اے پی سی میں پی پی پی کی شہباز شریف سے معذرت
واقف حال بتاتے ہیں کہ انھی حالات اور گو مگو کی کیفیت میں کئی گھنٹے چلنے والا اجلاس ختم ہوگیا
msuherwardy@gmail.com
ویسے تو شرم بھی ہو تی ہے اور حیا بھی لیکن کہتے ہیں سیاست میں شرم ہوتی ہے اور نہ ہی حیا۔ سیاست میں پکی دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی ۔ دوستی اور دشمنی میں وقت نہیں لگتا۔ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کو گلے لگانے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔ حالانکہ یہ وہی ایم کیو ایم تھی جس کو عمران خان برائی کی جڑ کہتے تھے۔ جن پر انھیں سب سے زیادہ ا عتراض ہی یہ تھا کہ وہ جس کی حکومت بنتے دیکھتے ہیں اس کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ اور اب قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں اسی ایم کیو ایم کو نہ صرف گلے سے لگایا گیا ہے بلکہ ایک نہیں دو وزارتیں دی گئی ہیں۔ آزاد کو سر پر بٹھا یا گیا ہے۔ دو دو سیٹوں والی جی ڈی اے کو وزارت دی گئی ہے۔سینیٹ میں تحریک انصاف اور پی پی پی کا تعاون قائم ہے۔
اپوزیشن کا بھی حال مختلف نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی میاں شہباز شریف کا نام سننے کے لیے تیار نہیں تھی،کل تک شہباز شریف کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آج شہباز شریف سے اعتزاز کا ووٹ مانگنے کے لیے تیار ہے ۔کل تک ن لیگ کے وفد سے ملنے کے لیے وقت نہیں تھا،آج پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد صدارتی انتخاب میں اعتزاز احسن کی حمائت مانگنے کے لیے وقت سے پہلے مری شہباز شریف کے پاس پہنچ گیا اورکافی دیر متحدہ مجلس عمل اور باقی مدعوین کا انتظار کرتا رہا۔کل تک جن کے لیے ایک منٹ نہیں تھا۔ آج ان کے گھر بیٹھے باقی مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے کہتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔
صدارتی انتخاب کے لیے شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والی اے پی سی کے بارے میں میں نے ایک واقف حال سے پوچھا کہ یہ بتائیں پیپلزپارٹی نے کس منہ سے شہباز شریف سے اعتزاز احسن کے لیے ووٹ مانگاہو گا۔ بات کیسے شروع ہو گی۔ نظریں کیسے ملائیں ہوںگی۔ ابھی چند دن پہلے تو دھوکہ دیا۔ وعدہ کر کے مکر گئے تھے۔ اب کیا کہا ہوگا۔ واقف حال مسکرایا اور اس نے کہا پیپلزپارٹی کو اندازہ تھا کہ دوسری طرف غصہ ہوگا۔لہذا اس بات کا جواب تو دینا پڑے گا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے وفد کے سربراہ یوسف رضا گیلانی نے بات ہی معذرت سے شروع کی۔ بس حالات ایسے ہو گئے۔ ہم معذرت خواہ ہیں۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کے وفد کے باقی ارکان نے بھی اس معذرت کو سپورٹ کیا۔ بلکہ واقف حال کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک رکن نے یہ بھی کہا کہ بس ہم شرمندہ ہیں۔ لیکن اب آگے مل کر چلنے کی کوئی راہ نکالنی ہوگی۔
اتنی زیادہ معذرت ن لیگ کے لیے سرپرائز تھا۔ ن لیگ کو تو خیال تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی کوئی سیاسی منطق پیش کرے گی ، پہلے اس پر بات ہوگی پھر باقی ایجنڈے پر بات ہوگی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی کھلی معذرت نے ماحول ہی بدل دیا۔ شہباز شریف میزبان تھے۔ نواز شریف کا گھر تھا۔ اس کے بعد مزید بات کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے واقف حال یہی بتاتا ہے کہ ن لیگ والے پھر خاموش ہی رہے۔ ن لیگ سے زیادہ ن لیگ کا مقدمہ متحدہ مجلس عمل اور باقی جماعتوں نے لڑا۔
جہاں تک اعتزاز احسن کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اعتزاز احسن نہ گیم میں ان ہیں اور نہ ہی گیم سے آؤٹ ہیں۔ ان کے بارے میں تو خود پیپلزپارٹی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ گیم میں ہیں بھی کہ نہیں۔ جب متحدہ مجلس عمل کے طرف سے مولانا ٖفضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر آپ کو ہماری حمائت چاہیے تھے تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ آپ اعتزاز احسن کے نام کا اعلان کرنے کے بجائے اس اجلاس میں نام پیش کرتے۔ اور یہاں سے اپوزیشن کے مشترکہ صدارتی امیدوار کا اعلان ہوتا۔چاہے اعتزاز احسن کا ہی اعلان کیا جاتا۔ اس کا بھی پیپلزپارٹی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
میرے خیال میں پیپلزپارٹی دو کشتیوں کی سوار ہے۔ ایک طرف وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف وہ اپنا اپوزیشن کا تاثر بھی نہیں ختم کرنا چاہتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال سینیٹ ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اتحاد میں ہیں۔ چیئرمین سینیٹ سنجرانی پی پی پی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔ڈپٹی چیئرمین پر تحریک انصاف نے پی پی پی کے مانڈوی والا کو ووٹ ڈالا تھا۔ دونوں جماعتوں کا یہ تعاون آج بھی قائم ہے۔
اسی لیے جب پیپلزپارٹی سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر انھیں صدارتی انتخاب میں ووٹ چاہیے تو سینیٹ میں سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے میں تعاون چاہیے۔ تو پیپلزپارٹی کہتی یہ ممکن نہیں۔ ہم انھیں لائے ہیں اب ان سے ایک معاہدہ ہے۔ وہ نہیں توڑا جا سکتا۔ لیکن ساتھ ساتھ دبے دبے الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر شیری رحمٰن کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف برقرار رہنے دیا جائے تو اپوزیشن مضبوط ہوگی۔ جس کے جواب میں ن لیگ نے کہا کہ آپ قائد حزب اختلاف رہنے پر کیوں بضد ہیں۔ آپ شیری رحمٰن کو چیئرمین سینیٹ لے آئیں۔ ووٹ بھی پورے ہیں۔ ہم غیر مشروط ووٹ دیتے ہیں۔ اپوزیشن تو تب مضبوط ہو گی جب چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کا ہوگا۔ قائد حزب اختلاف ہونے سے مضبوط نہیں ہوگی۔ لیکن پی پی پی قائد حزب اختلاف رہنے پر بضد تھی۔
اسی طرح متحدہ مجلس عمل کی خواہش تھی کہ کم از کم یہ معاہدہ ہو جائے کہ اگلے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں انتخاب نہیں لڑنا چاہیے۔ اس لیے جہاں جس جماعت کا امیدوار دوسرے نمبر پر ہے اسی کو سیٹ دے دی جائے۔ متحدہ مجلس عمل کا تو یہ بھی موقف تھا کہ یہ بات اپوزیشن جماعتوں کے پہلے اجلاس میں طے ہوگئی تھی۔ اوراس کا باقاعدہ اعلان بھی ہو گیا تھا۔لیکن پی پی پی کا موقف تھا کہ یہ تب بھی تجویز تھی اب بھی تجویز ہے۔ ابھی اس پر غور جاری ہے۔ آیندہ اجلاس میں طے کر لیں گے۔
بہر حال واقف حال بتاتے ہیں کہ انھی حالات اور گو مگو کی کیفیت میں کئی گھنٹے چلنے والا اجلاس ختم ہوگیا۔ میں نے بہت پوچھا کہ ہاں یا ناں میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ واقف حال کا کہنا تھا کہ تم نے مشترکہ اعلامیہ نہیں پڑھا۔ میں نے کہا پڑھا۔ اس نے کہا غور سے پڑھو۔ میں نے کہا لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی نے وقت مانگا ہے۔ اس نے کہا اسی میں ساری کہانی ہے۔ کئی گھنٹے چلنے والے اجلاس میں پیپلزپارٹی کا وفد جس میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور شیری رحمٰن شامل تھیں آصف زرداری سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اجلاس کے دوران کھانے کا وقفہ لمبا بھی کیا گیا کہ پی پی پی آصف زرداری سے اجلاس کی روشنی میں ہدایات لے لے۔ لیکن کئی گھنٹے کی جدو جہد کے بعد بھی پی پی پی کے وفد کا ایک ہی جواب تھا کہ رابطہ قائم نہیں ہو رہا۔ شائد رابطہ قائم نہ کرنا بھی طے تھا۔ پی پی پی کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اور اس طرح پی پی پی نے وقت مانگ لیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل کو سمجھ آگئی ہے کہ پی پی پی کیا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے اپوزیشن کو الجھائے رکھے۔ اس لیے کم از کم صدارتی انتخاب میں اعتزاز احسن کی حمائت کا یک طرفہ اعلان کر دیا جائے،کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کوئی قیامت نہیں آجائے گی ورنہ اپوزیشن کے اس اتحاد کا ڈھونگ ختم کیا جائے۔ ن لیگ ایسی دو عملی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ کو مل کر اپنی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ پی پی پی کا قصہ ختم کر دینا چاہیے۔
اپوزیشن کا بھی حال مختلف نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی میاں شہباز شریف کا نام سننے کے لیے تیار نہیں تھی،کل تک شہباز شریف کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آج شہباز شریف سے اعتزاز کا ووٹ مانگنے کے لیے تیار ہے ۔کل تک ن لیگ کے وفد سے ملنے کے لیے وقت نہیں تھا،آج پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد صدارتی انتخاب میں اعتزاز احسن کی حمائت مانگنے کے لیے وقت سے پہلے مری شہباز شریف کے پاس پہنچ گیا اورکافی دیر متحدہ مجلس عمل اور باقی مدعوین کا انتظار کرتا رہا۔کل تک جن کے لیے ایک منٹ نہیں تھا۔ آج ان کے گھر بیٹھے باقی مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے کہتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔
صدارتی انتخاب کے لیے شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والی اے پی سی کے بارے میں میں نے ایک واقف حال سے پوچھا کہ یہ بتائیں پیپلزپارٹی نے کس منہ سے شہباز شریف سے اعتزاز احسن کے لیے ووٹ مانگاہو گا۔ بات کیسے شروع ہو گی۔ نظریں کیسے ملائیں ہوںگی۔ ابھی چند دن پہلے تو دھوکہ دیا۔ وعدہ کر کے مکر گئے تھے۔ اب کیا کہا ہوگا۔ واقف حال مسکرایا اور اس نے کہا پیپلزپارٹی کو اندازہ تھا کہ دوسری طرف غصہ ہوگا۔لہذا اس بات کا جواب تو دینا پڑے گا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے وفد کے سربراہ یوسف رضا گیلانی نے بات ہی معذرت سے شروع کی۔ بس حالات ایسے ہو گئے۔ ہم معذرت خواہ ہیں۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کے وفد کے باقی ارکان نے بھی اس معذرت کو سپورٹ کیا۔ بلکہ واقف حال کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک رکن نے یہ بھی کہا کہ بس ہم شرمندہ ہیں۔ لیکن اب آگے مل کر چلنے کی کوئی راہ نکالنی ہوگی۔
اتنی زیادہ معذرت ن لیگ کے لیے سرپرائز تھا۔ ن لیگ کو تو خیال تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی کوئی سیاسی منطق پیش کرے گی ، پہلے اس پر بات ہوگی پھر باقی ایجنڈے پر بات ہوگی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی کھلی معذرت نے ماحول ہی بدل دیا۔ شہباز شریف میزبان تھے۔ نواز شریف کا گھر تھا۔ اس کے بعد مزید بات کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے واقف حال یہی بتاتا ہے کہ ن لیگ والے پھر خاموش ہی رہے۔ ن لیگ سے زیادہ ن لیگ کا مقدمہ متحدہ مجلس عمل اور باقی جماعتوں نے لڑا۔
جہاں تک اعتزاز احسن کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اعتزاز احسن نہ گیم میں ان ہیں اور نہ ہی گیم سے آؤٹ ہیں۔ ان کے بارے میں تو خود پیپلزپارٹی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ گیم میں ہیں بھی کہ نہیں۔ جب متحدہ مجلس عمل کے طرف سے مولانا ٖفضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر آپ کو ہماری حمائت چاہیے تھے تو کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ آپ اعتزاز احسن کے نام کا اعلان کرنے کے بجائے اس اجلاس میں نام پیش کرتے۔ اور یہاں سے اپوزیشن کے مشترکہ صدارتی امیدوار کا اعلان ہوتا۔چاہے اعتزاز احسن کا ہی اعلان کیا جاتا۔ اس کا بھی پیپلزپارٹی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
میرے خیال میں پیپلزپارٹی دو کشتیوں کی سوار ہے۔ ایک طرف وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف وہ اپنا اپوزیشن کا تاثر بھی نہیں ختم کرنا چاہتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال سینیٹ ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اتحاد میں ہیں۔ چیئرمین سینیٹ سنجرانی پی پی پی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔ڈپٹی چیئرمین پر تحریک انصاف نے پی پی پی کے مانڈوی والا کو ووٹ ڈالا تھا۔ دونوں جماعتوں کا یہ تعاون آج بھی قائم ہے۔
اسی لیے جب پیپلزپارٹی سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر انھیں صدارتی انتخاب میں ووٹ چاہیے تو سینیٹ میں سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے میں تعاون چاہیے۔ تو پیپلزپارٹی کہتی یہ ممکن نہیں۔ ہم انھیں لائے ہیں اب ان سے ایک معاہدہ ہے۔ وہ نہیں توڑا جا سکتا۔ لیکن ساتھ ساتھ دبے دبے الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر شیری رحمٰن کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف برقرار رہنے دیا جائے تو اپوزیشن مضبوط ہوگی۔ جس کے جواب میں ن لیگ نے کہا کہ آپ قائد حزب اختلاف رہنے پر کیوں بضد ہیں۔ آپ شیری رحمٰن کو چیئرمین سینیٹ لے آئیں۔ ووٹ بھی پورے ہیں۔ ہم غیر مشروط ووٹ دیتے ہیں۔ اپوزیشن تو تب مضبوط ہو گی جب چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کا ہوگا۔ قائد حزب اختلاف ہونے سے مضبوط نہیں ہوگی۔ لیکن پی پی پی قائد حزب اختلاف رہنے پر بضد تھی۔
اسی طرح متحدہ مجلس عمل کی خواہش تھی کہ کم از کم یہ معاہدہ ہو جائے کہ اگلے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں انتخاب نہیں لڑنا چاہیے۔ اس لیے جہاں جس جماعت کا امیدوار دوسرے نمبر پر ہے اسی کو سیٹ دے دی جائے۔ متحدہ مجلس عمل کا تو یہ بھی موقف تھا کہ یہ بات اپوزیشن جماعتوں کے پہلے اجلاس میں طے ہوگئی تھی۔ اوراس کا باقاعدہ اعلان بھی ہو گیا تھا۔لیکن پی پی پی کا موقف تھا کہ یہ تب بھی تجویز تھی اب بھی تجویز ہے۔ ابھی اس پر غور جاری ہے۔ آیندہ اجلاس میں طے کر لیں گے۔
بہر حال واقف حال بتاتے ہیں کہ انھی حالات اور گو مگو کی کیفیت میں کئی گھنٹے چلنے والا اجلاس ختم ہوگیا۔ میں نے بہت پوچھا کہ ہاں یا ناں میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہوا۔ واقف حال کا کہنا تھا کہ تم نے مشترکہ اعلامیہ نہیں پڑھا۔ میں نے کہا پڑھا۔ اس نے کہا غور سے پڑھو۔ میں نے کہا لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی نے وقت مانگا ہے۔ اس نے کہا اسی میں ساری کہانی ہے۔ کئی گھنٹے چلنے والے اجلاس میں پیپلزپارٹی کا وفد جس میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور شیری رحمٰن شامل تھیں آصف زرداری سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اجلاس کے دوران کھانے کا وقفہ لمبا بھی کیا گیا کہ پی پی پی آصف زرداری سے اجلاس کی روشنی میں ہدایات لے لے۔ لیکن کئی گھنٹے کی جدو جہد کے بعد بھی پی پی پی کے وفد کا ایک ہی جواب تھا کہ رابطہ قائم نہیں ہو رہا۔ شائد رابطہ قائم نہ کرنا بھی طے تھا۔ پی پی پی کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اور اس طرح پی پی پی نے وقت مانگ لیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل کو سمجھ آگئی ہے کہ پی پی پی کیا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے اپوزیشن کو الجھائے رکھے۔ اس لیے کم از کم صدارتی انتخاب میں اعتزاز احسن کی حمائت کا یک طرفہ اعلان کر دیا جائے،کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کوئی قیامت نہیں آجائے گی ورنہ اپوزیشن کے اس اتحاد کا ڈھونگ ختم کیا جائے۔ ن لیگ ایسی دو عملی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ کو مل کر اپنی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ پی پی پی کا قصہ ختم کر دینا چاہیے۔