مراد علی شاہ کا مقدمہ اور صوبائی خود مختاری

موجودہ انتخابات کی خوبصورتی یہ نظر آرہی ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ کارکردگی کا سوال سامنے آتا جا رہا ہے

msuherwardy@gmail.com

پاکستان میں جمہوریت چل رہی ہے۔ انتخابات وقت پر ہو نے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کی عدالت میں پیش ہیں۔ گو کہ ابھی تک سیاسی جماعتوں کے منشور کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی لیکن پھر بھی رسمی طور پر منشور پیش کیے جا رہے ہیں۔ ووٹ کی حرمت اور اہمیت بتائی جا رہی ہے۔ جمہوریت کے مخالفین کو بھی سمجھ آرہی ہے کہ انھیں بھی جمہوریت کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا۔ اس سے راہ فرار ممکن نہیں ہے۔ جیسے جیسے جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے۔ ویسے ویسے جمہوری سوچ بھی مستحکم ہو گی۔ لوگوں میں شعور آئے گا، حقوق کی آگاہی ہو گی، فرائض کی جوابدہی ہوگی، کھیل کے قواعدو ضوابط طے ہوتے جائیں گے، دھاندلی کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جائیں گے۔

موجودہ انتخابات کی خوبصورتی یہ نظر آرہی ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ کارکردگی کا سوال سامنے آتا جا رہا ہے۔ عوام کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ ہر ایک سے اس کی کارکردگی کے بارے میں سوال کریں اور اس ضمن میں کسی بھی قسم کا فضول اور حقائق کے برعکس بہانہ قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا یہ موقف بھی عجیب لگا کہ سندھ اور کراچی کی بری حالت کی ذمے داری وفاق پر عائد ہوتی ہے۔ کو ئی مراد علی شاہ سے پوچھے کہ پیپلزپارٹی گزشتہ 3 ادوار سے سندھ میں برسراقتدار ہے اورصوبائی خود مختاری کی سب سے بڑی داعی ہے۔

پیپلزپارٹی نے ہی تو باقی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر صوبائی خود مختاری کے لیے آئین میں ترامیم کیں۔ جب پنجاب سے مضبوط وفاق کی بات کی جاتی تھی تو جواب میں کہا جاتا کہ مضبوط وفاق نہیں مضبوط پاکستان چاہیے۔ جب مضبوط وفاق کی بات کی جاتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ مضبوط وفاق کمزور پاکستان دے رہا ہے کمزور وفاق مضبوط پاکستان دے گا۔ اسلام آباد کو صوبوں کو ان کے حقوق دینے چاہیے۔

اسلام آباد بیٹھی حکومت کو کیا پتہ کہ سندھ کی کیا ضروریات ہیں، بلوچستان کی کیا ضروریات ہیں، کے پی کی کیا ضروریات ہیں۔ اس لیے آپ اختیارات اور وسائل صوبوں کو دے دیں۔ دیکھیں صوبے کیسے ترقی کرتے ہیں۔ صوبائی حکومتیں وسائل بھی بہتر استعمال کریںگی اور ترقی بھی زیادہ ہو گی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس طرح سب کچھ جب اسلام آباد سے کنٹرول ہوتا ہے تو پنجاب کو بدنامی ملتی ہے۔ پنجاب پر سوال اٹھتے ہیں۔ جب صوبے خود مختار ہو جائیں گے تو پنجاب سے بدنامی بھی ختم ہو جائے گی۔ وفاق بھی بری الذمہ ہو جائے گا۔ پھر صوبائی خود مختاری کی آئینی ترمیم کی گئی۔ صحت تعلیم سمیت تمام بنیادی چیزیں وفاق سے لے کر صوبوں کو دے دی گئیں۔ اب صوبے این ایف سی سے اپنا حصہ لیتے ہیں اور اس رقم کو کھل کر خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔

ایسے میں مراد علی شاہ صاحب سے کوئی سوال کرے کہ اب وفاق کیسے قصور وار ہے۔ اب وفاق کی کیا ذمے داری تھی۔ آپ نے کچھ نہیں کیا یہ آپ کا قصور ہے۔ اگر کراچی میں کوڑا نہیں اٹھایا جا سکا تو یہ وفاق کی ذمے د اری نہیں تھی، سڑکیں نہیں بن سکیں تو یہ وفاق کی ذمے داری نہیں تھی، اسکول نہیں بن سکے تو اس میں وفاق کا کوئی قصور نہیں۔ شہروں کی بری حالت ہے تواس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں ہے۔ٹرانسپورٹ کے منصوبے نہیں بن سکے تو اس میں وفاق کا کیا قصور ہے؟حتیٰ کہ اب تو صوبے اپنے بجلی کے منصوبے لگانے میں بھی آزاد ہیں۔

پنجاب نے اپنے وسائل سے بجلی کے کئی بڑے منصوبے لگائے ہیں۔ یہ کام تو اب آپ نے خود کرنے تھے۔ اب آپ کا وفاق سے کوئی گلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کو گمراہ کرنے اور سیاسی ملبہ اپنے مخالفین پر ڈالنے کے لیے اب بھی وفاق کو ہی قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ بیچارہ کمزور وفاق اب بھی بدنام ہے۔


یہی صورتحال کے پی میں تحریک انصاف کی بھی ہے۔ وہ بھی اپنی کارکردگی کے سوال کو جواب دینے کی بجائے وفاق پر ذمے داری ڈال رہے ہیں۔ وہاں بھی جو کچھ نہیں ہو سکا اس کا ذمے دار کمزور وفاق ہی ہے۔ وہاں ڈینگی کا ذمے دار بھی وفاق ہے۔وہاں بھی کچھ نہ ہونے کا ذمے دار وفاق ہی ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اگر اب بھی چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کا ذمے دار وفاق ہی ہے تو یہ صوبائی خود مختاری کس مرض کی دوا تھی۔ اگر آج بھی سندھ اور بالخصوص کراچی کی غلاظت کا ذمے دار وفاق ہی ہے تو این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو پیسے کیوں دئے جاتے ہیں۔ سارے پیسے وفاق رکھ لے اور پھر اپنی مرضی سے خرچ کرے۔ سیاسی جماعتوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ عوام باشعور ہو چکے ہیں، لوگوں کو اب اس طرح بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

جس بھی صوبے میں اب کوئی کام نہیں ہوا ۔ اس کی براہ راست ذمے داری اب اس صوبے کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر سندھ میں کام نہیں ہوا تو پیپلزپارٹی کی سابق حکومت ذمے دار ہے۔ کے پی میں کام نہیں ہوا توتحریک انصاف کی سابق حکومت ذمے دار ہے۔ اور اگر پنجاب میں کوئی کام نہیں ہوا تو پنجاب کی سابق حکومت ذمے دار ہے۔

یہ بیچارا کمزور وفاق اب بری الذمہ ہے۔ اب وفاق کی صر ف اسلام آباد پر حکومت ہے۔ اسلام آباد سے باہر وفاق اجنبی ہے۔ یہ درست ہیں کہ وفاق کے پاس بنیادی طور پر خارجہ اور دفاع جیسے محکمہ ہی ہیں۔ اس میں بھی وفاقی حکومت کی کتنی چلتی ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ خارجہ امور اور دفاع میں دوستوں کی مرضی چلتی ہے۔ اس کے بعد وفاقی حکومت کے پاس پروٹوکول کے علاوہ کچھ نہیں۔ صحت چلی گئی تعلیم چلی گئی۔

پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ان کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو سامنے رکھیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنا منشور پیش کر دیا ہے۔ لیکن اس بات کا حساب بھی ہونا چاہیے کہ پچھلے پانچ سال میں پیپلزپارٹی نے اپنے منشور پر کتنا عمل کیا ہے۔سوال تحریک انصاف سے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی کے پی کی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں کتنا کام کیا ہے۔ صرف الزمات کی بنیاد پر ووٹ دینے اور لینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔

صوبائی خود مختاری کے بعد کسی کے پاس کوئی بہانہ نہیں۔ ساری صوبائی حکومتیں مکمل طور پر اپنے فنڈز خرچ کرنے میں آزاد ہیں۔ وہ سڑکیں بنائیں، پل بنائیں، اسکول بنائیں، بجلی بنائیں، میٹرو بنائیں، اسپتال بنائیں، یونیورسٹیاں بنائیں، یا کچھ نہ بنائیں، یہ ان کی مرضی ہے۔ اسلام آباد کی پوزیشن ایک تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسلام آباد اگر کسی صوبے میں کوئی منصوبہ لگاتا ہے تو یہ الگ بات ہے، نہیں لگاتا تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن اب اسلام آباد کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ہمیں اب وفاوی حکومت کے ساتھ بلیم گیم ختم کرنی چاہیے۔ اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔ اگر صوبائی خود مختاری کے بعد بھی الزام وفاقی حکومت پر ہی رہنا ہے تو اسے ختم کر دیں۔ یہ ایک گناہ بے لذت ثابت ہو رہا ہے۔
Load Next Story