کپتان، پومپیو اور مجوقسائی

اقبال خورشید  پير 10 ستمبر 2018

’’کپتان کا اصل نشانہ ٹرمپ ہے!‘‘

جس روز مجو قسائی نے یہ دعویٰ داغا، گوشت کا ناغہ تھا، اور عوام اس سوچ میں غلطاں تھے کہ بھنڈی پکائیں یا دال۔

مجو کی بات سن کر ہم ہنس دیے۔ اور سلیم کے ٹھیے سے پکوڑے اٹھا کر کھاتے رہے، جن میں حسب سابق نمک تیز اور تیل زیادہ تھا۔

مجو نے اپنا سر ہلایا اور کہا؛ امریکی وزیر خارجہ بھارت روانگی کے وقت سخت دباؤ میں تھے، بلڈ پریشر بڑھ گیا، شوگر لیول گرگیا، سر چکرایا، اسی باعث ششما سوراج خود لینے ایئرپورٹ پہنچیں۔

’’اور اس کا سبب کیا تھا بھیا؟‘‘ہم نے پکوڑے مجو کی سمت بڑھائے، اس نے منہ بسورتے ہوئے انکار کردیا۔

’’تبدیلی!‘‘ مجو پرجوش تھا ’’کیا تم نے نہیں دیکھا، ہمارے وزیرخارجہ نے ایئرپورٹ پر مائیک پم پم کا استقبال نہیں کیا۔‘‘

’’پم پم نہیں، پومپیو!‘‘ ہم نے تصحیح کی ’’اور شاہ محمود قریشی تو وضع دار آدمی ہیں، انھیں جانا چاہیے تھا۔‘‘

تصحیح کی کوشش کو مجو نے قابل توجہ نہ جانا، بھائی جون کی طرح رانوں پر ہاتھ مارے اور کہا: ’’ شاہ صاحب وضع دار ہوں گے، مگر تبدیلی آگئی، تو آگئی۔ اور پم پم مہمان خاک تھا، مصیبت تھا۔‘‘

اس روز، جب گوشت کا ناغہ تھا، مجو نے کئی انکشافات کیے۔ سلیم پکوڑے والا بھی سر جھکائے عقیدت سے سن رہا تھا۔ کبھی جو ہم مسکرا کر اسے دیکھ کر آنکھ مار دیتے، تو نظرانداز کرنے کی اداکاری کرتا۔ مجو انکشافات کے ٹریک پر سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر نسیم حجازی کے ناولوں کے غیور گھوڑوں کا تصور ابھرتا تھا۔

مجو کے طویل خطاب، جو کسی طور مارٹن لوتھر کنگ کے لازوال خطاب ’’میرا ایک خواب ہے‘‘ سے کم تر نہ تھا، بلکہ زیادہ ہی تھا، خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان نے پم پم (مائیک پومپیو) کو نانی یاد دلا دی۔ سفارت خانے کے لڑکے بالوں سے استقبال کراکر پہلے سبکی کا اہتمام کیا، شاہ صاحب (شاہ محمود قریشی) ملے، تو اپنے مخصوص انداز میں ’’نومور، نومور‘‘ کہتے رہے۔ البتہ اصل سانحہ وزیراعظم سے ملاقات میں ہوا۔

ہم نہیں صاحب، مجو کہتا ہے، اور سلیم پکوڑے والا اس سے متفق ہے کہ فربہی کی جانب مائل مائیک پم پم (معذرت پومپیو) کی وزیراعظم سے ون آن ون ملاقات نہ کرنا تبدیلی کا پہلا جھٹکا تھا۔ تین سو واٹ کا سمجھو۔ یہی نہیں، موصوف کو ٹھیک ٹھاک انتظار کروایا گیا۔ جب وزیراعظم پاکستان، سادہ سی شلوار قمیص اور پشاوری چپل میں کمرے میں داخل ہوئے، تو آرمی چیف سمیت پورے پاکستانی وفود نے کھڑے ہوکر استقبال کیا۔

یوں پومپیو پر پہلے ہی ہلے میں دھاک بیٹھ گئی۔ اوپر سے خان نے بھی بے دلی سے ہاتھ ملا کر واضح کر دیا کہ بھائی، تم فقط وزیرخارجہ ہو، وہ بھی امریکا کے۔ کمبوڈیا کے ہوتے، تو اور بات تھی۔

گفتگو کا بڑا حصہ کیمرے کے روبرو ہوا، جس میں صحافی بھی موجود تھے۔ دباؤ کے باعث پومپیو تمام مطالبات بھول گئے۔ امریکی صرف مبارک باد ہی پیش کرسکا۔

جب ایک غیرملکی صحافی نے کپتان سے پاک امریکا تعلقات سے متعلق پوچھا، تو صاحب نے اپنی روایتی بے نیازی سے کہا: ’’میں ایک اسپورٹس مین ہوں، کبھی مایوس نہیں ہوتا!‘‘

امریکی وفد اس جواب پر اپنا ردعمل منتخب کرنے کی بابت سوچ ہی رہا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کا خوش گوار قہقہہ بلند ہوا۔ ہم نہیں صاحب، مجو کا اصرار ہے، اور سلیم متفق ہے کہ وہ قہقہہ دراصل پومپیو پر لگایا گیا تھا۔ یہ ایک پیغام تھا کہ یہ سادہ سا درویش صفت انسان، جو اس ملک کا سپریم لیڈر ہے، بائیس کروڑ عوام اور پاکستان کے تمام ادارے اس کے ساتھ ہیں۔

اور جب پومپیو اور اس کے ساتھی دہلی جانے کو ایئرپورٹ روانہ ہوئے، انھیں یہ خبر بھی چپکے سے پہنچا دی گئی کہ کپتان طیب اردوان، محمد بن سلمان اور مہاتیر محمد سے رابطہ میں ہے، عراق و ایران بھی ساتھ ہیں، چین و جاپان بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ روک سکو تو روک لو۔

مجو کے ذرایع کے مطابق، جو نامعلوم ہیں، اور سلیم کے یقین کے مطابق، جس کی بنیاد توہم پرستی ہے، اس صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد بھائی پومپیو پر واضح ہوگیا کہ پاکستان میں ایک عظیم تبدیلی آچکی، اسے اندازہ ہوگیا کہ ایک نیا بلاک وجود میں آگیا ہے، وہ سمجھ گیا کہ امریکا کا زوال شروع ہونے والا ہے، اور اسے یہ ادراک بھی ہوگیا کہ کپتان کا اصل نشانہ ہی ٹرمپ ہے، جو عین ممکن ہے، کچھ روز میں مرئی اور غیر مرئی قوتوں کے رگڑے میں آجاوے، بیوی بچوں سے لڑ پڑے، دفتر میں توڑ پھوڑ کرے، اور استعفیٰ دے کر چلتا بنے۔

مجو کے مطابق دوران پرواز امریکی وزیر خارجہ نے اپنے فیس بک میسنجر سے ایک انتہائی خفیہ پیغام امریکی صدر کو ارسال کیا کہ جناب، دھوبی پٹخے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بس اس کے بعد جناب پومپیو کی طبیعت بگڑ گئی، جس کے باعث بہن ششما سوراج کو تامل نائیڈو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رجنی کانت کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچنا پڑا۔

ایسا تو نہیں کہ ہم مجو کے کہے کے قائل تھے، مگر پکوڑوں کی وجہ سے جی بھاری ہوگیا تھا، سر چکرانے لگا، اس کے لیے وہاں بیٹھے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ نکلے، تو ذہن پر یہی سوچ سوار تھی کہ کیا واقعی تبدیلی آگئی؟ کیا واقعی سب بدل گیا ہے؟ کیا واقعی پومپیو کے ساتھ ہاتھ ہوگیا؟

ان ہی نامراد سوچوں میںغرق چلے جارہے تھے کہ اچانک پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔۔۔ کچھ ہوش نہ رہا۔

ذرا سنبھلے، تو جانا کہ ہم محلے کے اس منحوس گٹر کی زد میں آگئے، جس کا ڈھکنا گزشتہ دو سال سے غائب ہے۔

ڈھکنا، جو الیکشن سے پہلے بھی غیر موجود تھا، اور اب بھی غیر موجود ہے۔ ہم نے تبدیلی کو بھول کر گھر کی راہ لی، تاکہ لباس تبدیل کرسکیں، تھوڑا شہد چاٹیں، زخموں پر زیتون کا تیل لگائیں، اور سو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔