جنگ ستمبر: کشمیر اور تاریخی محرکات کے آئینے میں

غلام محی الدین  جمعرات 6 ستمبر 2018
یومِ دفاعِ پاکستان اور جنگِ ستمبر کی اہمیت سمجھنے کےلیے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے جو براہِ راست مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

یومِ دفاعِ پاکستان اور جنگِ ستمبر کی اہمیت سمجھنے کےلیے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے جو براہِ راست مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

جنگ ستمبر پر ہمیشہ بات کا آغاز ستمبر 1965 سے کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت پاک بھارت تصادم کے بیج برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی بو دیئے گئے تھے۔

جنگوں میں تو خون بہتا ہی ہے لیکن کشمیر میں مسلسل خون بہہ رہا ہے اور دنیا اس پر ایک اور جنگ کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر میں ہندو راج کے خلاف بغاوت کا آغاز ہو گیا کیونکہ مقامی حاکم لوگوں کی خواہشات کے برعکس بھارت کے ساتھ ساز باز میں مصروف تھا۔ ان دنوں ہونے والے چند اہم واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

اکتوبر 1947ء
پاکستان سے الحاق کے حق میں بغاوت کا آغاز اکتوبر 1947ء کو ہوا۔ 21 اور 22 اکتوبر کی درمیانی رات پونچھ کے جنگجوؤں نے پاکستان سے آنے والے قبائلیوں اور پاک فوج کے چند افسروں کی مدد سے ڈومیل کے مقام پر دریائے جہلم کے پل کے دفاع پر مامور ڈوگرا رجمنٹ کو بے بس کرکے سری نگر جانے والی سڑک کو کھول دیا۔ سری نگر اب محض 100 میل کے فاصلے پر تھا لیکن مسلمان جنگجوؤں کے پاس وہ ذرائع نہیں تھے جن کو استعمال میں لاکر وہ جلدی سری نگر پہنچ سکتے۔

24 اکتوبر 1947ء
راجہ ہری سنگھ کو یقین ہوچلا تھا کہ اب صورتحال اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ لہٰذا 24 اکتوبر کو ریاست کشمیر کے نائب وزیراعظم کو دہلی روانہ کردیا گیا تاکہ وہ بھارت سے فوج روانہ کرنے کی درخواست کرسکے۔

25 اکتوبر 1947ء
بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے 25 اکتوبر کو برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا :

’’ہمیں کشمیر حکومت کی جانب سے فوری فوجی مدد کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس درخواست کا مثبت جواب دیں کیونکہ بھارت کی سلامتی کا دارومدار کشمیر کے داخلی امن و امان پر ہے۔ میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی حالت میں کشمیر کو مدد و اعانت فراہم کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کررہے ہیں۔ کشمیر کے الحاق کا معاملہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا۔‘‘

دو روز بعد برطانوی وزیراعظم کا جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ کسی طور بھی فوجی مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اس سے صورتحال خراب ہوگی لیکن بھارت پہلے ہی کشمیر میں فوج داخل کرچکا تھا۔

27 اکتوبر 1947ء
بھارت کو گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاست کشمیر میں فوجی مداخلت کی درخواست قبول کرتے ہوئے راجہ کو جو خط تحریر کیا اس میں کہا گیا ’’ہم اپنی اس پالیسی پر قائم ہیں کہ کوئی بھی ایسی ریاست جس کے الحاق کے معاملے پر تنازعہ ہے اس کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن وامان بحال ہوجائے اورحملہ آور واپس چلے جائیں تو کشمیر کے الحاق کا معاملہ وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق طے کیا جانا چاہیے۔

2 نومبر 1947ء
نہرو آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کشمیر کے الحاق کا معاملہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کرنے کا عہد ہم نے دیا ہے۔ ہم اس عہد کو توڑیں گے نہ ہی توڑ سکتے ہیں۔

6/5 نومبر 1947ء
5 اور 6 نومبر کی درمیانی رات ڈوگرا سپاہیوں نے جموں شہر میں آباد 5000 مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ کیا۔ راستے میں ان پر حملے کا انتظام پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ ڈوگرا سپاہی اس قافلے کو لے کر سیدھے اس مقام پر پہنچے جہاں قاتل گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جنہوں نے ان تمام افراد کو شہیدکردیا۔

جب برصغیر تقسیم ہوا تو ریاست جموں و کشمیر اس خطے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکی تھی۔ کیونکہ اب اس کی سرحد نہ صرف پاکستان اور بھارت کے ساتھ منسلک تھیں بلکہ افغانستان اور چین کے ساتھ بھی اس کی سرحد ملتی تھی۔ ممتاز مصنف ایلیسٹر لیمب نے اپنی کتاب “Incomplete Partition” میں لکھا ہے۔ اگر برطانوی فیصلہ سازوں نے کشمیر کے معاملے میں بھی بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی منطق کو بروئے کار لایا ہوتا تو یہاں بھی ایک ایسی سرحد کھینچی جاسکتی تھی جس میں ریاست کے مغرب میں مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوتے جبکہ مشرق میں بدھ اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوتے۔‘‘

لیمب مزید لکھتا ہے ’’ ڈوگرا راجہ کے حکم پر مسلمانوں کو جموں سے بے دخل کرنے کا کام پوری شدت سے شروع کر دیا گیا۔ لیکن جلد ہی ظاہر ہو گیا کہ مسلمانوں کا مکمل صفایا ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جبر و استبداد کے ذریعے مسلمانوں کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ایک اندازے کے مطابق 1947 میں اگست اور ستمبر کے محض دو ماہ کے مختصر عرصے میں پانچ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل جبکہ دو لاکھ سے زائد کو شہید کر دیا گیا۔یہ صرف وہ تعداد ہے جو تصدیق شدہ ہے اس سے پہلے اور بعد میں ظلم کا شکار ہونے والوں کا کوئی شمار نہیں۔

جنگ ستمبر کے بارے میں پہلا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جنگ میں جارحیت کا ارتکاب کس نے کیا؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ بھارت نے مسلسل ایسے اقدامات کو جاری رکھا جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت دو بنیادی فریق ہیں… اس حوالے سے ان دونوں ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری کریں لیکن اس سلسلے میں بھارت نے کبھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ دراصل بھارت نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ بھارت کو اپنے مقاصد سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے آئینی اقدامات کر رہا تھا۔ پاکستان کے بارہا کہنے کے باوجود عالمی تنظیم نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ قبل ازیں بھارت نے رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر حملہ کیا۔ وہاں سے شکست کھانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاقی ڈھانچے میں شامل کر لیا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کر چکا تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا کسی طور منطقی بات نہیں تھی۔

عسکری امور کے ممتاز ماہر رسل برائنز (Russel Brines) نے جنگ ستمبر پر “The Indo Pakistan conflict” نامی کتاب لکھی ہے جسے عسکری حلقوں میں بہت معتبر تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھارت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کا اقدام بالکل ایسا ہی تھا جیسا جنگ ستمبر سے 20 سال پہلے کانگریس نے کیا تھا۔ کانگریس کی منفی سیاست کے باعث قائداعظم جیسا مدبر سیاست دان بھی ڈائریکٹ ایکشن (راست اقدام) پر مجبور ہو گیا۔ اسی کے نتیجے میں کلکتہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔‘‘

اپنے اس تجزیئے کے آخر میں رسل لکھتا ہے ’’بھارت کے اس انتہائی اقدام نے پاکستان کی طرف سے سیاسی مقاصد طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کا معقول جواز پیدا کر دیا تھا۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر کے بھارت نے خود ہی جنگ کو ناگزیر بنا دیا تھا۔‘‘

آج تک جو بھی جنگ ستمبر کی بات کرتا ہے آپریشن جبرالٹر سے شروع کرتا ہے حالانکہ معاملہ بھارت کے نندا کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد سے شروع ہوتا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ جارحیت میں پہل بھارت نے کی تھی اور پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اس معاملے کو ایک مسئلے کی شکل میں زندہ رکھنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھاتا۔

4 ستمبر 1965ء کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ اپنی کرسی پر بیٹھے آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے۔ اسی دوران ریڈیو پر اعلان ہوا کہ چند لمحوں بعد ایک اہم خبر نشر کی جانے والی ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ مختصر خبر نشر کی گئی ’’پردھان منتری (وزیراعظم) نے لوک سبھا کو بتایا ہے کہ پاک فوج سیالکوٹ سے جموں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔‘‘ یہ سفید جھوٹ تھا۔ جنرل موسیٰ کمرے سے باہر نکل آئے۔ وہ کچھ دیر تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ان کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا اور ممکنہ خطرات صاف نظر آ رہے تھے۔ باہر کھڑے کھڑے انہوں نے سوچا کہ یقینا بھارت آپریشن گرینڈ سلام کو ناکام بنانے سے زیادہ بڑے اقدام کرنے والا ہے۔

جب جنرل موسیٰ آپریشن روم میں واپس آئے تو افسر اس خبر کے حوالے سے بحث کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرحدوں پر موجود فوج کو اگلی دفاعی پوزیشنوں پر قبضے کے احکامات جاری کر دیئے جانے چاہئیں۔

4 ستمبر کو سرحدوں پر موجود کمانڈروں کو یہ پیغام بھیجا گیا:

’’تازہ ترین انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق بھارت سرحدوں پر فوج جمع کر رہا ہے اور آل انڈیا ریڈیو پاک فوج کی پیش قدمی کی جھوٹی خبریں نشر کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ بھارت کے عزائم جارحانہ ہیں لہٰذا تمام فارمیشنز دفاعی نقطہ نظر سے ضروری اقدامات بروئے کار لائیں۔‘‘

5 ستمبر کو آل انڈیا میں بار بار یہ اعلان نشر ہونا شروع ہوا کہ وزیراعظم شاستری اگلے 24 گھنٹوں میں کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ ادھر ریڈیو پاکستان بار بار اکھنور پر جلد قبضے کی نوید سنا رہا تھا۔ اخبارات کا بھی یہی حال تھا۔ 5 ستمبر ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس میں بھارت اور پاکستان سے فائربندی کا کہا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں قائم انقلابی کونسل نے سلامتی کونسل کی اپیل کو رد کر دیا اور کہا کہ حریت پسند اس جنگ کو منطقی نتیجے تک پہنچائیں گے۔

6 ستمبر کو 9 بجے پاکستان کے چیف آف جنرل اسٹاف نے تمام ڈائریکٹرز کا اجلاس جی ایچ کیو میں طلب کیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنا خطاب ان الفاظ پر ختم کیا:

’’جو کچھ ہمارے پاس ہے سب کے سامنے ہے اور ری پلیس منٹس ناممکن ہیں گڈ لک!‘‘ اور اجلاس ختم ہو گیا۔ آپریشن گرینڈ سلام (Grand Slam) کے بارے میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کا مؤقف ہے کہ اگر اسے دو تین دن پہلے شروع کرلیا جاتا تو صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

اس جنگ میں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ بالخصوص پاک فضائیہ نے اپنی فضائی لڑائیوں اور بری فوج کی مدد کے لئے زمینی کارروائیوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر فضائیہ ایسی بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرتی تو بھارتی حملے کو روکنا بہت مشکل ہوتا۔ پاک بحریہ نے بھی انتہائی کم وسائل کے باوجود کھلے سمندر میں نکل کر دوارکا کا بھارتی ریڈار اسٹیشن نیست و نابود کر دیا۔ دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں انفرادی جرات ، قائدانہ صلاحیتوں اور قومی اتحاد کے حوالوں سے جنگ ستمبر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

اس کے باوجود کہ کشمیری عوام کی جدوجہد پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ہے اور وہ اس مقصد کے لیے قیام پاکستان سے لے کر آج تک قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ہم نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ نہیں نبھائیں۔ مختلف ادوار میں اپنے اصولی موقف پر سمجھوتہ کیا گیا۔ ہمارے کئی فیصلے دانش سے عاری تھے جیسے کشمیر میں جنگ آزادی کے منصوبے کی بنیاد اس احمقانہ یقین پر رکھی گئی کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کے ردعمل میں بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہم نے آزاد کشمیر میں ایسے اقدامات کیے جنہیں بنیاد بنا کر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا شروع کر دیا۔ آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے باوجود ہمیں یہ تاثر نہیں پیدا ہونے دینا چاہیے تھا کہ ہم وہاں کے معاملات میں دخیل ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاست میں پاکستان کے اندر مصروف عمل سیاسی جماعتوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جب تک تنازعہ حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک آزاد کشمیر کی حیثیت جدوجہد آزادی کے بیس کیمپ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہونی چاہیے تھی۔

آج ایک مرتبہ پھر کشمیر میں جدوجہد آزادی کا قافلہ نئی آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں ہماری ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ ہم پاکستان کے تمام لوگوں کو کشمیر کاز کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب عوام کو متحرک کرنے والی جماعتوں کی ترجیحات میں کشمیر کے معاملہ کو اولیت حاصل نہیں تو تمام لوگوں کی توجہ بھی اس پر مرکوز نہیں ہوتی۔ کشمیر کے معاملے کو ایسی حیثیت دینے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے لیے چاہتے ہوئے بھی اسے نظرانداز کرنا ممکن نہ رہے۔

اس کے لیے دو باتیں نہایت اہم ہیں۔ پہلے نمبر پر یہ کہ ہمیں آزاد کشمیر کو صحیح معنوں میں جدوجہد آزادی کا بیس کیمپ بنانا ہوگا اور اس خطے میں پاکستان کی مداخلت کے تاثر کو زائل کرنا ہوگا۔ دوسرے نمبر پر ہمیں یہ کرنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود اپنے سفارت خانوں کو اس بات پر مامور کریں کہ وہ بین الاقوامی سیاست میں کشمیر کے معاملے کو اجاگرکریں اور اسے ہر بات پر فوقیت حاصل رہے۔ آج بھی اگر ہم حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنائیں تو آزادیٔ کشمیر کی منزل آسان ہو سکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔