بھارت اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ

کلدیپ نئیر  جمعـء 6 جولائی 2018

ایک خودسر حکمران ملک کے جمہوری نظام کو تلپٹ کر سکتا ہے اور یہی کام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک سامراجی طاقت کی شکل بھی اختیار کر رہے ہیں۔ بھارت کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور دونوں میں اچھی افہام و تفہیم بھی ہے کیونکہ دونوں ملک جمہوری ہیں۔ ایک دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت جب کہ دوسری دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر بھارت سے کہا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی اپنے ملک میں درآمد بند کر دے لیکن بھارتی حکومت نے امریکا کو جواب دیا ہے کہ بھارت نے ایران سے تیل لینے کا طویل المدت معاہدہ کر رکھا ہے جس نے کہ بھارت کو باقاعدگی کے ساتھ اور نسبتاً سستی قیمت پر تیل برآمد کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ بھارت اور ایران کی اس افہام و تفہیم میں امریکی صدر ٹرمپ کے اس اچانک فیصلے سے رخنہ اندازی ہوئی ہے۔

ٹرمپ نے امریکی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے مابین طے شدہ مذاکرات کو منسوخ کرا دیا ہے۔ اس قسم کے دباؤ سے ظاہر ہے کہ بھارتی حکومت کو ناراضی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کو یقین ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات دور کر سکتے ہیں۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے طور پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ بات کر کے مذاکرات کی تنسیخ پر افسوس کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک دونوں ملکوں کے مذاکرات کے التواء کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی۔

انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ مفاہمت کی بات کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے مذاکرات کے لیے کوئی آسان راستہ نکالنے کی تجویز پیش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا کی طرف سے رسمی طور پر کوئی معذرت نہیں کی گئی حالانکہ امریکا کی اقوام متحدہ کے لیے سفیر ھیلی نکی نے بھارتی لیڈروں کے ساتھ وسیع تر معاملات پر بات چیت بھی کی ہے۔ بھارت نے امریکا پر زور دیا کہ وہ ایران پر سے پابندیاں ختم کر دے لیکن امریکی حکام نے اس بات کو سختی سے خارج از امکان قرار دیدیا۔

البتہ امریکی وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کے حکام کی ایک ٹیم بھارت ، چین اور دیگر ممالک  کا دورہ کرے گی تا کہ امریکا کے مؤقف کی وضاحت کی جا سکے۔ کئی سال سے ایران اور بھارت تیل کی سفارتکاری کے حوالے سے آپس میں افہام و تفہیم رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔ بھارت کو ایرانی تیل کی فروخت مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتی ہے جس کے لیے ایران بھارت سے اپنی ضرورت کی اشیا درآمد کرتا ہے۔

جہاں تک ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا اس بارے میں بھارت کو ابھی تک قائل نہیں کر سکا۔ امریکا کی بڑی کوشش تھی کہ بھارت ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کر لے جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئی۔ اب امریکی صدر ٹرمپ پھر چاہتے ہیں کہ امریکا کی ناک کو اونچا رکھا جائے۔ بھارت اور ایران نے تیل اور گیس کے میدان میں دو طرفہ تعاون کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے جسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دونوں ملک اس حوالے سے آپس میں گہرا تعاون کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک دفاع کے میدان میں بھی باہمی تعاون کی کوشش کر رہے ہیں جس میں متعلقہ افسروں کو تربیت دینا اور سرکاری دوروں کا تبادلہ کرنا بھی شامل ہے۔ دفاعی معاہدہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف کیا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایران اور بھارت تجارت اور اقتصادی تعاون میں بھی ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ اس حوالے سے تیل کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے۔ بھارت ایران میں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیرمیں بھی مدد کرے گا۔

اس سلسلے میں بھارت ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو جدید شکل دینے اور ’’ چاہ بہار فاہراج بام ریلوے لنک‘‘ کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے اور ایک متفقہ مقام پر میرین آئل ٹینکنگ ٹرمینل بھی تعمیر کرے گا جب کہ ایران بھارت میں انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنے میں ہاتھ بٹائے گا۔ بھارت کو اس حوالے سے اپنے مفادات بھی مدنظر رکھنا ہوں گے کیونکہ امریکا نے ایران کی برآمدات پرجو پابندیاں عائد کی ہیں بھارت کوشش کرے گا کہ ان پابندیوں سے اس کے مفادات متاثر نہ ہوں۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں انسداد دہشتگردی کو خاص اہمیت دی گئی تھی اور امریکا نے اس حوالے سے بھارت سے بھی تعاون طلب کیا تھا۔ دونوں ملکوں میں چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی زیر بحث آیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھارت کے ساتھ قریبی دوستی اور تعاون کا وعدہ کیا اور کہا تھا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر صدر منتخب ہو گیا تو بھارت کے ساتھ حقیقی دوست کا سلوک کروں گا اور اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے اور میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں، وزیراعظم مودی کو اور باقی عوام کو ان کامیابیوں کے لیے جو آپ نے حاصل کی ہیں۔ آپ کی کامیابیاں بڑی وسیع ہیں اور مودی اور میں دونوں عالمی لیڈر ہیں۔ ماضی میں بھی امریکا کے کئی صدر بھارت کے دوست رہے ہیں جن میں جان ایف کینیڈی، بل کلنٹن اور بارک اوباما شامل ہیں۔ لیکن ان سب نے بھارت کے لیے بہت تھوڑا کام کیا اور اس کی تزویراتی تعمیر و ترقی میں ان کا زیادہ حصہ نہیں۔

ان کی زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ بھارت کے ساتھ زیادہ تعلقات کا کہیں پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات پر منفی اثر نہ پڑے اور بھارت بھی ایسا نہیں چاہتا تھا کہ اس کے باہمی تعلقات کسی تیسرے فریق کی ناراضگی کا باعث بنیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے امریکا کی سابقہ پالیسی کو ترک کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور بھارت کے ساتھ تعاون اور سفارتی تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت اور امریکا کی سیکیورٹی پارٹنر شپ بے حد اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دونوں دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

دونوں لیڈروں نے دیرپا دوستی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر صدر ٹرمپ نے اپنی بیٹی ایوان کا کو خاص طور پر بھارت کے دورے پر بھجوایا اور بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکی صدر کی دوستی کے ساتھ مکمل بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا کو نریندر مودی کی صورت میں ایک ایسا پارٹنر مل گیا ہے جو پاکستان اور چین کی پارٹنر شپ کا توڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے بھارت بھی امریکا کی دوستی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔