پھر وطن واپسی !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 13 جولائی 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

لیں جناب !

وہ دن بھی آگیا جس کا تھا شدت سے انتظار!

کہ جس دن اداروں کی جیت ہو گی یا

چلے گا ’’فرد واحد‘‘ کا وار ! اب دیکھنا یہ ہے کہ آج جب وہ فرد واحد نواز شریف واپسی کے شیڈول کا اعلان کر چکے ہیں وہ پاکستان میں آکر کیا کردار ادا کرتے ہیں اور حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔اس وقت سب کی نظریں اسی معاملے پر لگی ہوئی ہیں۔سیاسی بحث جاری ہے کہ کیا وہ ملک میں اداروں کے ٹکراؤ کا باعث بنیں گے یا عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اپنی سزا پوری کرنے کو ترجیح دیں گے ۔

یہ تو  وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ محض نیب کے چیئرمین کا بیان پڑھ لیں ساری صورتحال واضح ہو جائے گی ’’ذاتی یا سیاسی انتقام کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتا ہوں، اربوں کی کرپشن میں ملوث لوگوں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، جن کے پاس 6 مرلے کا مکان نہیں ہوتا تھا آج ان کے دبئی میں ٹاور ہیں، کیا ان سے پوچھا نہ جائے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔نیب پر سیاسی بنیادوں پر کارروائیاں کرنے کا الزام ہے جس کو مسترد کرتاہوں، نیب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، جمہوریت کا ہر قدم عوام کی فلاح کے لیے ہوتا ہے، عوام جس کو چاہے اقتدار میں لے آئیں، نیب کا کوئی لینا دینا نہیں تاہم ہمارے ملک میں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘

چلیں اس بات کی تو خوشی ہے کہ اگر احتساب ہو رہا ہے تو علی الاعلان سب کا ہو رہا ہے اکیلے شریف خاندان کا نہیں ہو رہا ، مشرف کو بھی بلا لیا گیا ہے، چوہدریوں کے بھی چکر لگ رہے ہیں، علیم خان، بیوروکریٹس اور زرداری بھی نرغے میں آچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جائے کہ نواز شریف یا ن لیگ کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ غلط ہے۔ احتساب بلا امتیاز اور بلاتفریق ہو تومزا آتا ہے اور اسی احتساب کی تعریف کی جاتی ہے۔جس کسی نے بھی اس ملک کو نقصان پہنچایا اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جائے۔

یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ ان کے خاندان نے جنرل ضیاء الحق کی چھتر چھایہ تلے ایوان اقتدار میں قدم رکھا تو ان کے کاروبار کو بھی ترقی کے مواقع ملے۔ ساری صنعتی و مالیاتی ترقی 1980اور 1990کی دودہائیوں میں ہوئی۔ ان دو دہائیوں میں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ، دوبار وزیر اعلیٰ اور تین بار وزیر اعظم بنے۔ کیا انھوںنے پنجاب کا وزیر خزانہ بننے کے بعد خاندانی کاروبار سے علیحدگی اختیار کی؟ ان کے بچے 1993ء سے ایون فیلڈ والے فلیٹ میں مقیم ہیں وہ اُن کی ملکیت کے حوالے سے بھی کلیئر نہیں ہیں۔  حدیبیہ پیپر مل اور برطانوی بینک، التوفیق کے مالیاتی تنازع میں کیسے یہ فلیٹس بینک کی ملکیت میں چلے گئے۔ یعنی ہر طرف دھندلا پن ہے،صورتحال واضح ہونی چاہیے۔

نواز شریف دور کے اثرات ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں اوراگلی ایک دہائی تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کیوں کہ 200ارب ڈالر کی واپسی بھی اسی دس سالوں میں ادا ہونی ہے۔2013 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھاجو65سالوں میں لیا گیا جس کو سابق لیگی حکومت نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں 90 فیصد بڑھا کر 92ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔

صرف 5سالوں میں 44 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا جوکہ اب تک کا سب سے زیادہ قرضہ ہے ۔اندرونی قرضوں کی بلند ترین سطح دیکھی جائے تو نواز حکومت کے ابتدائی سال میں ملک کا اندرونی قرضہ 14138 ارب روپے تھا جو اب 25 ہزارارب روپے تک جا پہنچا ہے۔پاکستان کے بڑے سرکاری اداروں اسٹیل میل،پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو سال 2012-13  میں تقریباً 450 ارب روپے کے خسارے کا سامنا تھا جب کہ نواز حکومت نے اس کو مزید بڑھا کر 770 ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ یہ اب تک کا ملکی اداروں کا ریکارڈ توڑ خسارہ ہے ۔ 2008ء کے اختتام تک فی کس قرض 30ہزار روپے تھا جو 2013ء تک 70ہزارروپے ہو گیا اور اب یہ یہی اندرونی و بیرونی قرضوں کو ملاکر ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس پاکستانی ہو چکا ہے۔

اسی طرح آج معیشت پر دباؤ کی وجہ سے ڈالر 125روپے کا ہوگیا ہے۔ جنریٹروں سے تیار کرکے مہنگی ترین بجلی بنا کر عوام کو دھوکا دیا گیا ۔ جب سب کچھ سامنے ہے تو میری سمجھ سے یہ بات باہر ہو چکی ہے کہ اگلی مدت کے لیے یہی جماعت کس طرح عوامی خدمت کے دعوے اور وعدے کر رہی ہے ۔ آج جب ملک دیوالیہ ہورہا ہے تو کسی غلط آدمی کی حمایت کرنا حساس لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔

کچھ سیاسی افراد اپنے آپ کو نیلسن منڈیلا سمجھ بیٹھتے ہیں، انھیں خدارا یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اُس عظیم شخص نے 27سال جیل میں گزارے، منڈیلا نے 6برس قید ِ تنہائی بھی کاٹی ،رہائی کے بعد انھیں1993میں نوبل انعام ملا جب کہ 1994میں وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے، صدارت کے پہلے دن گھر سے نکلے ، معمول کے مطابق گارڈز کے بغیر کیپ ٹاؤن کی ان سٹرکوں پر جاگنگ کی ،جن سٹرکوں، فٹ پاتھوں پر لاشوں کا پڑے ہونا ایک عام بات اورجن سٹرکوں پر گھات لگائے بیٹھے دہشت گردوں کے لیے بندے مارنا کسی شغل سے کم نہیں تھا،مگر جب منڈیلا باہر نکلے تو 1994تک دنیا کا خطرناک ترین ملک جنوبی افریقہ ایک سال بعد ہی اس قابل ہوگیا کہ رگبی ورلڈ کپ ہوگیا ۔

یہ تھے نیلسن منڈیلا، یہ ہے لیڈر شپ ، ایک دھیلے کی کرپشن نہیں، کبھی اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں،اقربا پروری پاس سے نہیں گزری ، یہ منڈیلا ہی کہہ سکتا ہے کہ ’’ اگر آپ دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا،باہمت لوگ امن کے لیے کبھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے اور یہ اہم نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں اہم یہ کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا‘‘۔

صورتحال یہ کہ چالیس پچاس فیکٹریاں ملک میں، 5براعظموں میں جائیدادیں الگ ،یہ پیسے کمائے کیسے ،باہر بھجوائے کیسے اور جائیدادیں بنائیں کیسے، ایک جواب بھی نہیں ،اس پر بھی فرمایا،اب عوام اور جمہوریت کی جنگ لڑی جائے گی۔ میں کہتا ہوں کہ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے،خواہ وہ کوئی بھی ہے،اگر اس نے کرپشن کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو افراد کرپشن میں ملوث رہے وہ ہر انتخابات کے موقع پر قوم اور ملک کے ہمدرد بن کے سامنے آتے رہے اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔

خیر ترس ہی آتا ہے پاکستان پر ، کس بے دردی سے لوٹا ان سیاسی لوگوں نے ،یقین جانئے انھی لوگوں اور ان کے پجاریوں کی محنتیں کہ ملک قرضوں میں مکمل ڈوب چکا، بیروزگاری،مہنگائی عروج پر ،تمام قومی ادارے آخری سانسیں لیتے ہوئے،عالمی تنہائی ،سرحدوں پر کشیدگی، عدم برداشت نے گھر تقسیم کر دیے ،پانی ہے نہیں، آبادی آؤٹ آف کنڑول ،چاروں صوبوں میں بڑھتی دوریاں، جب کہ قوم کو لگایا ہوا اس طرف کہ سیاسی شو کتنا پاور فل ہوگا؟کون کتنی سیٹیں لے گا؟ فلاں فلاں کے ساتھ نیب کیا کرے گا؟ عدالت عظمیٰ سوموٹو کیوں نہیں لے رہی؟

رہی بات نواز شریف کی واپسی کی تو اس حوالے سے محض اتنا ہی کہوں گا کہ گیارہ برس قبل 10ستمبر 2007ء کو سب نگاہیں اسلام آباد ایئر پورٹ پر مرکوز تھیں۔سابق وزیراعظم نوازشریف برسہابرس کی جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس لوٹ رہے تھے۔جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے سورج کو گرہن لگ چکا تھا۔اگرچہ سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوہدری کو بطور چیف جسٹس بحال کرنے کا فیصلہ دے چکی تھی ،عدالتی احکامات کی روشنی میں نوازشریف کو واپس آنے سے نہیں روکا جا سکتا تھا لیکن لندن سے آنے والی پرواز کے اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کرتے ہی سیکیورٹی اہلکاروں نے کنٹرول سنبھال لیا۔

نوازشریف کے ساتھ آنے والے صحافیوں کو تتربتر کرنے کے بعد سابق وزیراعظم کو سعودی عرب جانے والے جہاز میں ڈال دیا گیا۔نوازشریف کا خیال تھا کہ ان کے چاہنے والوں کا سیلاب اُمڈ آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکاکیوں کہ انھوں نے کچھ ڈلیور نہیں کیا تھا۔اس لیے وہ شو بھی فلاپ ہو گیا تھا اورآج دیکھیں  ان  کے لیے میرے ملک میں کیا ہوتا ہے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔