صبر و ضبط کی فضیلت

اذیّت پر صبر کرنا اپنے نفس کے خلاف جہاد اور انبیائے کرامؑ و صالحین عظامؒ کے اوصاف میں سے ہے۔ فوٹو: فائل

اذیّت پر صبر کرنا اپنے نفس کے خلاف جہاد اور انبیائے کرامؑ و صالحین عظامؒ کے اوصاف میں سے ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب کے ذریعے انسان کو آزمایا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نبیؑ سب سے زیادہ مصائب و آلام سے آزمائے گئے۔ ان مصائب پر صبر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ جنتے بڑے مصائب انبیائے کرامؑ پر آئے اتنا ہی زیادہ انہوں نے صبر بھی فرمایا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ پر سب سے زیادہ مصائب آئے، اور حضور اکرم ﷺ نے صبر کا وہ اعلیٰ مظاہرہ کیا کہ ’’امام الصابرین‘‘ کہلائے۔ آج اسی صفت صبر پر حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلو بیان کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیدنا ابن مسعودؓ سے مرو ی ہے کہ غزوہ حنین میں نبی اکرم ﷺ نے مالِ غنیمت تقسیم فرماتے ہوئے بعض لوگوں کو ترجیح دی‘ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے، عینتہ بن حصن کو بھی اتنے ہی دیے۔ شرفائے عرب میں سے بھی بعض کو ترجیحاً کچھ زیادہ مال دیا۔ ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا اور نہ رضائے الہی کو پیش ِنظر رکھا گیا۔ (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں) میں نے کہا : اللہ کی قسم! میں ضرور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ والہ وسلم کو بتاؤں گا۔ چناں چہ میں نے خدمت ِاقدس میں حاضر ہوکر یہ واقعہ بیان کردیا‘ یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا اور آپؐ نے فرمایا : اگر اللہ اور اس کا رسول انصاف نہیں کریں گے تو کون کرے گا! پھر فرمایا : اللہ عز و جل موسیٰ پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے کہا کہ آیند ہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں اس قسم کی بات نہیں پہنچاؤں گا۔

علامہ ابو الحسن ابن بطالؒ شرح بخاری میں فرما تے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کی جزا کے ساتھ ایک حد بھی بیان فرمائی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ کا مفہوم ہے : ’’جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں۔‘‘ (القرآن)

پھر راہ خدا میں خرچ کرنے کی جزا اس سے بھی زیادہ رکھی اور فرمایا، مفہوم: ’’ ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانے کی طرح، جس نے اُگائیں سات بالیاں، ہر بالی میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔‘‘ (القرآن)

اور صبر کرنے والوں کا اجر بے حساب رکھا اور فرمایا : ’’ اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔‘‘ (القرآن)

اذیت پر صبر کرنا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ یہ انبیائے کرام علیہم السلام و صالحین عظام کے اوصاف میں سے ہے۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے تمام نفوس کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ تکلیف اور مشقت پر درد محسوس کرتے ہیں جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کو انصاری کی بات سے تکلیف پہنچی حتیٰ کہ آپؐ کا چہرہ انور غصے سے سرخ ہو گیا لیکن آپ ﷺ نے صبر کیا اور پرسکون ہوگئے کیوں کہ آپؐ صابرین کے لیے اللہ تعالیٰ کے وعدے و اجر کو جانتے تھے۔ چناں چہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید کرتے ہوئے حضرت سیدنا موسیٰؑ کے صبر کو مد نظر رکھا اور صبر کیا۔صبر کی کئی اقسام ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : صبر تین قسم کا ہوتا ہے۔ مصیبت پر صبر کرنا۔ طاعت (نیک اعمال) پر صبر کرنا۔ معصیت پر صبر کرنا۔ پس جس نے مصیبت پر صبر کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے تین سو درجات لکھے گا اور ہر درجے کے درمیان زمین و آسمان کے درمیان کی مسافت (فاصلہ ) ہے۔ اور جس نے طاعت پر صبر کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے سات سو درجات لکھے گا اور ہر درجے کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر منتہائے عرش کا فاصلہ ہے۔ اور جس نے معصیت سے صبر کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نو سو درجات لکھے گا اور ہر درجے کے درمیان ساتویں زمین سے لے کر منتہائے عرش کا دگنا فاصلہ ہے۔ (شرح بخاری)

حضرت سیدنا جابرؓ کی روایت میں ہے غزوہ حنین کی واپسی پر حضور اکرم ﷺ نے چاندی تقسیم کی تو ایک شخص نے کہا: اے محمد ﷺ عدل کرو تو امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے حضور اکرم ﷺ سے اجازت مانگی کہ میں اس کو قتل کروں۔ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں۔ (معاذ اللہ)

حدیث مذکور میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو اس انصاری کی بات سے سخت صدمہ پہنچا اور آپ کو اتنا جلال آیا کہ چہرۂ انور سرخ ہوگیا لیکن آپ ﷺ نے غصے پر قابو رکھا، صبر فرمایا اور کسی قسم کی کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی ۔ چناں چہ ہمیں بھی آپ ﷺ کے اس سلوک سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھنا چاہیے۔ کئی آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ میں غصہ پینے کی فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں چند فضائل بیان کیے جاتے ہیں: اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں غصہ آجائے تو فوراً رجوع کر لیتے ہیں۔‘‘ (معجم الاوسط)

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس گھونٹ سے زیادہ اجر والا کوئی گھونٹ نہیں جو غصے کا گھونٹ بندے نے رضائے الہٰی کے لیے پیا۔‘‘ (ابن ماجہ)

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے : ’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی گھونٹ اتنا پسندیدہ نہیں جتنا بندے کا غصے کا گھونٹ پینا پسند ہے، جو بندہ غصہ پی لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو ایمان سے بھر دینا ہے۔‘‘ (کنزالعمال)

حضرت سیدنا امام شافعیؒ کے اس قول کا یہی معنی و مطلب ہے: ’’جسے غصہ دلایا گیا اور وہ غصہ میں نہ آیا تو وہ گدھا ہے اور جسے راضی کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ راضی نہ ہوا تو وہ شیطان ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کی حمیت اور شدت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت۔‘‘ (القرآن) اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرماتا ہے۔ صبر انبیائے کرام علیہ السلام اور صالحین کی صفات میں سے ایک اعلیٰ صفت ہے ۔ ہماری ذات کے بارے میں چاہے کوئی کیسی ہی غصہ دلانے والی بات کہے ہمیں غصہ پی کر صبر سے کام لینا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں غصہ پینے اور صبر و ضبط کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔