یہ کمپنیاں یہ تنخواہیں ایک کہانی ایک افسانہ

لگ تو ایسا بھی رہا ہے کہ شہباز شریف نے یہ کمپنیاں بنا کر پنجاب پر بہت بڑا ظلم کر دیا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

آجکل پنجاب کی کمپنیوں اور تنخواہوں کا بہت شور ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل یہ تنخواہیں اور کمپنیاں ہی ہیں۔ شہباز شریف نے ایسا جرم کر دیا ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں نہ تو کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی آئین و قانون کے تحت اس کی کوئی معافی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ڈر لگنے لگتا ہے کہیں شہباز شریف پر اتنے بڑے جرم پر آرٹیکل چھے ہی نہ لگ جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تنخواہ دینا کرپشن ہے۔ کیا تنخواہ کو چوری کہا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرکار میں مالی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اور انھی مالی قواعد و ضوابط کی وجہ سے سرکار میں مالی ڈسپلن رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ورنہ تو لوگ سرکاری خزانہ کو مفت کا مال سمجھ لیں۔ اسی تناظر میں ایک رائے یہ ہے کہ اتنی زیادہ تنخواہیں دینا دراصل مال مفت دل بے رحم والی بات ہے۔ اسی لیے اس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔

لگ تو ایسا بھی رہا ہے کہ شہباز شریف نے یہ کمپنیاں بنا کر پنجاب پر بہت بڑا ظلم کر دیا ہے۔ میں کوئی کمپنیوں اور تنخواہوں کا وکیل نہیں ہوں لیکن پھر بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ایسا پہلی بار صرف اور صرف شہباز شریف کے دور میں ہوا ہے۔ اور اگر یہ تنخواہیں دی گئی ہیں تو کس قانون اور ضابطہ کے تحت دی گئی ہیں۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیچارے شہباز شریف یہ سرکاری کمپنیاں بنانے کے موجد نہیں ہیں۔ یہ رسم اور طریقہ کار تو پہلے سے موجود تھا۔کمپنیاں شہباز شریف سے پہلے بھی موجود تھیں بھاری تنخواہیں دینے کا رواج بھی پہلے سے موجود تھا لیکن پکڑا اب بیچارا شہباز شریف گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سرکاری اداروں کے نیچے جو یہ کارپوریشن کے طور پر ادارے بنائے جاتے تھے یہ بھی تو کمپنیاں ہی ہیں۔ جن میں پی ٹی وی ، پی ایس او، پاکستان اسٹون کمپنی، ایس این جی پی سمیت متعدد کارپوریشن شامل ہیں۔ اس کی ماضی میں بھی مثالیں موجود ہیں اور حال میں بھی موجود ہیں۔ پی آئی اے بھی ایک خوب صورت مثال ہے۔

یہ بھی مکمل طور پر ایک سرکاری ادارہ ۔ لیکن پھر بھی اس کے ایم ڈی کو بھاری تنخواہ دی جاتی ہے۔ پی ایس او بھی ایک سرکاری ادارہ ہے لیکن اس کے ایم ڈی کو بھی بھاری تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ سرکار میں کمپنیاں اور کارپوریشن بنانے کا رواج پہلے سے موجود نہیں تھا ۔ ہاں البتہ ایسا ضرور لگ رہا ہے کہ بیچارے شہباز شریف کا برا وقت چل رہا ہے۔ اس کے اچھے کام بھی برے بنتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کمپنیاں سب سے پہلے شہباز شریف کے دور میں نہیں بنی ہیں۔ ان سے پہلے بھی بنی ہیں۔ خود پشاور میں میٹرو بن رہی ہے وہ بھی ایک کمپنی کے تحت ہی بن رہی ہے۔

پنجاب میں محکمہ خزانہ نے 2014میں ایک پالیسی منظور کی جس کے تحت سرکاری ملازمین کو یہ اجازت دی گئی کہ اگر کسی سرکاری کمپنی میں کوئی اسامی خالی ہو تووہ اس پر درخواست دے سکتے ہیں۔ اور اس کمپنی کے بورڈ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ میرٹ پر تعیناتیاں کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو بھی پرائیویٹ سیکٹر سے آنے والے امیدواروں کے ساتھ میرٹ پر جانچے ۔ تا ہم فیصلہ میرٹ پر کیا جائے۔ اس پالیسی کے تحت پنجاب کی کمپنیوں میں بیوروکریٹس نے اپلائی کیا۔ اور چند سلیکٹ بھی ہو گئے۔

اب کہا جا رہا ہے کہ یہ ان بیورو کریٹس کو نوازا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو ،کیونکہ ہماری سیاست میں لوگوں کو نوازا بھی جاتا ہے لیکن آپ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں کہ اگر ان بیورو کریٹس کی جگہ کسی پرائیوٹ امیدوار کو رکھ لیا جاتا تو یہ کہا جاتا کہ وہ سفارشی تھا، اس لیے رکھ لیا گیا۔ اتنی زیادہ تنخواہ تھی اس لیے بندہ اپنا لگا لیا گیا۔ فلاں فلاں کا رشتہ دار ہے اس لیے لگ گیا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کو شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہیے کہ انھوں نے ان کمپنیوں میں اکثریت میں سرکاری بیوروکریٹ ہی لگائے۔ کم از کم یہ تو نہیں کہا جا رہا کہ سفارشی لگا دئے۔

یہ تو سب کو پتہ ہے کہ یہ بیوروکریٹ پڑھے لکھے ذہین لوگ ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مقابلے کا امتحان سی ایس ایس پاس کر کے آئے ہیں۔ یہ سفارش پر نہیں آئے ہیں۔ان کو سرکار نے ٹریننگ ہی یہ دی ہے کہ یہ حکومت چلائیں، ادارے چلائیں۔ شہباز شریف کو سوچنا چاہیے کہ وہ بچ گئے ہیں۔ اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔


کس کو نہیں پتہ کہ ہماری سرکاری مشینری سرخ فیتہ کا شکار ہے۔ فائل پھنس جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سرکار میں کوئی کام جلدی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے سرکاری نظام میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کی رفتار بہت سست ہے۔ آج اتنی سست رفتار سے کام نہیں چل سکتا۔ ہمیں اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے آئوٹ آف باکس کچھ کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کمپنیوں میں صرف تنخواہوں کو دیکھنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کمپنیوں نے کیا کام کیا ہے۔ اگر کام کی رفتار غیر معمولی ہے۔ تو پھر یہ تنخواہیں معمولی بات ہیں۔

مثال کے طور پر نیلم جہلم پاور منصوبے کو دیکھیں۔ اسی ارب کا منصوبہ تھا، پانچ سو ارب پر پہنچ گیا۔کئی سال کی تاخیر الگ۔کیا سرکار کا کوئی منصوبہ کبھی وقت پر مکمل ہوا ہے۔کیا اس کی لاگت میں ہر سال اضافہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں اگر ان کمپنیوں کے ذریعے بجلی کے پانچ ہزار میگاواٹ کے منصوبے مقررہ مدت سے بھی پہلے مکمل ہو گئے ہیں ۔ تو کیا یہ کوئی گھاٹے کا سودا ہے۔ ایسے تو پاکستان کی عدلیہ میں بھی کام کو بہتر بنانے کے لیے زیا دہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔

میں اعلیٰ عدلیہ کے محترم ججز کی تنخواہوں کی بات نہیں کررہا بلکہ نچلے عملہ کی تنخواہوں کی بات کر رہا ہوں ۔کیا وہ عام سرکاری ملازم سے زیادہ تنخواہ نہیں لے رہے۔ چاہے وہ اسپیشل جیوڈیشل الائونس ہی ہے۔ اس لیے میرا ذاتی خیال ہے کہ صرف تنخواہوں کو ہی نہیں بلکہ کام کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اس سے صیح تصویر سامنے آسکتی ہے۔

اسی طرح پی کے ایل آئی میں بھی ڈاکٹر سعید اختر اور ان کی ٹیم کے دیگر ڈاکٹرز کی تنخواہوں پر بھی شور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر قلیل ترین مدت میں ایک نیا اسپتال بن گیا ہے تو اس کی پذیر آئی ہونی چاہیے۔

اگر وہاں گردے اور جگر کی پیوند کاری شروع ہو جائے گی تو یہ پاکستان کے لیے بہتر ہے۔ ویسے شور مچایا جاتا ہے کہ پاکستان سے زرمبادلہ بھارت جاتا ہے۔ ہم بھارت کی معیشت کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں،کیا کبھی کسی نے اندازہ لگایا ہے کہ سال میں کتنے لوگ جگر اور گردے کی پیوند کاری کے لیے بھارت جاتے ہیں۔ اب تو خیر بھارت نے ویزے دینے ہی مشکل کر دیے ہیں لیکن میں خود ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جو علاج کے لیے بھارت جانے کے لیے اس کی ایمبیسی کے چکر لگاتے لگاتے تھک گئے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کا ایک ایسا مافیا بن گیا تھا جو بھارت بھجوانے کے لیے کمیشن لیتا تھا۔

انھوں نے بھارتی اسپتالوں سے کمیشن طے کر لی ہوئی تھی کہ ہم آپ کو مریض بھیجیں گے۔ ایسے میں اگر ایک عالمی معیار کا سرکاری اسپتال بن جائے تو یہ نعمت نہیں جہاں پاکستان میں گردے اور جگر کی پیوند کاری ممکن ہو۔ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کی تنخواہ کا معاملہ ہے۔ تو اگر سرکاری اسپتالوں میں موجود پروفیسر اور دیگر سنیئر ڈاکٹر اپنی پرائیوٹ پریکٹس بند کر کے سرکاری اسپتال میںکام کرنے کو تیا ر ہو جائیںتو ہم ڈاکٹر سعید اختر کی تنخواہ پر اعتراض کر سکتے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر سرکاری اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر نے شام کو ایک پرائیوٹ دکان کھول رکھی ہے اور اپنی اس پرائیویٹ دکان کو چلانے کے لیے وہ سرکاری اسپتال میں مریض نہیں دیکھتا۔ مریضوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ شام کو پرائیوٹ دکان میں آجائیں۔ اگر پی کے ایل آئی میں کام کرنے والے ڈاکٹر کو شام کو اپنی پرائیوٹ دکان چلانے کی اجازت نہیں ہو گی تو میرے نزدیک یہ ایک اصول یہ زیادہ تنخواہیں دینے کے لیے کافی ہے۔ بلکہ باقی سرکاری اسپتالوں میں بھی جو ڈاکٹر اپنی دکان بند کر خود کو صرف اسپتال کے لیے وقف کر دے اس کو زیادہ تنخواہ دی جانی چاہیے۔ اس طرح تمام سرکاری اسپتال ٹھیک ہو جائیں گے۔

میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ہم تنخواہوں کے شور میں کام کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ اس سے تو بہتر ہے کام کیا ہی نہ جائے۔ مجھے خود ایک بیورو کریٹ نے کہا کہ یہ جن کو کام کرنے کا شوق تھا سب پھنس گئے ہیں۔ میرا تو اصول ہے کہ بس سیدھی سیدھی نوکری کرو۔ زیادہ کام کرنے اور آگے آگے آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہر حال شہباز شریف کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ وہ سستے چھوٹ گئے ہیں ۔ یہ تنخواہیں دینے کا الزام کچھ زیادہ مہنگا نہیں ہے۔ ورنہ وہ جتنے منصوبے لگا رہے تھے، اس میں زیادہ برے بھی پھنس سکتے تھے۔
Load Next Story