صحرائے نمیب کے پُراسرار دائروں کا بھید کُھل گیا

محمد عمران  جمعرات 23 مئ 2013
 دیمک نے برسوں تک سائنس دانوں کو چکرائے رکھا۔   فوٹو : فائل

دیمک نے برسوں تک سائنس دانوں کو چکرائے رکھا۔ فوٹو : فائل

 صحرائے نمیب افریقا کے جنوبی علاقوں میں واقع دنیا کے خشک ترین صحراؤں میں سے ایک ہے۔

اس کا رقبہ 50 ہزار مربع کلو میٹر ہے اور یہ بحر اوقیانوس کے ساتھ ساتھ نمیبیا کے ساحلوں پر ایک ہزار میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا کچھ حصہ جنوب مغربی انگولا میں بھی شامل ہے۔ صحرائے نمیب کو دنیا کا قدیم ترین صحرا سمجھا جاتا ہے جو کم از کم 80 ملین سال سے موجود ہے۔

یہاں سالانہ صرف 10 ملی میٹر (0.4 انچ) بارش ہوتی ہے۔ صحرا کا بیشتر حصہ غیر آباد اور ناقابل رسائی ہے۔ اس کے چند ریت کے ٹیلوں کی بلندی 340 میٹر تک ہے اور یہ دنیا کے بلند ترین ریت کے ٹیلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ صحرائے نمیب معدنیات خصوصاً ٹنگسٹن، نمک اور ہیرے کے ذخائر کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔

جس جگہ یہ صحرا ساحل سمندر سے ملتا ہے وہ علاقہ ڈھانچوں کا ساحل (Skeleton Coast) کہلاتا ہے۔ یہ نام اسے ساحل پر دھند کے باعث چٹانوں سے تباہ ہونے والے بحری جہازوں کے ملبے اور صحرا میں بھٹک کر مرنے والے ان افراد کی نسبت سے ملا جن کی باقیات ڈھانچوں کی صورت میں یہاں سے دست یاب ہوئیں۔

صحرائے نمیب کی ایک اور وجۂ شہرت اس صحرا میں جا بہ جا نظر آنے والے گول دائرے ہیں۔ اس صحرا کا ایک وسیع علاقہ ایسا ہے جس پر گھاس اُگی ہوئی ہے، اور یہ ’ پُراسرار ‘ دائرے دراصل گھاس سے عاری چھوٹے چھوٹے قطعات ہیں جن کا قطر کئی میٹر تک ہوتا ہے۔ برسوں سے یہ دائرے سائنس دانوں کے لیے ایک معمّا بنے رہے ہیں۔

وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ گھاس سے ڈھکے میدانی علاقے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دائروں کی صورت میں گھاس غائب کیوں ہے۔ اس مظہر کی تشریح کے لیے مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے۔ کچھ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین کی تاب کاری اس کا سبب ہے۔ کچھ محققین نے شہاب ثاقب کو اس کی وجہ قرار دیا۔ کچھ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ گھاس سے عاری ان قطعات پر اُڑن طشتریاں اُترتی ہیں۔ مقامی لوگوں میں یہ داستان مشہور ہے کہ زمین کے نیچے ایک ڈریگن رہتا ہے اور اس کی آتشیں سانسیں جہاں جہاں ٹکراتی ہیں، وہاں زمین کی سطح پر سے سبزہ غائب ہوجاتا ہے۔

عشروں کے بعد بالآخر ایک جرمن پروفیسر نے ان پُراسرار دائروں کا راز دریافت کرلیا ہے۔ ہمبرگ یونی ورسٹی کے پروفیسر نوربرٹ نے چھے برس ان دائروں پر تحقیق کرنے میں گزارے۔ اس دوران انھوں نے صحرائے نمیب کے چالیس دورے کیے۔ پروفیسر کے مطابق ان دائروں کی ذمہ دار ریتیلی دیمک کی ایک قسم ہے۔ پروفیسر نے صحرا کے 1200 میل رقبے پر جا بہ جا پھیلے ہوئے سیکڑوں دائروں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس دوران ان کے علم میں یہ بات آئی کہ ایک قسم کی ریتیلی دیمک ، جسے سائنس کی زبان میں Psammotermes کہا جاتا ہے، ہر دائرے میں موجود تھی۔

پروفیسر نوربرٹ کا نظریہ یہ ہے کہ دیمک گھاس اور دیگر پودوں کی جڑیں کھاتی ہے اور پھر راستہ بناتی ہوئی زیرزمین چلی جاتی ہے۔ جڑوں سے محروم ہونے کے باعث سبزہ سوکھ جاتا ہے۔ بارش کا پانی دیمک کی بنائی ہوئی باریک باریک نالیوں کے ذریعے زیرزمین چلاجاتا ہے اور سطح زمین پر سبزہ نہ ہونے کے باعث اخراج بخارات ( transpiration) کے ذریعے ضائع نہیں ہوتا اور سطح ارض کے نیچے ہی موجود رہتا ہے۔ یہ پانی دیمک کو زندہ رکھتا ہے، اسے خشک موسم میں فعال رہنے کے قابل بناتا ہے اور دائرے کے کناروں پر اُگی ہوئی گھاس کے لیے بھی حیات بخش ثابت ہوتا ہے ۔ دیمک اسی گھاس کو اپنی خوراک بناتی ہے جس کے نتیجے میں دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ پُراسرار دائرے قدرت کی طرف سے ماحولیاتی انجنیئرنگ کی بہترین مثال ہیں، جس کے ذریعے صحرا میں قیمتی پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخائر کی وجہ سے اس علاقے میں حیاتیاتی تنوع بھی برقرار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔