چیئرمین پی سی بی کی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ باتیں

سلیم خالق  جمعـء 10 اگست 2018
میں نے انھیں یاد دلایا کہ آپ نے جن سابق کرکٹرز و ریجنل عہدیداران کو نوازا وہ اب آپ کیخلاف ہو گئے ہیں۔ فوٹو:فائل

میں نے انھیں یاد دلایا کہ آپ نے جن سابق کرکٹرز و ریجنل عہدیداران کو نوازا وہ اب آپ کیخلاف ہو گئے ہیں۔ فوٹو:فائل

’’سیٹھی صاحب سنا ہے ملک کی طرح کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی آنے والی ہے‘‘

کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل کے روم میں جب چیئرمین سے میں نے یہ جملہ کہا تو  وہ اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے، چائے کا کپ اٹھایا اور کہنے لگے ’’ میں کام کروں گا تو عزت و وقار کے ساتھ، اگر مجھے لگا کہ نئی حکومت کو میری ضرورت نہیں تو عہدہ چھوڑنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا‘‘

اس وقت وہ اچھے موڈ میں تھے، کیمرہ نہ ہی آڈیو ریکارڈر آن تھا اس لیے کھل کر باتیں کر رہے تھے، میں نے بھی جو دل میں آیا وہ پوچھ لیا،آپ کے بارے میں تو کہا جا رہا ہے کہ رکن صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہونے والی اہلیہ نے پی ٹی آئی کو اسی لیے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ شوہرکی پوزیشن بچ جائے، اس پر وہ کہنے لگے کہ ’’ ہماری فیملی کے چاروں افراد کی اپنی الگ شناخت ہے، ہم ایک دوسرے کے معاملات میں دخل نہیں دیتے، جگنو نے اگر پی ٹی آئی کی حمایت کا فیصلہ کیا تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں،گھر والے تومیرے پی سی بی میں آنے سے ویسے ہی ناخوش تھے۔

اچھا تم کو کیوں ایسا لگا کہ میں استعفیٰ دے دوں گا‘‘ یہ سوال سیٹھی صاحب نے مجھ سے کیا، میں نے ان کی اہلیہ کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بھی آپ والی بات کہی تھی کہ سیٹھی صاحب پی سی بی میں کام کریں گے تو عزت ووقار کے ساتھ،8 سے 10 دن میں فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا‘‘، اس پر وہ کہنے لگے ’’ میں نے ان سے استعفیٰ کی کوئی بات نہیں کی، شاید جگنو کو خود محسوس ہو رہا ہو گا کہ میں کوئی فیصلہ کرنے والا ہوں، کئی روز سے میں سخت ذہنی تنائو کا شکار اور پی سی بی میں بھی کام ٹھپ پڑا ہے، سب کو یہ فکر لگی ہے کہ آئندہ نجانے کیا ہوگا۔

میں بھی کچھ نہیں جانتا، مگر چاہتا ہوں کہ نئی حکومت سے کوئی اتنا ضرور بتا دے کہ مجھے پی سی بی میں رکھنا ہے یا نہیں، اگر جواب ناں میں آیا تو مجھے گھر جانے میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہوگی، بس فکر پی ایس ایل کی ہے، اس کا نجانے کیا ہوگا، مگر پھر نئے لوگ ہی اس کا سوچیں گے‘‘ ماحول زیادہ سنجیدہ ہونے پر میں نے گفتگو کا موضوع تبدیل کر دیا مگر پھر لوٹ کر اسی بات پر واپس آ گئے، اب میرا سوال تھا کہ ’’ آپ خود کشتیاں جلاتے جا رہے ہیں ، اپنے اخبار میں تیز وتند ایڈیٹوریل لکھے اور ٹویٹس بھی ایسی ہی ہوتی ہیں‘‘ اس پر نجم سیٹھی کا جواب تھا کہ ’’ یہ ہمیشہ سے میرا اسٹائل ہے، میں حالات دیکھ کر نہیں چلتا،اب کئی ٹی وی چینلز سے بھی آفرز ہیں اپنا سیاسی شو بھی جلد شروع کرنے والا ہوں۔

’’اچھا ذاکر خان کو کیا آپ عمران خان کے ڈر سے کافی عرصے سے پی سی بی میں بغیرکام دیے تنخواہ نہیں دے رہے،اب وہی آپ کی جڑیں کاٹ رہے ہیں‘‘ میری اس بات پر چیئرمین نے سنجیدگی سے جواب دیا’’ اگر میں ذاکر کو ملازمت سے نکال دیتا تو لوگ کہتے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا،انھیں او ایس ڈی میں نے نہیں شہریارخان نے بنایا تھا، ویسے تمہاری کیا رائے ہے میں عہدے پر برقرار رہوں یا چھوڑ دوں‘‘ جب سیٹھی صاحب نے یہ پوچھا تو میرا جواب یہی تھا کہ’’ آپ اگر رہے تو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، الزامات، تحقیقات یہ سب کچھ شروع ہو جائے گا، آپ نے عمران خان پر مقدمہ کیا وہ کیسے اس بات کو بھولیں گے۔

پھر انھوں نے آپ پر 35 پنکچر والا الزام لگایا اب کیسے آپ کو چیئرمین برقرار رکھیں گے، ویسے آپ نے پہلے کیوں فیصلہ نہیں کیا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، جب میں نے یہ پوچھا تو وہ کہنے لگے’’ پی ایس ایل اس وقت اہم دور سے گذر رہی ہے، غیریقینی آئی تو براڈکاسٹنگ، ٹائٹل اسپانسر شپ و دیگر مد میں اتنی رقم نہیں ملے گی جس کی پی سی بی توقع کر رہا ہے، بھارت سے کیس کا معاملہ بھی ہے، میں نہیں چاہتا کہ سب کچھ درمیان میں چھوڑ کر جائوں، ویسے تم نے اپنے کالم میں کافی باتیں لکھ تو دی ہیں، انھوں نے مسکرا کر کہا، ساتھ شکوہ بھی کیا کہ میڈیا میرا ویسا ساتھ نہیں دے رہا جیسا دینا چاہیے، اگر میں نے اچھا کام کیا تو سب کھل کر کہیں کہ تبدیل نہیں کرنا چاہیے،ویسے میں جانتا ہوں صحافت میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں آپ کسی کے خلاف لکھو تو واہ واہ ہوتی ہے، حق میں لکھو تو کہا جاتا ہے پیسے کھا لیے‘‘

میں نے انھیں یاد دلایا کہ آپ نے جن سابق کرکٹرز و ریجنل عہدیداران کو نوازا وہ اب آپ کیخلاف ہو گئے ہیں، دراصل یہ ہمارا کلچر ہے کہ ڈوبتی کشتی سے سب کود کر دوسری کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں تاکہ بدستور فوائد ملتے رہیں تو وہ کہنے لگے کہ ’’کرکٹرز نے عمران خان سے میرے خلاف کوئی بات نہیں کہی،رہی بات ریجنل آفیشلز کی تو ان میں سے صرف 4 ہی ملاقات کیلیے گئے اور 2 تو خاموش ہی رہے، آخر میری چڑیا رپورٹس تو دیتی رہتی ہے ناں‘‘ اس پر قہقہہ لگا۔

نجم سیٹھی سے بطور چیئرمین پی سی بی یہ میری دوسری ون ٹو ون ملاقات تھی، اس دوران ہم لندن، دبئی،لاہور، کراچی سمیت مختلف مقامات میں ملے مگر وہاں دیگر کئی افراد بھی موجود ہوتے تھے، پہلی ملاقات بھی بہت دلچسپ تھی جس کا میں پہلے بھی تذکرہ کر چکا، میں لاہور میں تھا ، انھوں نے لنچ پر مدعو کیا، دوران گفتگو یونس خان کے سینٹرل کنٹریکٹ تنازع پر بات شروع ہوئی، انھیں شکوہ تھا کہ چیف سلیکٹر وغیرہ نے فیصلہ کرنے کے بعد ذمہ داری قبول نہ کی اور اب سارا ملبہ ان پر آ رہا ہے، میں نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اے کیٹیگری والوں میں سابق کپتانوں کو بھی شامل کر لیں، مسئلہ حل ہو جائے گا، یہ سن کر وہ نشست سے اٹھے،فوراً سی او او سبحان احمد اور میڈیا ڈپارٹمنٹ کے بعض افراد کو بلایا اور چند منٹ میں یونس اے کیٹیگری میں آ گئے، یوں’’ گولی مار لوں‘‘ والے بیان کے بعد کا تنازع ختم ہو گیا، اب محمد حفیظ کے ساتھ بھی اسی قسم کا مسئلہ ہے مگر نجم سیٹھی کا موقف واضح ہے کہ ’’ کسی کھلاڑی کے دبائو میں آ کر سینٹرل کنٹریکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

جب میں واپس جانے لگا تو لفٹ میں یہی سوچ رہا تھا کہ شاید بطور پی سی بی نجم سیٹھی سے یہ میری آخری ملاقات تھی،پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی لاتی ہے، یہ روایت اب بھی شاید برقرار رہے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔