان کو زیادہ نقصان ہو گا۔

ایک پولیٹیکل سائنسدان کا کام ہے کہ سیاست میں جدت پیدا کرے۔ لیکن یہ انجینئر پرانے گھسے پٹے اسکرپٹ کے ساتھ ہی کام کر رہے ہیں۔ انھیں دنیا سیاست میں ہونے والی ترقی کا کوئی علم نہیں۔ انھیں اس بات کا ادراک نہیں کہ دنیا بدل گئی۔ سیاست بدل گئی۔ یہ پرانے طریقوں کو ہی چلا رہے ہیں۔ اب ووٹر اہم ہو گیا ہے۔ لوگوں میں شعور آگیا ہے۔ عوام تک پیغام پہنچنے کے نت نئے ذرایع آگئے ہیں۔ اس لیے لوگوں کی سوچ کو چند لوگوں کے ذریعے قید نہیں کیا جا سکتا ۔

میں نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ اس سب کے باوجود ن لیگ جیت جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر منصفانہ انتخابات ہوئے تو یہی لگ رہا ہے۔ میں نے کہا کیا پنجاب کے لوگ اسٹبلشمنٹ کے مخالف ووٹ ڈال دیں گے۔ پنجاب کبھی بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ نہیں رہا ہے۔انھوں نے کہا بس یہ بھی ایک سیاسی متھ ہی ہے۔ کیا 1970میں پنجاب نے اینٹی اسٹبلشمنٹ بھٹو کو ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ کیا 2008ء میں پنجاب نے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی پارٹی ق لیگ کو گھر نہیں بھیج دیا تھا۔ پنجاب ووٹ دینے میں آزاد رہا ہے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ پنجاب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔

پنجاب نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا ہے۔ اس لیے سب کچھ کے باوجود پنجاب اپنی جگہ کھڑا ہے۔ یہی تو پریشانی کی بات ہے کہ پنجاب اپنی جگہ کھڑا ہے۔ اگر پنجاب میں انجینئرز کو اپنی جیت کا یقین آجائے تو مسئلہ ہی ختم آجائے۔ وہ جو بھی کرتے ہیں اس کے بعد بھی نواز شریف کا جلسہ کامیاب ہو جاتا ہے۔


میں نے کہا پھر خطرہ کیا ہے۔ وہ کہنے لگے ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔ پری پول دھاندلی کی بھی حد ہے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد اگلی حد عبور کر رہے ہیں۔ ایسے میں سارا انتخابی عمل گندا ہو جائے گا۔ ایسے انتخابی نتائج کون مانے گا۔ جہاں سارا ڈیزائن ایک جماعت کے لیے تیار ہو گا۔ مجھے ڈر ہے کہ ایسے انتخابی نتائج ملک بھر میں تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ پاکستان میں ہمیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔

ماضی میں بھی جب انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے تو ملک کا نقصان ہوا ہے۔ آپ دیکھ لیں 1970کے نتائج تسلیم نہیں ہوئے۔ 1977کے نتائج تسلیم نہیں ہوئے۔ میں نے کہا 2013کے نتائج بھی تسلیم نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا ایک جماعت نے نہیں کیے اور وہ اکیلی تھی۔ اگر سب کہتے تو مسئلہ تھا۔ اس لیے میرے نزدیک تو دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک فری اینڈ فیئر انتخابات کا انعقاد جن کے نتائج سب تسلیم کر لیں۔فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔

میں نے کہا آج تک کبھی اسٹبلشمنٹ کی ہار نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے ہم یہ کیسے مان لیں کہ اب اسٹبلشمنٹ ہار جائے گی۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ ضیا ء الحق کہتے تھے کہ پیپلزپارٹی ختم کر دوں گا کر سکے۔ مشرف کہتے تھے کہ نواز شریف اور بے نظیر کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ اب ان کا پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہو گا ۔ کیا ایسا ہوا۔ اس لیے جو آج کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ یا نواز شریف کی سیاست ختم ہو جائے گی وہ ماضی کو سامنے رکھیں۔ سیاسی جماعتیں نہ ایسے ختم ہوتی ہیں۔ وہ صرف عوام کے ووٹ سے ختم ہو سکتی ہے۔ ظلم جبر ان کو زندگی بخشتے ہیں۔

میں نے موضوع کو بدلتے ہوئے کہا کہ کراچی کے بارے میں بتائیں انھوں نے کہا کراچی تقسیم نظر آرہا ہے۔ اگر ایم کیو ایم تقسیم رہی تو صورتحال مختلف ہو گی۔ لیکن بہر حال ابھی تک کے منظر نامے میں کراچی سے سب کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ میں نے کہا تحریک انصاف کو مل جائے گا۔ پیپلزپارٹی کو مل جائے گا۔ لیکن ن لیگ کو کچھ نہیں ملے گا۔ وہ کہنے لگے آپ میڈیا والے کراچی پر آکر پتہ نہیں کیوں مسلم لیگ (ن) سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

آپ بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں تحریک انصاف پورے کراچی سے صرف نو چیئرمین جیت سکی۔ جب کہ ن لیگ نے تیس چیئرمین کی سیٹیں جیتی تھیں لیکن چرچا تحریک انصاف کا تھا۔ آخری ضمنی انتخابات جو سعید غنی نے جیتا اس میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے بعد سب سے زیادہ ووٹ ن لیگ کے تھے۔ ن لیگ کا کراچی میں ایک ووٹ بینک ہے۔ بس میڈیا کی آنکھوں سے اوجھل رہا ہے۔

مجھے تو اس ووٹ بینک میں بھی اضافہ نظر آرہا ہے۔ اس لیے اس بار کراچی سے ن لیگ کو سیٹیں ملیں گی۔ میں نے کہا مثال کے طور پر کون لڑے گا اور جیت سکتا ہے۔ انھوں نے کہا مفتاح اسماعیل لڑ رہے ہیں اور جیتیں گے بھی۔ اس لیے آپ کراچی کی گیم سے مسلم لیگ (ن) کو یکسر آؤٹ نہ سمجھیں۔ میں نے کہا ایم کیو ایم لندن۔ وہ مسکرائے۔ سب کہتے ہیں کہ اگرانھیں لڑنے اور تقریریں کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ آج بھی سب سے آگے ہونگے۔ میں نے کہا کہ سنا ہے لندن والے ن لیگ کی حمایت کر رہے ہیں۔ کہنے لگے اللہ نہ کرے۔ اس حمائت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اس سے تو اللہ ہی بچائے۔

میں نے کہا مسلم لیگ (ن) میں دو بیانیے چل رہے ہیں۔ ایک شہباز شریف کا دوسرا نواز شریف کا، آپ کس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ کہنے لگے دونوں ن لیگ کی ضرورت ہیں۔ اگر شہباز شریف جو بات کر رہے ہیں وہ نہ کی جائے تو بھی بات مکمل نہیں۔ اور اگر جو بات نواز شریف کر رہے ہیں وہ بھی نہ کی جائے تو بات مکمل نہیں۔ یہ بھی دیکھیں جو بات شہباز شریف کر رہے ہیں اگر وہ بات نواز شریف کریں تو لوگ کہیں گے اس پر مقدمے ہیں یہ کیا بات کر رہا ہے۔

اور اگر شہباز شریف وہ بات کریں جو نواز شریف کر رہے ہیں تب بھی لوگ کہیں گے کہ اس پر تو کوئی مقدمہ نہیں یہ کیوں یہ بات کر رہا ہے۔ اس لیے دونوں ٹھیک بات کر رہے ہیں۔ سوچ سمجھ کر رہے ہیں۔ اس میں نہ تو کوئی ابہام ہے اور نہ ہی اختلاف ہے۔ دونوں اپنی اپنی سیاست کے مطابق بات کر رہے ہیں۔ ن لیگ کو دونوں بیانیوں کی ضرورت ہے۔ نشست طویل تھی بہت بات ہوئی۔ لیکن آج تک کے لیے اتنا ہی۔
Load Next Story