نعروں کی سیاست …!!

رئیس فاطمہ  بدھ 22 مئ 2013

کبھی آپ نے سوچا کہ نعروں کی سیاست نے ہمیں کیا دیا…؟ تعصب، نفرت، علاقائی سوچ، لسانی تعصب، کرپشن، اقربا پروری، موروثی جاگیردارانہ سوچ، اسٹیبلشمنٹ کا خوف اورمیوزیکل چیئرکا تحفہ، جو بڑی کامیابی سے جاری ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔ ایسی تکلیف دہ صورتحال میں کیا کسی معاشی، تجارتی، اخلاقی اور سیاسی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے؟ …میرا خیال ہے کہ… نہیں… جن قوتوں نے پاکستان دولخت کیا، جنھوں نے اجمل قصاب جیسے قاتل کو ہیرو بنایا کہ اگر ایسے لوگ نہ ہوں تو … لیکن اب یہ سب اعزاز ہے… جعلی ڈگری اعزاز ہے، کرپشن اور اقربا پروری تو اب سیاست دانوں کی میراث بن گئی ہے۔ لیکن اس اذیت ناک سچویشن میں کم از کم الیکٹرانک میڈیا نے کافی حد تک اپنا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا ہے کہ جھوٹ اور سچ دونوں کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔

میڈیا نے کھوکھلے نعروں کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے… اب نہ تو کوئی حسرت موہانی ہیں، نہ مولانا ظفر علی خان، نہ ہی مولانا ابوالکلام آزاد جیسی جید شخصیت… لیکن اپنی حدود میں رہتے ہوئے بھی میڈیا نے سچ کو عوام کے سامنے رکھا ہے… گو کہ اس میں خطرات بہت تھے اور ہیں، لیکن گھپ اندھیرے میں ایک دیا سلائی بھی بہت سے ان دیکھے گوشوں کو بے نقاب کردیتی ہے۔ اور سب چھوڑیے صرف ان چند نعروں کو دیکھیے جنھوں نے ایک عرصہ تک عوام کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ لیکن جب سچ بے نقاب ہوا تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔ پاکستان کی سیاست صرف نعروں کی سیاست ہے، عمل سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ سب سے پہلے جس نعرے نے لوگوں کو انقلاب کی نوید دی وہ تھا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ… اسی نعرے نے بھٹو کو ’’غریبوں کا لیڈر‘‘ بنادیا، جب کہ یہ صرف ایک جذباتی نعرہ تھا، بھٹو صاحب فیوڈل لارڈ تھے، ان کی پارٹی میں بھی زیادہ تر جاگیردار ہی نمایاں تھے، اس نعرے نے انھیں ووٹ بھی دلوائے لیکن بعد میں اس نعرے کی جو مٹی پلید ہوئی وہ سب نے دیکھی۔

لیکن یہی نعرہ بھٹو کے بعد اس تشریح کے ساتھ سامنے آیا… کہ روٹی کی جگہ گولی، کپڑے کی جگہ کفن اور مکان کی جگہ قبر… اس کے ساتھ ہی سوشلزم کے غبارے سے ہوا نکل گئی، الیکشن میں اس نعرے کو بلاول نے بھی دہرایا… اور میڈیا نے اس بار اس کی تشریح یوں کہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی ہمارا ہے‘‘… اس نعرے کے مقابلے میں ضیاء الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا اور لگوایا، من پسند آیات سے اجلاسوں کا افتتاح کروایا، صحافیوں پر کوڑے برسائے، دائیں بازو کی جماعتوں کو سپورٹ کیا۔  ثقہ لوگوں کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں  اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ضیاء الحق کی پالیسیوں نے پہنچایا۔

کچھ اور نعروں نے بھی لوگوں کو تقسیم کیا۔ قوم کا لفظ میں نے یوں استعمال نہیں کیا کہ قوم متحد  ہوتی ہے اور وہ نعروں سے تقسیم نہیں ہوتی، ایسا لگتاہے جیسے نعروں کی سیاست صرف برصغیر ہی کی میراث ہے، انگلستان میں مذہبی بنیادوں پر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے اختلافات ملتے ہیں، خاص کر اس وقت جب کلیسا کی سیاست زوروں پر تھی، لیکن بحیثیت قوم وہ صرف برطانوی ہیں، امریکا میں کالے گورے کی جنگ ہے، لیکن اصرار انھیں بھی اپنے امریکی ہونے پر ہے، اسی تاثر کو تقویت دینے کے لیے انھوںنے بارک اوباما کو اپنا متفقہ صدر بنالیا… صرف ووٹ کی طاقت سے۔

کیونکہ ان کے ہاں جمہوریت  بہترین انتقام نہیں بلکہ بہترین طرز حکومت ہے، جو غیر ملکیوں کو بھی جب گرین کارڈ دیتی ہے تو ان سے کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا، وہ تمام حقوق جو کسی بھی پیدائشی امریکی کو حاصل ہوتے ہیں، وہی ان تمام غیر ملکیوں کو بھی ملتے ہیں جنھیں امریکی نیشنلٹی ملتی ہے… برطانیہ میں بھی یہی اصول کار فرما ہے کہ برطانوی نیشنلٹی کے حامل افراد کو بے روزگاری، الائونس بھی ملتاہے، انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی اس سہولت سے خاص طورسے فائدہ اٹھاتے ہیں، زیادہ تر افراد کا گزارہ اسی بے روزگاری الائونس پر ہے، اس کے علاوہ امریکا اور برطانیہ دونوں جگہ سینئر سٹیزن کو علاج معالجے کی مفت سہولت مہیا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو… سینئر سٹیزن کو تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی بڑی سہولتیں حاصل ہیں، ریل، جہاز اور بسوں کے کرایوں میں خواتین کو پچاس فیصد کی سہولت ہے جب کہ مرد حضرات کو 45فیصد کی۔ جب کہ پاکستان میں کسی حکومت نے سینئر سٹیزن کے لیے کسی سہولت کا بندوبست نہیں کیا۔ کیا ریلوے، کیا ہوائی جہاز، کیا بسیں، کیا اسپتال اور ہوٹلز، کہیں بھی کوئی رعایت نہیں۔

البتہ ہم نے نعروں کی خوب پرورش کی ہے، کبھی… ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا نعرہ لگاکر، کبھی ’’بھوکے بنگالی‘‘ کی گردان کرکے۔ آج وہی بھوکے بنگالی ایک مضبوط ملک کے مالک ہیں اور ان کی کرنسی پاکستان کے مقابلے میں خاصی مستحکم ہے، گرامین بینک کی بنیاد بھی ایک بنگلہ دیشی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر یونس نے رکھی، اس بینک نے غریب عورتوں کو ایک تحفظ عطا کیا، انھیں آسان اقساط  پر قرضے فراہم کیے، جنھیں 2006 میں امن کا نوبل پرائز بھی ملا تھا…!! ہم نے کیا کیا…؟ … صرف غربت دور کرنے کے نعرے رہے، غربت کے بجائے غریب کو مٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی… کسی نے پنجابی کو جگایا، کسی نے مہاجر کو، کسی نے بلوچ ،کسی نے سندھی کو، کسی نے سرائیکی صوبہ بنوانے کا اعلان کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہے تو کسی نے پٹھان کی غیرت کو جگاکر ووٹ مانگے…!!… ایسے میں پاکستانی کہاں گیا…؟… پاکستان تو موجود ہے اور خدا اسے ہمیشہ قائم ودائم رکھے… لیکن پاکستانی کہیں کھوگیا، یا صوبوں، زبانوں اور مسلکوں کی گندی سیاست نے پاکستانی کو کھودیا… البتہ سندھی، پنجابی، مہاجر، پٹھان، سرائیکی اور بلوچ کی نشوو نما کے لیے بڑے منظم طریقے سے آبیاری بھی کی جارہی ہے۔

نعروں کے خالقوں کی اپنی سیاست اور سوچ ہوتی ہے، لیکن وہ لیڈر جو لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں وہ ان خرافات سے دور رہتے ہیں۔ خرافات نہیں بکتے۔ محمد علی جناح نے خود کو کبھی کسی مسلک سے منسلک نہیں کیا، انھوں نے خود کو ایک مضبوط، صاحب کردار اور غیر متنازعہ لیڈر کے طورپر زندہ رکھا، ایک جذباتی نعرہ وہ بھی تھا ۔ ہم پر مسلط شدہ خود ساختہ لیڈر جس چالاکی اور عیاری سے پانچ سال تک اقتدار کی کرسی سے چپکے رہے، اس کی تفصیل اگر کوئی دیانت دار تاریخ لکھنے والا بیان کرنا چاہے تو ایسے ایسے ہولناک انکشافات سامنے آئیں گے جو ناقابل یقین ہوںگے … لیکن عوام پر ان پیر تسمہ پا کو مسلط کرنے میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں، جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہلتی ہوئی کرسی کی مرمت کروائی، جب جب کرسی کا کوئی پایہ بھی ہلایا، کمزور نظر آیا، اس سے چپکے عذابوں نے منت سماجت شروع کردی… ’’مائی باپ جو چاہو کرو… بس ہمیں پانچ سال تک اس کرسی پر بیٹھا رہنے دو‘‘ … اسی لیے ڈولتی، ڈوبتی، ٹوٹی پھوٹی کرسی کو سہارا دے کر مضبوط بنایاگیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کا تاج ہمیشہ طاقت ور کے حصے میں آتاہے، یا پھر ان کے جنھیں مقتدر قوتوں کی آشیر واد حاصل ہو…اقتدار کی غلام گردشیں خون آلود ہوتی ہیں،داراشکوہ کو عوام بہت پسند کرتے تھے،اس کا مزاج صوفیانہ تھا اور ایک صوفی بزرگ اس سے ہمدردی بھی رکھتے تھے، لیکن اورنگزیب نے اپنے سر پر تاج کو قائم رکھنے کے لیے کسی  چالاکی اور ہوشیاری سے  اسے قتل کروایا… اسی اورنگزیب نے اپنے بوڑھے باپ کو بادشاہت کی خاطر آگرہ کے ثمن برج میں قید کردیاتھا۔ چھوٹے سے کمرے میں پارہ پھروا دیا تھا، تاکہ باپ کی بینائی چلی جائے، کھانے کے لیے صرف ایک اناج کا حکم۔ شاہ جہاں نے تنہائی سے گھبراکر بیٹے سے کہلوایا کہ چند طالب علم اس کے پاس بھیج دیے جائیں تاکہ وہ انھیں پڑھاسکے تو اورنگزیب نے جواب دیا کہ… بڈھے کے دماغ سے حکومت کی خو بو نہیں گئی ۔ میاں صاحب کو واقعی احساس ہے کہ وہ پاکستان کے حالات سنوار سکتے ہیں تو انھیں عوام کی پسند اور مطالبے کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ میں نے تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ … کاش! سندھ کو بھی شہباز شریف جیسا وزیراعلیٰ مل جائے تو خصوصاً کراچی کی قسمت بدل سکتی ہے، لیکن صوبوں کی سیاست نے اہل لوگوں کو کونوں کھدروں میں بٹھادیاہے اور ایسے لوگوں کو صوبائی سطح پر مسلط کیاجارہاہے۔ جن کی وفاداری  صرف ایک شخصیت سے ہو اور وہ صرف ربڑ اسٹیمپ بن کر بیٹھا رہے۔

ایسی نازک صورتحال میں جب ہر طرف اندھیرا ہے اس میں میاں شہباز شریف کا کردار اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔ میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ نہ صرف انتقامی سیاست سے اجتناب برتیں، لوگوں کو معاف کردیں بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کی قائدانہ صلاحیتوں کو ملک کی بہتری کے لیے استعمال کریں اور اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو ذمے داریاں دیں جن کا ماضی کا ریکارڈ اچھا ہو، ورنہ تو راجہ پرویز اشرف اور گیلانی کی طرح دوسرے نا اہل لوگ بھی شعیب بن عزیز کی غزل کا یہ شعر گنگناتے پائے جائیں گے، جو ایک ضرب المثل بن چکا ہے:

کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اگر سردیوں کی جگہ گرمیوں کرلیاجائے تب مطلب اور واضح ہوجاتاہے اور شعر وزن سے خارج بھی نہیں ہوتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔