الیکشن کے بعد

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 28 جولائی 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

انتخابات میں کسی پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنا، ایک اہم قومی ذمے داری ہے پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں ووٹرکا اشرافیہ کے امیدواروں کی گرفت سے بچنا محال ہے وہیں مذہبی اور مڈل کلاس کے امیدواروں کے وعدوں اور دعوؤں کو بھی نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے نہ کبھی منشورکو اہمیت دی نہ عوام کو منشورکی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پروپیگنڈا ہی ووٹرکا گائیڈ رہتا ہے اور اسی کی بنیاد پر عموماً ووٹر اپنے ووٹ کا استعمال کرتا ہے۔

پھر ذات برادری وغیرہ جیسے تعلق کے حوالے سے ووٹر اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے اصولاً تو یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن عوام کو پارٹیوں کے منشور فراہم کرے اورگائیڈ کرے کہ ووٹر جس پارٹی کے منشورکو بہتر سمجھتا ہے اپنا ووٹ اس کے حق میں استعمال کرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم منشورکی بنیاد پر چلانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس کے برخلاف جھوٹے اور ووٹرکو ورغلانے والے انتخابی نعروں ہی پر انتخابی مہم چلائی اور کامیابی کے بعد انتخابی نعروں کو پس پشت ڈال دیا۔

اس کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ ووٹر امیدوار کے منشور ہی سے لاعلم رہتا ہے اور امیدوار اپنی روایتی لوٹ مار میں مگن ہوجاتا ہے آج ہمارا ملک اربوں کی کرپشن کے جس بحران میں مبتلا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ ووٹر منشور سے واقف ہوتا ہے نہ الیکشن کے بعد امیدوار سے منشور پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہے۔

ہمارے ملک میں بڑے بڑے جمہوری مفکرین ہیں اور جمہوریت کی نعمتوں سے عوام کو میڈیا کے ذریعے معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ عوام کو ایجوکیٹ کرنے کے لیے اخبارات میں آرٹیکل لکھنا اور الیکٹرانک میڈیا میں جمہوریت کے موضوع پر ڈیبیٹ میں شامل ہونے سے بلاشبہ عوام کی ایک چھوٹی سی اقلیت کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگہی حاصل ہوتی ہے لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اپنی مصروفیات کی وجہ سے میڈیا سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ہم نے بارہا انھی کالموں میں یہ انکشاف کیا تھا کہ منشور پر کوئی پارٹی عملدرآمد نہیں کرتی، منشور انتخابات کے دوران ایک شو پیس کا کام کرتا ہے۔

اس کوتاہی اور غیر ذمے داری سے بچاؤ اور منشور پر عملدرآمد کا ایک آسان اور بامعنی طریقہ یہ ہے کہ انتخابات جیتنے والی جماعت اپنے منشورکی ایک کاپی الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ میں جمع کرائے اور اسی میں منشور پر مرحلہ وار عملدرآمد کا ایک واضح پروگرام دے اگر برسر اقتدار جماعت اپنے وعدے کے مطابق منشور پر مرحلہ وار عملدرآمد نہ کرے تو حکمران جماعت کو منشور پر مرحلہ وار عمل کا ایک موقع دے، اگر بر سر اقتدار جماعت اس بار بھی منشور پر عملدرآمد میں ناکام رہے تو اس جماعت کو اقتدار سے الگ کرکے دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آنے والی جماعتیں منشور پر عملدرآمد پر مجبور ہوجائیں گی اور عوام کے مسائل کے حل کی ایک یقینی صورت نکل آئے گی۔

یہ تو ہم نے ایک تحریری اور آفیشلی تجویز دی ہے اس حوالے سے اصل ذمے داری عوام پر آتی ہے کہ وہ اپنے علاقے کے منتخب ممبر سے رابطے میں رہیں اور منشور پر عدم عملدرآمد پر منتخب ممبر سے جواب طلب کریں، ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں منتخب ممبر عوام کے درمیان رہتا ہے وہیں عوام کو یہ سہولتیں حاصل رہتی ہیں کہ وہ منشور پر عمل نہ ہونے پر خود متعلقہ ممبر سے پوچھیں اور اس حکمران سیاسی جماعت سے بھی اس غفلت اور لاپرواہی پر جواب طلب کریں ۔ چونکہ عوام عموماً مصروف ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا لہٰذا ہر حلقے کے اخباری اور چینلوں کے رپورٹرز کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے علاقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی رپورٹ کرے۔

اس بندوبست کے علاوہ بلدیاتی نمایندوں کی بھی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ ان کے علاقے میں حکمران جماعت کے منشور کے مطابق کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے  زیادہ ابتر صورتحال دیہی علاقوں کی ہے، دیہی علاقوں میں عموماً وڈیرے یا بڑے زمیندار انتخابات جیتتے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں ان کی حیثیت بادشاہوں کی سی ہوتی ہے لہٰذا ان علاقوں میں دیہی عوام کی یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وڈیروں وغیرہ سے منشور پر عملدرآمد کے حوالے سے جواب طلب کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوتے صرف لوٹ مار ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں 70 سالوں سے جو انتخابی نظام جاری ہے وہ اشرافیہ اور ارب پتیوں کا جنونی نظام ہے اس نظام میں الیکشن کے بعد منتخب امیدوار یا اس کی پارٹی کی کارکردگی کا کوئی جائزہ لینے والا ہے نہ کسی کو یہ ہمت ہوتی ہے کہ وہ حکمران جماعت سے اس کی کارکردگی کے بارے میں سوال کرے۔ اس ظالمانہ کلچر سے نجات حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے زرعی اصلاحات کرکے وڈیروں کی کمر توڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا عوام کو دھوکا دینے اور خود غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی بات ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام موجود ہے اور وڈیرے اور جاگیردار لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور قانون ساز اداروں میں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے زرعی اصلاحات کی کوششیں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔

اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اشرافیہ کسی پارٹی میں ہوں ،ان کے مفادات ایک اور مشترک ہوتے ہیں ۔ یہ کلچر ستر سال سے مستحکم ہے اسے اس وقت تک توڑا نہیں جاسکتا جب تک ملک میں Status Quo کو نہ توڑا جائے۔ 2018 کے الیکشن میں کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیٹس کو کو توڑا جائے۔ اشرافیہ آج کل زیر عتاب ہے لیکن وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ایک بار اگر اقتدار اس کے ہاتھوں سے نکل کر مڈل کلاس کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس کی 70 سالہ سیاسی قوت کی کمر ٹوٹ جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ کا مستقبل دھواں دھواں ہو جائے گا ،اس لیے وہ سر پیر کا زور لگا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔