ہمارا میڈیا اور نئی حکومت

عبدالقادر حسن  منگل 4 ستمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہماری نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں لیکن اس حکومت کے بارے میں میڈیا میں ایک طوفان برپا ہے اور یہ طوفان چائے کی پیالی والا طوفان ہے کہ حکومت ابھی اپنے آپ کو سیدھا ہی کر رہی ہے لیکن ہمارے بے صبرے دوستوں نے ایک بار پھر بے صبرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکومت کی گوشمالی بھی شروع کر دی ہے۔

یہ تنقید حکومت کو منفی کے  بجائے مثبت جانب لے جائے گی کیونکہ اگر آغاز میں ہی کوئی غلطی ہو بھی گئی ہے تو اتنی سرعت سے اس کی نشاندہی ہو رہی ہے کہ مزید غلطیوں کا تداراک کر لیا جائے گا جو کہ حکومت کے حق میں جائے گا اور میڈیا کو مزید حکومتی حماقتوں سے محروم رہنا پڑے گا۔ خبروں کے لیے کچھ نیا تلاش کرنا پڑے گا یا پھر حکومت نواز خبروں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔اب تو حکومت نے پی ٹی وی کو بھی آزادی دینے کا اعلان کر دیا ہے لہذا حکومت کے پا س ایک ایسامیڈیم ضرور موجود ہو گا جو غیر جانبداری کے دعویٰ کے ساتھ حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے گا یعنی اب پی ٹی وی نجی نیوز چینل کا مقابلہ بھی کرے گا اور کسی حد تک حکومت کی ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دے گا۔

ہم من حیث القوم بڑے بے صبرے ہیں اور سب کچھ جلد از جلد پا لینے کے لیے درمیانی راستے کی تلاش میں رہتے ہیں تا کہ اپنی خواہشات کواس راستے کے ذریعے جلد از جلد پورا کیا جا سکے، اس جلد بازی میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں ہمارا اپنا یا ملک کا کیا نقصان ہو رہا ہے لیکن ہمارا مقصد چونکہ اپنے مخصوص عزائم ہوتے ہیں اس لیے ہم کسی نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنا مطلب نکالنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔ اس جلد بازی نے ہمیں کئی نقصان بھی پہنچائے لیکن ہم اس کے باوجود جلد بازی سے بازنہیں آتے ۔

پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نئی حکومت کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں ہو گی جو کہ رات کو دن میں تبدیل کردے گی بلکہ برسوں کے بگاڑ کو درست کرنے میں برسوں درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے ناتجربہ کار حکمرانوں کا دعویٰ برسوں کا نہیں بلکہ حکومت کے پہلے سو دنوں میں حکومتی معاملات میں درستگی لانے کا ہے اور پہلے سو دنوںمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ حکومت کے معاملات کس سمت میں چلائے جانے ہیں تا کہ اس کے مطابق کام کو آگے بڑھایا جا سکے ۔

اس کے ساتھ ساتھ پہلے سو دنوں میں واضح تبدیلی کے اشارے بھی دیے گئے تھے لیکن ابتداء میں ہی میڈیا نے حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے جو کہ ایک نئی حکومت اور ناتجربہ کار حکمرانوں کے ساتھ جلد بازی میں کی جانے والی زیادتی ہے۔ حکومت کے و عدے کے مطابق پہلے سودنوں کا بڑے صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے اور اس کے بعد میڈیا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حکومت کو یہ یاد دلائے کہ اس نے سو دنوں میں کون سے کام کرنے کے وعدے کیے تھے اور کیا کر گزری ہے۔

یہ صورتحال ایسے ہی چلتی رہے گی، نیوز چینلز کی تعداد میںاس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر ایک چینل تک اپنا موقف موثر طریقے سے پہنچانا غیر موثر ہو چکا ہے۔ حکومت کا اپنا ایجنڈا ہے اور صحافیوں کا اپنا ہے اور نئی حکومت ابھی اس صحافتی دامن کو پکڑنے سے قاصر ہے ۔

صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیاں اور ان کی سرزنش کرنے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بنائے گئے دو اداروں کو موجودہ حکومت نے بیک جنبش قلم ختم کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں اور کوئی ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ اگر نیا ادارہ ہی بنانا ہے تو پہلے والوں کو برقرار رکھنے میں کیا قباحت تھی۔حکومت ان اداروں میںاپنی مرضی کا سربراہ لگا سکتی تھی،بے شک وہ میڈیا کے حلقوں سے نہ بھی ہو کیونکہ گزشتہ حکومت میں ہمارے ایک ساتھی کو پیمرا کا سربراہ لگا دیا گیا جن کے خلاف میڈیا میںکافی شکایتیں گردش کرتی رہیں نئی حکومت کسی عقلمند انفارمیشن افسر کو یہ ذمے داری سونپ سکتی ہے۔

انفارمیشن والوں کی عمر صحافیوں کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے، اس لیے وہ اخبار نویسوں کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر جانتے ہیں اور ان کو معاملات سنبھالنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ یہ فیصلہ تو حکومت کو کرنا ہے کس عہدے کے لیے کون مناسب ہو گا ہمارا کام تو اخبار کے صفحے کالے کرنے کا ہے جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے ہر حکمران کے دور میںکرتے رہے ہیں اور جب تک قلم میں زندگی کی ہلکی سی بھی رمق باقی رہے گی کسی حق بات کے لیے صحافی کا قلم بھی چلتا رہے گا۔ حکومت اپنے کام کرتی رہے گی ہم اپنا فرض نبھاتے رہیں گے۔

حکومت کے غلط کاموں پر تنقید پہلے بھی ہوتی ہے اور اب بھی جاری ہے ۔ اگر حکمران حکومت چلانے کے لیے اچھی ٹیم کا انتخاب نہیں کر سکتے تو پھراخبار نویسوں سے گلہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔حکومتی عہدیدار اور وزراء جو صرف اپنی سیاسی حریفوں پر ماضی میںتنقید کے نشتر چلاتے رہے اب جب وہ حکمران بن بیٹھے ہیں تو ان کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ حکمران اور اس کی اپوزیشن میںفرق ہوتا ہے جس کا علم شاید ہمارے نئے وزراء کو نہیں ہے وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کی کوشش کر رہے جس میں ان کو ناکامی ہو رہی ہے ۔

حکومتی لاٹھیاں اور ہوتی ہیں اور بطوراپوزیشن تنقید کرنے کے لیے لاٹھیاں مختلف استعمال کی جاتی ہیں ۔ سیاسی رویوں میں پختگی لانے کی ضرورت ہے بے جاتنقید اور ہٹ دھرمی کی سیاست کی گنجائش بہر حال اب نہیں ہے۔ قوم دیکھ رہی ہے اور موازنہ کر رہی ہے اس لیے حکومت کو اپنے ابتدائی سو دنوں کے پلان پر عمل در آمد کا آغاز کر دینا چاہیے اور اپنے معاملات کو جلد از جلد درست کر لینا چاہیے تا کہ مخالفین کی توپیں خاموش ہو جائیں ورنہ صحافی تو قوم کی رہنمائی کا اپنا کام کرتے رہیں گے، چاہے کوئی ناراض ہو یا راضی رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔