منزل اور رہنما

سید نور اظہر جعفری  منگل 10 جولائی 2018

نگرانوں کے بھی اکاؤنٹ نکل آئے۔ جائیدادیں بھی اور ان کے پاس اس کی ’’منی ٹریل‘‘ بھی ہوگی، کیونکہ ان کے حلف اٹھاتے وقت ’’منی ٹریل‘‘ کی ’’گرمی بازار‘‘ تھی اور سوچ سمجھ کر انھوں نے یہ ذمے داری قبول کی ہوگی وہ ہمارا موضوع نہیں ہے کیونکہ الیکشن میں ہارنے والے خود اس موضوع پر بہت کچھ کہیں گے یہ ہمارا قومی وتیرہ ہے ہر اعتبار سے اور ہر سمت سے۔

سوال یہ ہے کہ اب میڈیا خود گاڈ فادر کا سا رول ادا کر رہا ہے، ایک دن آپ کسی کو ان کی زبانی ’’سچا مسلمان‘‘ سنتے ہیں، ایک ہفتے بعد وہ (صحافتی زبان میں) کافر ٹھہرایا دیا جاتا ہے۔ ہماری صحافتی ذمے داری اب صرف ’’بریکنگ نیوز‘‘ تک رہ گئی ہے۔

کیونکہ غلط خبر دینا ’’بریکنگ نیوز‘‘ ہے اور ’’معذرت‘‘ شہادتوں کو دھوکر مٹا دینا اور یہی کہا جاتا ہے کہ تردید شایع کریں، سزا نہیں ملتی، جرمانہ سزا نہیں ہے، آج کل صرف ’’جیل‘‘ سزا ہے حالانکہ وہاں بھی ’’وی آئی پی‘‘ ہوں گے کیونکہ سب کی کشتی مفادات کے چپوؤں سے چلتی ہے مگر پھر بھی ایک ’’بریکنگ نیوز‘‘ ان کی بھی تو ہے۔

جو میر ہیوہ سب جانتے ہیں اور کوئی ایک تو میر نہیں بہت کامران ہیں اس میں اور ماہر بھی اب اگر قلم کاروں کا بھی حساب کتاب ہو جائے تو پھر بات کھری ہوگی۔ ہر ایک کو اپنے دامن کا حساب کتاب دینا چاہیے جب آپ اوروں کا حساب مانگتے ہیں روزانہ سات بجے سے آٹھ بجے تک خبر نامے سمیت یہ سلسلہ آدھی رات تک جاری رہتا ہے۔

ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اخلاقیات کا درس ہر اینکر کا اختتامی پیرا ہوتا ہے، مگر ہر ایک تو نہیں بلکہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثر شاید خود اپنے کہے پر پورے نہ اترتے ہوں۔ ہم اسلامی انصاف کی بات نہیں کرتے اس کے لیے پہلے مکمل اسلامی معاشرہ ضروری ہے مگر عدالتی یا قانونی انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے یہ ایک خیال ہے ہوسکتا ہے حقیقت بن جائے۔

اقتدار پہلے جنگوں کے ذریعے حاصل کیا جاتا تھا، ضیا الحق کی سیاسی شجر کاری کا خمیازہ اب تک قوم بھگت رہی ہے اور اس کے سیاسی پروردہ پرویز مشرف کی ’’جرأت رندانہ‘‘ کی سزا اسے دلوانا چاہتے ہیں حالانکہ ’’کھیل‘‘ بھی خود شروع کیا تھا ’’کمانڈر، کمانڈر‘‘۔

پاکستان میں سیاست کا کھیل بہت عجیب ہے اس میں دین ایمان تک لوگ لگا دیتے ہیں اور اس پر ایم کیو ایم کا ایک ناکام نعرہ صادق آتا ہے ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ اگر یہ قیام پاکستان سے پہلے لگا دیا جاتا تو برصغیر کے مسلمانوں کے حصے میں صرف قائد اعظم کا مزار آتا اور یہ سب آل انڈیا ہوتا۔

ناکام امیر المومنین (ہرچندکہ بہت کوشش کی ضیا صاحب نے) کے دور میں ایک جماعت کی گڈی چڑھ گئی۔ ایم کیو ایم سے پہلے ان کی پتنگ پرواز کرنے لگی۔ ان کے ایک صاحب کو وزیر اطلاعات بنا دیا گیا۔ وہ حیدر آباد آئے تو ریڈیو اسٹیشن بھی تشریف لائے سگار ہاتھ میں جلتا ہوا اسٹوڈیو میں دھواں بکھیرتے ہوئے بولے ’’آپ لوگوں نے اب تک بہت جھوٹ بولا ہے‘‘ ہم لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ظاہر ہے کہ تعجب ہوا۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک سینئر پروڈیوسر جو پستہ قد تھے انھوں نے باقاعدہ منہ اٹھا کر وزیر صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ’’ہم سرکاری ملازم ہیں اب آپ جو جھوٹ دیں گے وہ بولا کریں گے‘‘ یہ جواب اس قدر برجستہ تھا کہ وزیر صاحب خاموش ہوگئے یہ سینئر پروڈیوسر تھے اسرار حسین انصاری ۔ یہ حضرات جہاں بھی ہوں مولا خوش رکھے۔

بھٹو اگر انقلاب کی اس روح کو برقرار رکھتے جو تاریخ کی بدقسمتی سے رونما ہو رہا تھا تو شاید یہ ملک کچھ اور ہوتا مگر ٹیلنٹڈ کزن کی جو اصطلاح وہ شخص ایجاد کرگیا اس نے آج تک اس ملک کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ کزن اگر ٹیلنٹڈ تھا تو بعد میں بھی تو کچھ نظر آتا۔ ٹیلنٹ پوشیدہ تو نہیں رہتا، آصف زرداری کو دیکھ لیجیے۔

وزیر اعظم کے لیے New Face لانے والی جماعت کا مسئلہ بھی وہی ہے تحریر کے وقت تک کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ان کے شادیاں تو کافی لوگوں کی ’’برآمد‘‘ ہوچکی ہیں تو یہ الزام تو ختم ہوگیا۔ سیاسی شادیوں کا مسئلہ درپیش ہے اور عمران خان سیاسی سمجھوتوں کے بغیر وزیر اعظم بن نہیں سکتے اور جماعت کھڑی جن اصولوں پر کی تھی وہی اصول اب راہ کی رکاوٹ ہیں۔ بے چارہ ترین اور اسد عمر کیا کیا سنبھالیں۔

بلاول بھٹو ، زرداری کے سندھ صوبے میں تو کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ انھوں نے سیاسی طور پر چن چن کر ’’بھٹوز‘‘ کا خاتمہ کردیا ہے ان کے خیال کے مطابق کوئی ’’بھٹو‘‘ کہیں نظر نہ آئے نہ قومی نہ صوبائی مگر پتا نہیں، ہر چند کہ زرداری حقیقت پسند ہیں مگر لوگ تو یہی کہتے ہیں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ اس چکر میں بھی سندھ کا حال خاصا خراب ہے۔

’’اتحاد‘‘ بحال ہورہے ہیں، دینی بھی جیساکہ وہ کہتے ہیں دینی اتحاد جماعتوں کا یا دینی جماعتوں کا اتحاد کس لیے؟ اقتدار کے لیے پہلے جو بھی جتنا بھی ملا کیا کارکردگی رہی صفر۔ ملک میں فرقہ واریت بڑھ گئی جو دس سال کی مسلسل ضربوں سے ختم کی گئی ہے ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش کیا تب امن قائم ہوا۔ کسی دینی جماعت نے امن قائم نہیں کیا، بعض نے تو دہشت گردی کی مذمت بھی نہیں کی، یہ سوال کروڑ روپے کا ہے کہ دہشت گرد کس نے پیدا کیے۔

یہ سارا پس منظر، پیش منظر پڑھنے والوں کے سامنے دیانتدارانہ رکھا ہے۔ آپ پڑھ سکتے ہیں خوش نصیب ہیں کروڑوں نہیں پڑھ سکے۔ وہ ایک بار پھر سیاسی بلیم گیم کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔ آپ کچھ سوچیں کچھ کریں یہ آپ کا اور آپ کے بچوں کا ملک ہے۔ آپ پر ذمے داری ہے کہ لوگوں کو سچ بتائیں، انھیں ایجوکیٹ کریں کہ منزل کیا ہے۔ راہ نما کیسا ہونا چاہیے پھر آپ خدا کے حضور میری طرح کہہ سکیں گے:

جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا

اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔