پکنک ختم

ہر نگران اپنی اس عارضی نوکری کو اگلی نوکری کو پکی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

msuherwardy@gmail.com

KARACHI:
قارئین جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے انتخابی نتائج آپ کے سامنے ہونگے۔ لیکن جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں ابھی پولنگ جاری ہے اور پاکستان کے عوام حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے آج کے کالم میں انتخابی نتائج پر بات نہیں ہو سکتی۔ جب انتخابی نتائج پر بات نہیں ہو سکتی اور انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے، ایسے میں سیاسی کالم لکھا ہی نہیں جا سکتا۔

نئی حکومت کی آمد ہے اور نگران جا رہے ہیں۔ نگرانوں کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو گیا ہے۔ ویسے تو نگران جس دن آئے تھے اسی دن سے ان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا تھا۔ لیکن خدشات تھے کہ کسی نہ کسی بہانے سے ملک میں انتخابات ملتوی ہو جائیں گے اور یہ نگران پکے ہو جائیں گے۔ نام بھی ایسے تھے کہ سب کو خدشہ تھا کہ یہ پکے ہو سکتے ہیں۔ جب بھی نگران حکومت کوئی ایسا کام کرتی جو نگران حکومت کو نہیں کرنا چاہیے یہ رائے زور پکڑ جاتی کہ دیکھا یہ جانے کے لیے آئے ہی نہیں ہیں۔ انھوں نے نہیں جانا۔ لیکن انھی خدشات میں یہ نگران اب جا رہے ہیں۔ ویسے تو گزشتہ انتخابات میں بھی نگرانوں کو کوئی خاص مقام نہیں ملا تھا، اسی طرح اس بار بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

میں ذاتی طور پر نگران حکومت کے اس فارمولا کے خلاف ہوں۔ کوئی ملک بھی اس طرح کی نگران حکومت کا ایک دن کے لیے بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھیں ان نگرانوں نے کیا کر دیا ہے۔ ڈالر کی اڑان بھی نگران حکومت کا تحفہ ہے۔ اگر کوئی مستقل اور سیاسی حکومت ہوتی تو ڈالر کی ایسی اڑان اور روپے کی قدر میں اس قدر کمی ممکن ہی نہیں تھی۔ پٹرول کی قیمت میں اس قدر اضافہ ممکن نہیں تھا۔ یہ نگران غیر تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی طرح عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ یہ ایک طرح سے پکنک پر آتے ہیں اور پکنک منا کے چلے جاتے ہیں۔ نگران حکومت دراصل نظام سقے کی حکومت کی ایک نئی شکل ہے۔ یہ بس اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔

نگران حکومت کا بنیادی مقصد ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جو غیر متنازعہ ہو جس پر سب کو اعتماد ہو اور وہ ملک میں ایک غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنائیں۔ لیکن ایک سیاسی حلقے کی اپنی رائے ہے کہ یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے،یہ حلقے الزام لگا رہے ہیں کہ یہ نگران متنازعہ بن گئے ہیں، ان کے آنے سے شفاف انتخابات کے انعقاد کا مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔سیاست میں الزامات تو چلتے ہی رہتے ہیں، کیا سچ اور جھوٹ ہے اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو ہی جائے گا۔ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جس بھی جماعت کا تجویز کردہ نگران آجائے وہ اپنے تجویز کنندہ کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ آگے کی نوکری پکی کی جا سکے۔

ہر نگران اپنی اس عارضی نوکری کو اگلی نوکری کو پکی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماضی اس کا گواہ ہے۔اس لیے اغلب گمان ہے کہ اب بھی اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی اگلی نوکریاں پکی کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ جس سے نگرانی کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ صرف پنجاب ہی نہیں چاروں صوبوں اور مرکز کی نگران حکومتیں سب ہی ایسی سوچ کی حامل ہو سکتی ہیں۔ اگر ایک خوش تو ایک اعتراض کر رہا تھا۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ نگران حکومت کسی بھی طرح غیر جانبدار رہنے اور شفاف انتخابات میں کردار ادا کرنے میں مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر سکی ہے۔

پاکستان عالمی سیاست میں ایک حساس ملک ہے۔ عالمی سیاست میں پاکستان کا ایک کردار ہے۔ ہم کوئی افریقہ کا غیر معروف اور غیر اہم ملک نہیں ہیں جس سے عالمی دنیا لا تعلق رہ سکے۔ ہم کسی عارضی خارجی اور معاشی پالیسی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ کیا فضول بات ہے کہ پاکستان کی ساٹھ دن کے لیے نہ تو کوئی خارجہ پالیسی تھی اور نہ ہی کوئی معاشی پالیسی تھی۔ دنیا بھی عجیب تماشہ دیکھ رہی تھی کہ پاکستان میں کس سے بات کریں اور کس سے بات نہ کریں۔ ان ساٹھ دنوں میں پاکستان عالمی دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔


کیا دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں ایسی کسی نگران حکومت کا کوئی وجود ہے۔ کسی مہذب جمہوری ملک میں نگران حکومت کا کوئی تصور موجود ہے۔ کیا کوئی بھی ذمے دار ملک ناتجربہ کار، بے بس اور غیر فعال نگران حکومت کا متحمل ہو سکتا ہے۔ شاید کسی کا دھیان ہی نہیں کہ نگران حکومت میں پاکستان کا کتنا نقصان ہو جاتا ہے۔ مال مفت دل بے رحم کی طرح پاکستان کے نگران انجوائے کرنے آتے ہیں اور انجوائے کر کے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہے۔ پاکستان کے عوام کا جمہوریت پر اعتماد اور یقین کامل ہو گیا ہے۔ لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے۔ اب نگران کی ضرورت نہیں۔

الیکشن کے دوران تبادلوں کا جو طوفان ملک میں لایا گیا ہے وہ بھی ملک کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ یہ درست عمل نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی اتنظامیہ اور سول بیوروکریسی کی اس طرح کی اکھاڑ بچھاڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ تبادلے ایک اذیت بن گئے ہیں۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ جس طرح تبادلے کیے گئے ہیں اس نے افسران اور اہلکاران کی زندگی کس قدر اجیرن کر دی ہے۔ وہ کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔

جن افسران کو صوبہ بدر کیا گیا ہے وہ انتہائی پریشان ہیں۔ نچلی سطح کے جن افسران کو شہروں سے تبدیل کیا گیا ہے ان کی زندگی بھی مشکلات کا شکار ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ در بدر ہو گئے ہیں۔ تبادلوں کے نام پر لوگوں کو عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ ان افسران کو واپس اپنے شہروں میں آنے میں اب کتنی مشکلات ہونگی کیا کسی کو اندازہ ہے۔ میری تجویز ہے کہ الیکشن کے نام پر جتنے تبادلے کیے گئے تھے وہ خود بخود منسوخ ہوجانے چاہیے۔ جس طرح نگران حکومتیں ختم ہو گئی ہیں اسی طرح تبادلے بھی ختم ہوجانے چاہییں۔ اگر ان تبادلوں کا مقصد صرف شفاف انتخابات کا انعقاد تھا تو بس مقصد حاصل پورا ہو گیا۔ اب ان تبادلوں کو منسوخ ہونا چاہیے۔

جیسے کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ انتخابی نتائج پر آج لکھنے سے قاصر ہوں لیکن ان انتخابات نے نئی انتخابی اصلاحات کے لیے بنیاد رکھ دی ہے۔ اگر ان انتخابات میں دھاندلی کے حوالہ سے شکایات سامنے آئیں، ان پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے نئی پارلیمنٹ نئی انتخابی اصلاحات کے لیے پہلے دن سے کام شروع کرے۔ قطع نظر اس بات کے کس کی حکومت بن گئی ہے۔ تمام جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کے لیے قدم بڑھانا ہوگا۔ دھاندلی کے راستوں کو روکنا ہوگا۔ ایک عوامی حلقے کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں کچھ اداروں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناتجربہ کار نگرانوں کی وجہ سے اداروں کو اپنی حدود سے تجاوز کا موقع ملا۔ لیکن پھر بھی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے ایسی مداخلت کے راستوں کو روکا جا سکے۔ نگران حکومت کے خاتمہ کے لیے بھی قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے بغیر ملک میں جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت ابھی تک اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل کسی بھی جماعت میں شفاف نہیں تھا۔ لیکن ابھی تک کوئی بھی سیاسی جماعت اس کو شفاف بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت بھی ملک میں جمہوریت کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔

مجھے نہیں معلوم لیکن پھر بھی جس طرح ملک میں جمہوریت کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے، اسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے لیے بھی راہ ہموار کی جانی چاہیے۔ مجھے ابھی اس کے لیے کوئی ماحول سازگار نظر نہیں آرہا۔ لیکن یہ ہوگا ۔ یہ میرا ایمان ہے اس کے بغیر جمہوریت چل نہیں سکتی۔
Load Next Story