بلوچستان کا انتخابی دنگل: اگلا وزیراعلیٰ کون بنے گا؟

ببرک کارمل جمالی  پير 23 جولائی 2018
 تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کو مخلوط حکومت ملے گی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کو مخلوط حکومت ملے گی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بلوچستان زمانہ قدیم سے قدرتی وسائل و ذخائر سے مالامال خطہ ہے جہاں تیل، گیس، سونا، تانبا، ریکوڈک اور دو اہم بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔ لیکن ان خزانوں نے کبھی بلوچستان میں کوئی خاص تبدیلیاں پیدا نہیں کیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آج تک ان وسائل کی رقم کہاں گئی، نہ ہم نہ ہمارے حکمران۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے 16 ہیں۔ 2013 میں صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستیں 14 تھیں جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ان کی تعداد بڑھا کر 16 کر دی گئی ہے۔ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا آغاز اب کوئٹہ کے بجائے شیرانی سے ہوگا۔ بلوچستان میں عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کےلیے سیاسی اعتبارسے کئی بھاری بھرکم شخصیات میدان میں ہوں گی۔

اس وقت بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں کےلیے مجموعی طور پر ایک ہزار 400 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کےلیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں سیاسی اور قبائلی حوالے سےکئی اہم شخصیات شامل ہیں۔

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ چھٹی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ ہے جس میں مردوں کی تعداد 64 لاکھ 83 ہزار 653، جبکہ خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار 646 ہے؛ جبکہ پورے صوبہ بلوچستان میں کچے پکے مکانات کی تعداد 17 لاکھ 75 ہزار 937 ہے۔ دیہی علاقوں میں 13لاکھ 1 ہزار 212 مکانات موجود ہیں۔ شہری علاقوں میں 4 لاکھ 74 ہزار 725 مکانات موجود ہیں۔ یہ مکانات پورے ملک میں سب سے کم صوبہ بلوچستان میں وجود رکھتے ہیں جو حیرت انگیز بات ہے۔ ادارہ شماریات نے 2017ء کی مردم شماری کے ضلع وار نتائج ایک سال پہلے جاری کردیے تھے۔ اس مردم شماری کے ہم سب پہ الیکشن میں کیا اثرات ہو ںگے، یہ نہ ہم جانتے، نہ حکمران طبقہ جانتا ہے۔ بلوچستان کو آبادی کے تناسب سے آنے والے وقتوں میں ترقیاتی منصوبے اور فنڈز دیے جائیں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

جعفرآباد میں جمالی خاندان کے مدمقابل ہمیشہ کھوسہ نے مضبوط حلیف کا کردار ادا کیا۔ کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے دست و گریبان رہنے والے دونوں بڑے قبائل جمالی و کھوسہ بمع بلیدی لہڑی اور ابڑہ ایک سیاسی چھتری تلے سابق ڈپٹی چئیرمین سینٹ میرجان محمد جمالی اور ظہور خان کھوسہ کی قیادت میں جمع ہوگئے۔ میرجان محمد جمالی پی بی 13 جعفرآباد سے بلوچستان اسمبلی کے ممبر بننے کےلیے پر امید ہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل کوئی بڑا سیاسی حریف نہیں، آزاد امیدوار اور ایم ایم اے بھی کوئی بڑا ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نہیں، جبکہ ان کی ہمشیرہ راحت بی بی پی بی 14 سے صوبائی اسمبلی کی ممبر بننے کےلیے پر امید ہیں۔ ان کے مد مقابل میر ظفراللہ خان جمالی کے بیٹے میر عمر خان کھڑے ہیں، ان دونوں کے درمیان ایک کانٹےدار مقابلہ ہوگا۔

جمالی فیملی سے تعلق رکھنے والے دو خاندانوں نے پچھلے الیکشن میں بھی کانٹے دار مقابلہ ہوا تھا جبکہ اس علاقہ سے قومی اسمبلی این اے 260 کے نشست پر انتہائی قد آور شخصیات حصہ لے رہی ہیں جن میں ظہور خان کھوسہ باپ کے ٹکٹ پر جبکہ میر چنگیز خان جمالی پیپلز پارٹی کے اور خان محمد خان جمالی پی ٹی آئی کے درمیان کانٹےدار مقابلہ کی توقع ہے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔ اس کے علاوہ گرینڈ الائنس باپ سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین اسمبلی و رہنما ظہور خان کھوسہ سے ڈبل گیم کھیلا جا رہا ہے، جمالی فیملی باپ کے بجائے اپنے جمالی فیملی کی حمایت کر رہی ہے جس کی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ جو اپنی جماعت سے مخلص نہیں وہ عوام کا بھلا کیا کریں گے؟ حتیٰ کہ عوام کو اتحاد سے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں؛ یہ لوگ دھوکہ کھائیں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی دے گا، مگر فی الوقت زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ پورا نصیرآباد ڈویژن غربت محرومی اور پسماندگی میں پس رہا ہے اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔

سرزمین بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں طویل پہاڑی سلسلوں اور ریگستان کے ساتھ ساتھ ساحلی سمندری پٹی کے علاوہ نصیرآباد واحد ڈویژن ہے جسے دریائے سندھ سے نکالے گئے کھیرتھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کے ذریعے کھیت کھلیانوں سے سرسبز و خوبصورت بنایا جا رہا ہے۔ اس ڈویژن میں جعفرآباد، نصیرآباد، جھل مگسی اور صحبت پور کے اضلاع شامل ہیں؛ یہ علاقہ بلوچستان کا گرین بیلٹ کہلاتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مٹی، گردوغبار اور کیچڑ میں دھنسے کچے پکے راستے، تباہ ہوتی صنعتیں، ایک عشرے سے ریلوے سروس کی معطلی، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی، ہسپتالوں سے محروم، برباد و ویران فصلیں، کرپشن و لوٹ مار کا جمع بازار، بدامنی، چوری ڈکیتی، بجلی و پانی کے ساتھ گیس کی عدم فراہمی، سیلاب، آر بی او ڈی تھری سم نالے کا پانچ سالہ عذاب… باقی رہی سہی کسر زرعی پانی کی دن دہاڑے چوری نے پورے علاقے کو غربت و افلاس کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔

ان سیاسی شطرنج کی بساط کے مہروں کی اکھاڑ پچھاڑ اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا بلوچستان محرومیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی، صفائی کی ناگفتہ بہ حالت، بدنظمی، لاقانونیت کے ہاتھوں غریب لوگ اور تاجر ہندو اقلیت کے کاروباری افراد خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، اوچ پاور پلانٹ سے بلا تعطل بجلی دینے کا وعدہ تاحال وفا نا ہوا۔ گرین بیلٹ کے سب سے بڑے کاروباری شہر اوستہ محمد میں ایک سو سے زائد رائس ملیں لاکھوں ٹن چاول صاف کرکے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کر رہے ہیں، مگر بجلی کے بحران نے اس صنعت کو بھی اپاہج بنا کر رکھ دیا ہے۔ اوستہ محمد میں تاج برطانیہ سے قائم ریلوے کا نظام ایک عشرے سے معطل ہے، ریل سروس بند ہونے کے بعد بااثر لینڈ مافیا نے نا صرف ریلوے کی اراضی و تنصیبات پر ہاتھ صاف کیے، بلکہ کئی کلو میٹر تک ریلوے ٹریک تک دن دہاڑے اکھاڑ کر بیچ دیا گیا، مگر ریلوے سمیت کسی ادارے نے نوٹس نہیں لیا۔ گرلز کالج بیس سالوں سے اپنی عمارت کی منتظر ہے۔

اس بار انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں بھی سیاسی جماعتوں کےلیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ کئی احباب ایک دوسرے کے مد مقابل آ چکے ہیں۔ اس حوالے سے شکایات اور اعتراضات بھی داخل کروانے کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی رکارڈ کیا ہوا ہے جن میں رئیسانی، نواب ثناء اللہ زہری، میرجان محمدجمالی اورعبدالقدوس بزنجو شامل ہیں۔ چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی مستونگ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہوں گے جبکہ ان کے مدمقابل ان کے سگے بھائی شہید سراج رئیسانی تھے، اب اس سیٹ پر الکیشن ملتوی ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ باپ کے سربراہان کہہ چکے ہیں کہ ماضی کی محرومیوں اور ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے لیے یہ اتحاد عوامی امنگوں کی ترجمانی کے لیے بنایا گیا ہے۔ دو سابق وزراء اعظم میرظفراللہ خان جمالی اور ہزار خان کھوسہ کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ و سابق وزیراعلی میرجان محمد جمالی اور کئی وزرا اعلی بلوچستان و وفاقی وزرا کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ اس علاقے کو بدقسمتی سے ان بڑے عہدوں کے باوجود محرومیوں، پسماندگی، بےروزگاری اور ذرائع مواصلات سے محروم رکھا گیا ہے۔ تقسیم ہند اور خصوصاً ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جمالی، کھوسہ، عمرانی اور مگسی قبائل سیاسی و انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرکے غریب عوام پر نصف صدی سے زائد عرصے سے حکمرانی کررہے ہیں؛ ان غریبوں نے تاج برطانیہ کے گوروں کے بعد آقاؤں کی غلامی بھی باآسانی قبول کرلی۔

بلوچستان میں الیکشن کے قریب آتے ہی سیاسی گٹھ جوڑ میں بھی موسم کی طرح گرما گرمی ہے۔ بلوچستان کے کچھ باسی بی این پی کی سیاست کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ (باپ) بلوچستان عوامی پارٹی کے حمایتی ہیں جن کا انتخابی نشان گائے ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ جس گائے کو ہندوستان والے ماں مانتے ہیں، اسی گائے کو بلوچستان کے سرداروں نے باپ کا درجہ دے دیا ہے۔ جبکہ چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری خضدارسے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سےالیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو اس بار اپنے آبائی حلقے آواران کے علاوہ کوئٹہ سے بھی امیدوار ہوں گے۔ دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کےسربراہ جام کمال اس بار قومی اسمبلی کے حلقے کی بجائے صوبائی اسمبلی کے بیلہ اوتھل کےحلقے سےامیدوار ہیں۔ اور اسی پارٹی کے بانی سمجھے جانے والے سینئر سیاستدان اور سینیٹر سعید احمد ہاشمی کوئٹہ شہر کےحلقے سے امیدوار ہوں گے، جبکہ سینئر سیاستدان سردار صالح بھوتانی بلوچستان عوامی پارٹی ہی کے امیدوار کی حیثیت سے حب دریجی کے حلقہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

الیکشن میں حصہ لینےوالی دیگر نمایاں شخصیات میں آزاد حیثیت سے ژوب سے شیخ جعفر مندوخیل، قلعہ سیف اللہ سے جمعیت علمائے اسلام ف سے تعلق رکھنےوالےسابق قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع، کچھی سے پی ٹی آئی کےصوبائی صدر سردار یار محمد رند، ہرنائی سے پشتونخواہ میپ سے تعلق رکھنےوالے سابق قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال اور قلعہ عبداللہ سے پشتونخواہ میپ ہی کے ڈاکٹرحامد اچکزئی اور نصیرآباد سے پیپلزپارٹی کے میرمحمد صادق عمرانی شامل ہیں۔ اسی طرح نواب چنگیز مری اور ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ گزین مری ایک ہی حلقہ یعنی کوہلو سے مد مقابل ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کےحلقے سے سابق صوبائی وزیرداخلہ میرسرفرازبگٹی، نواب میرعالی بگٹی اور جمہوری وطن پارٹی کےنوابزادہ گہرام بگٹی میدان میں ہوں گے۔ ان احباب کے درمیان کانٹےدار مقابلہ کی توقع کی جاتی ہے۔

بلوچستان میں 1972 سے 2018 تک وزیر اعلی کا تاج جن سروں پر چڑھایا گیا ان میں
سردار عطاء اللہ مینگل یکم مئی، 1972ء تا 13 فروری، 1973ء
نیشنل عوامی پارٹی، گورنر راج 13 فروری، 1973ء تا 27 اپریل، 1973ء
جام غلام قادر خان (پہلی مرتبہ)27 اپریل، 1973ء تا 31 دسمبر، 1974ء

پاکستان پیپلز پارٹی گورنر راج 31 دسمبر تا 1974ء 7 دسمبر، 1976ء

سردار محمد خان باروزئی7 دسمبر، 1976ء 4 اپریل، 1977ء

پاکستان پیپلز پارٹی فوجی قانون (مارشل لاء) 4 اپریل، 1977ء 6اپریل، 1985ء

جام غلام قادر خان (دوسری مرتبہ) 6اپریل، 1985ء 29 مئی، 1988ء

آزاد ظفر اللہ خان جمالی 24 جون، 1988ء 24 دسمبر، 1988ء

اسلامی جمہوری اتحاد خدا بخش مری 24 دسمبر، 1988ء 5 فروری، 1989ء

قائم مقام، منصف عدالت عالیہ بلوچستان اکبر خان بگٹی 5 فروری، 1989ء 7 اگست، 1990ء

بلوچستان نیشنل الائنس میر ہمایوں خان مری7 اگست، 1990ء 17 نومبر، 1990ء

تاج محمد جمالی (پہلی مرتبہ) 17 نومبر، 1990ء 20 مئی، 1993ء

اسلامی جمہوری اتحاد ذوالفقار علی مگسی 20 مئی، 1993ء 19 جولائی، 1993ء

آزاد محمد نصیر مینگل 19 جولائی، 1993ء 20 اکتوبر، 1993ء

آزاد، قائم مقام ذوالفقار علی مگسی (دوسری مرتبہ)20 اکتوبر، 1993ء 9 نومبر، 1996ء

آزاد ظفر اللہ جمالی (دوسری مرتبہ) 9 نومبر، 1996ء 22 فروری، 1997ء

قائم مقام اختر مینگل22 فروری، 1997ء 15 جون، 1998ء

بلوچستان نیشنل پارٹی جان محمد جمالی15 جون، 1998ء 12 اکتوبر، 1999ء

آزادگورنر راج12 اکتوبر، 1999ء یکم دسمبر، 2002ء

جام محمد یوسف یکم دسمبر، 2002ء 19 نومبر، 2007ء

پاکستان مسلم لیگ ق محمد صالح بھوتانی19 نومبر، 2007ء 8 اپریل، 2008ء

قائم مقام اسلم رئیسانی9 اپریل، 2008ء 14 جنوری 2013ء

پاکستان پیپلز پارٹی گورنر راج 14 جنوری 2013ء 13 مارچ، 2013ء

اسلم رئیسانی 13 مارچ، 2013ء 23 مارچ، 2013ء

پاکستان پیپلز پارٹی نواب غوث بخش باروزئی(نگران)23 مارچ، 2013ء 7 جون، 2013ء

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ7 جون، 2013ء 24 سمبر 2015ء

مسلم لیگ(ن) ثناء اللہ زہری25 دسمبر 2015ء تا 2018 تک، جبکہ آخری تین 3 ماہ مسلم لیگ (ق) کے عبدالقدوس بزنجو کو دیئے گئے تھے۔

اب اگلا وزیر اعلی کون بنے گا، یہ وقت بتائے گا۔ اس وقت بلوچستان کے ماہر سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ امکان ہے یہ تینوں جماعتیں پیپلز پارٹی سے مل کر صوبے کی سطح پر کوئی انتخابی اتحاد قائم کرلیں۔ اسی صوبے میں نوتشکیل شدہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھی انتخابی میدان میں سرگرم نظر آرہی ہے اور اس کی جانب سے جلسوں کے بعد صوبے کی دیگر جماعتوں کو انتخابات میں اپنی مشکلات بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ یہ جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ’’کنگز پارٹی‘‘ قرار دے کر دھاندلی کے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بلوچستان کو مخلوط حکومت ملے گی جس میں دو یا اس سے زائد جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔