نئی حکومت اور سول ملٹری ڈاکٹرائن
عمراں خان اور ان کی حکومت کی عوامی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اناڑیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
msuherwardy@gmail.com
کسی کو امید نہیں تھی کہ یہ حکومت دس دن میں ہی اس قدر پھنس جائے گی۔ لیکن عمران خان اپنی ہی کہی ہوئی باتوں میں پھنس گئے ہیں۔ انھیں کسی اپوزیشن جماعت نے نہیں پھنسایا۔ بلکہ انھیں ابھی تک نہایت فرینڈلی اپوزیشن کا سامنا ہے۔ ن لیگ مکمل خاموش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی میں احتجاج کے بعد کسی نے ن لیگ کی زبان بندی کر دی ہے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی تحریک انصاف کی بی ٹیم بن چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بہت کمزور ہیں ۔ وہ اکیلے عمران خان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔ انھیں بہر حال دونوں میں سے ایک بڑی جماعت کی حمایت کی ضرورت ہے جو ابھی تک انھیں حاصل نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ خود ہی اپنے جال میں پھنس گئے۔
عمراں خان اور ان کی حکومت کی عوامی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اناڑیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ لوگ حکومت کے جانے کی تاریخیں دینے لگ گئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تو چھ ماہ نہیں چلیں گے۔ کسی کے خیال میں ایک سال نکال لیں گے۔ جو بہت حامی ہے وہ دو سال کا وقت دے رہا ہے۔ اب تو شاید ہی کوئی ہو جسے یہ امید ہو کہ کوئی تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی کے غبارے سے دس دن میں ہی ہوا نکل گئی ہے۔ لو گ کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں ناتجربہ کار ٹیم لگائی گئی ہے۔ لیکن مرکزی حکومت نے تو پنجاب سے بھی زیادہ بری پرفارمنس دی ہے۔
بہر حال ایسے میں جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کی بریفنگ نے عمران خان کی حکومت کو سیاسی طور پر بھی سہارا دیا ہے۔ شاید اداروں کو سمجھ آگئی ہے کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو یہ گر جائیں گے۔ اسی لیے پہلے چیئرمین نیب نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔ حالانکہ اس ملاقات کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس ملاقات کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ وہ تو ابھی اپوزیشن کی زبان بندی ہے۔ اس لیے ایشو نہیں بنا ورنہ طوفان مچ جانا چاہیے تھا۔ کسی نہ کسی طرح عمران خان نیب میں زیر تفتیش ہیں۔
ایسے میں چیئرمین نیب ان سے کیسے ملاقات کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جی ایچ کیو میں عمران خان اور ان کے وزراء کو آٹھ گھنٹے بریفنگ پر میرے کچھ دوست بہت چہک رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔ فوج نے سول بالادستی قبول کر لی ہے۔ مجھے تو فواد چوہدری کے بیانات بھی حیران کن لگ رہے ہیں۔ بہر حال ایک دوست نے مذاق میں مجھے کہا تمھیں پتہ ہے کہ جی ایچ کیو میں بریفنگ آٹھ گھنٹے کیوں جاری رہی۔ میں نے کہا کیوں جاری رہی مجھے کیا پتہ۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا جو بات باقی وزرا ء اعظم کو دو گھنٹے میں سمجھ آجاتی تھی عمران خان کی ٹیم کو سمجھنے میں آٹھ گھنٹے لگ گئے۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر جی ایچ کیو کی بریفنگ نے اس حکومت کے لیے آکسیجن کا کام کیا ہے۔
لیکن ایک حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن میں سول ملٹری تعلقات کو بہتر رکھنا شامل ہے۔ یہ تو عمران خان کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے شاہد خاقان عباسی کی حکومت سے بھی جنرل باجوہ اور جی ایچ کیو کا تعاون مثالی تھا۔ حالانکہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ن لیگ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ مجھے کیوں نکالا کی گونج تھی۔ شاہد خاقان عباسی روز کہتے تھے کہ نواز شریف میرے وزیر اعظم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جی ایچ کیو اور شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے درمیان تعلقات مثالی اور بہترین تھے۔ سب کہتے تھے کہ شاہد خاقان اوپر سے کہتے تھے کہ نواز شریف ان کے وزیر اعظم ہیں اور اندر سے فوج کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جنرل باجوہ کی جانب سے اس ماحول میں جب سول ملٹری ریلیشن میں تناؤ کی باتیں عام تھیں۔ سینیٹ میں ارکان سینیٹ کو بریفنگ دی گئی۔ تمام سوالات کے جواب دیے گئے ۔ حالانکہ اس موقع پر ن لیگ کے محاذ آرائی کے حامی سینٹرز کی جانب سے ایسے سوالات بھی کیے گئے جو نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ نے تمام سوالات کے تفصیلی جواب دیے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ان کیمرہ بریفنگ ان کیمرہ نہ رہ سکی۔ اور سینیٹرز نے خود ہی اپنے سوالات اور جواب میڈیا کو بتا دیے جو پارلیمانی روایات کے منافی تھا۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کے دور میں ہی نہیں بلکہ نواز شریف کے دور میں بھی جب پاناما کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا تھا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگز باقاعدگی سے ہوتی رہیں۔
جنرل باجوہ نے کسی بھی موقع پر ایسا کوئی ماحول بننے نہیں دیا کہ لگے کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی ڈیڈ لاک موجود ہے۔ ایسا جنرل باجوہ سے پہلے جنرل راحیل شریف کے دور میں ہوتا رہتا تھا۔ لیکن جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن میں سول ملٹری تعلقات کو انتہائی نامناسب حالات میں بھی بہتر رکھنا شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنرل باجوہ مستقل طور پر سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ ان کی ڈاکٹرائن کا بنیادی نقطہ ہے۔ اس سے پہلے پاک فوج وزرا ء اعظم اور حکومت کو ایوان وزیر اعظم میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بریفنگ دیتی تھی۔ لیکن اس بار جی ایچ کیو میں بریفنگ دی گئی ہے۔
ایسی بھی روایات موجود ہیں کہ ملک میں بڑے فیصلوں کے لیے پاک فوج اور سیاسی قیادت اکٹھی مل بیٹھی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کا پاک فوج کی قیادت کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے کی شاندار روایات بھی موجود ہیں۔ ان میں نیشنل ایکشن پلان کے فیصلے، ملٹری کورٹس کے قیام کے فیصلے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے فیصلے بھی شامل ہیں۔
بہر حال پاکستان اس وقت عالمی سطح پر بہت سے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات بہت تناؤ کا شکار ہیں۔ معاشی بحران بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ چین بھی خوش نہیں ہے۔ پھر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ٹیلی فون کال کے معاملہ کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا ہے وہ بھی درست نہیں تھا۔ اب امریکی اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان آرہا ہے۔ ایسے میں اس نئی حکومت کو بریفنگ دینا بہت ضروری تھی۔ یہ ایک نئی حکومت ، نا تجربہ کار حکومت ہے۔ یہ سفارتی معاملات کو سیاسی معاملات کی طرح ہی لے کر چل رہے ہیں جب کہ سفارتی آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے ضروری تھا کہ حکومت کو تفصیلی بریفنگ دی جاتی۔
یہ بات ماننا ہوگا کہ جنرل باجوہ فوج میں نئی روایت قائم کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ ایک سال مکمل ہونے پر سینیٹ کو دوبارہ بریفنگ دیں گے۔ وہ سینیٹ میں دوبارہ سوالات کے جواب دیںگے۔ اگر حکومت کو بریفنگ دی گئی ہے تو یہ بھی اچھا ہو گاکہ حزب اختلاف کو بھی بریفنگ دی جائے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حزب اختلاف اور پاک فوج کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ کوبھی بہت بہتر کیا جائے۔ یہ بھی ملکی مفاد میں ضروری ہے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی تحریک انصاف کی بی ٹیم بن چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بہت کمزور ہیں ۔ وہ اکیلے عمران خان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔ انھیں بہر حال دونوں میں سے ایک بڑی جماعت کی حمایت کی ضرورت ہے جو ابھی تک انھیں حاصل نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ خود ہی اپنے جال میں پھنس گئے۔
عمراں خان اور ان کی حکومت کی عوامی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اناڑیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ لوگ حکومت کے جانے کی تاریخیں دینے لگ گئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تو چھ ماہ نہیں چلیں گے۔ کسی کے خیال میں ایک سال نکال لیں گے۔ جو بہت حامی ہے وہ دو سال کا وقت دے رہا ہے۔ اب تو شاید ہی کوئی ہو جسے یہ امید ہو کہ کوئی تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی کے غبارے سے دس دن میں ہی ہوا نکل گئی ہے۔ لو گ کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں ناتجربہ کار ٹیم لگائی گئی ہے۔ لیکن مرکزی حکومت نے تو پنجاب سے بھی زیادہ بری پرفارمنس دی ہے۔
بہر حال ایسے میں جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کی بریفنگ نے عمران خان کی حکومت کو سیاسی طور پر بھی سہارا دیا ہے۔ شاید اداروں کو سمجھ آگئی ہے کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو یہ گر جائیں گے۔ اسی لیے پہلے چیئرمین نیب نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ۔ حالانکہ اس ملاقات کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس ملاقات کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ وہ تو ابھی اپوزیشن کی زبان بندی ہے۔ اس لیے ایشو نہیں بنا ورنہ طوفان مچ جانا چاہیے تھا۔ کسی نہ کسی طرح عمران خان نیب میں زیر تفتیش ہیں۔
ایسے میں چیئرمین نیب ان سے کیسے ملاقات کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جی ایچ کیو میں عمران خان اور ان کے وزراء کو آٹھ گھنٹے بریفنگ پر میرے کچھ دوست بہت چہک رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔ فوج نے سول بالادستی قبول کر لی ہے۔ مجھے تو فواد چوہدری کے بیانات بھی حیران کن لگ رہے ہیں۔ بہر حال ایک دوست نے مذاق میں مجھے کہا تمھیں پتہ ہے کہ جی ایچ کیو میں بریفنگ آٹھ گھنٹے کیوں جاری رہی۔ میں نے کہا کیوں جاری رہی مجھے کیا پتہ۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا جو بات باقی وزرا ء اعظم کو دو گھنٹے میں سمجھ آجاتی تھی عمران خان کی ٹیم کو سمجھنے میں آٹھ گھنٹے لگ گئے۔ بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر جی ایچ کیو کی بریفنگ نے اس حکومت کے لیے آکسیجن کا کام کیا ہے۔
لیکن ایک حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن میں سول ملٹری تعلقات کو بہتر رکھنا شامل ہے۔ یہ تو عمران خان کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے شاہد خاقان عباسی کی حکومت سے بھی جنرل باجوہ اور جی ایچ کیو کا تعاون مثالی تھا۔ حالانکہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ن لیگ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ مجھے کیوں نکالا کی گونج تھی۔ شاہد خاقان عباسی روز کہتے تھے کہ نواز شریف میرے وزیر اعظم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جی ایچ کیو اور شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے درمیان تعلقات مثالی اور بہترین تھے۔ سب کہتے تھے کہ شاہد خاقان اوپر سے کہتے تھے کہ نواز شریف ان کے وزیر اعظم ہیں اور اندر سے فوج کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جنرل باجوہ کی جانب سے اس ماحول میں جب سول ملٹری ریلیشن میں تناؤ کی باتیں عام تھیں۔ سینیٹ میں ارکان سینیٹ کو بریفنگ دی گئی۔ تمام سوالات کے جواب دیے گئے ۔ حالانکہ اس موقع پر ن لیگ کے محاذ آرائی کے حامی سینٹرز کی جانب سے ایسے سوالات بھی کیے گئے جو نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ نے تمام سوالات کے تفصیلی جواب دیے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ان کیمرہ بریفنگ ان کیمرہ نہ رہ سکی۔ اور سینیٹرز نے خود ہی اپنے سوالات اور جواب میڈیا کو بتا دیے جو پارلیمانی روایات کے منافی تھا۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کے دور میں ہی نہیں بلکہ نواز شریف کے دور میں بھی جب پاناما کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا تھا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگز باقاعدگی سے ہوتی رہیں۔
جنرل باجوہ نے کسی بھی موقع پر ایسا کوئی ماحول بننے نہیں دیا کہ لگے کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی ڈیڈ لاک موجود ہے۔ ایسا جنرل باجوہ سے پہلے جنرل راحیل شریف کے دور میں ہوتا رہتا تھا۔ لیکن جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن میں سول ملٹری تعلقات کو انتہائی نامناسب حالات میں بھی بہتر رکھنا شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنرل باجوہ مستقل طور پر سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ ان کی ڈاکٹرائن کا بنیادی نقطہ ہے۔ اس سے پہلے پاک فوج وزرا ء اعظم اور حکومت کو ایوان وزیر اعظم میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بریفنگ دیتی تھی۔ لیکن اس بار جی ایچ کیو میں بریفنگ دی گئی ہے۔
ایسی بھی روایات موجود ہیں کہ ملک میں بڑے فیصلوں کے لیے پاک فوج اور سیاسی قیادت اکٹھی مل بیٹھی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کا پاک فوج کی قیادت کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے کی شاندار روایات بھی موجود ہیں۔ ان میں نیشنل ایکشن پلان کے فیصلے، ملٹری کورٹس کے قیام کے فیصلے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے فیصلے بھی شامل ہیں۔
بہر حال پاکستان اس وقت عالمی سطح پر بہت سے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات بہت تناؤ کا شکار ہیں۔ معاشی بحران بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ چین بھی خوش نہیں ہے۔ پھر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ٹیلی فون کال کے معاملہ کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا ہے وہ بھی درست نہیں تھا۔ اب امریکی اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان آرہا ہے۔ ایسے میں اس نئی حکومت کو بریفنگ دینا بہت ضروری تھی۔ یہ ایک نئی حکومت ، نا تجربہ کار حکومت ہے۔ یہ سفارتی معاملات کو سیاسی معاملات کی طرح ہی لے کر چل رہے ہیں جب کہ سفارتی آداب اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اس لیے ضروری تھا کہ حکومت کو تفصیلی بریفنگ دی جاتی۔
یہ بات ماننا ہوگا کہ جنرل باجوہ فوج میں نئی روایت قائم کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ ایک سال مکمل ہونے پر سینیٹ کو دوبارہ بریفنگ دیں گے۔ وہ سینیٹ میں دوبارہ سوالات کے جواب دیںگے۔ اگر حکومت کو بریفنگ دی گئی ہے تو یہ بھی اچھا ہو گاکہ حزب اختلاف کو بھی بریفنگ دی جائے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حزب اختلاف اور پاک فوج کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ کوبھی بہت بہتر کیا جائے۔ یہ بھی ملکی مفاد میں ضروری ہے۔