بھارت سے دوستی کی اتنی بے تابی کیوں
کل تک جن کے نزدیک مودی سے دوستی غداری تھی آج وہ مودی سے دوستی کو پاکستان سے محبت کیوں قرار دے رہے ہیں۔
msuherwardy@gmail.com
نئی نویلی حکومت کونہ جانے کیا ہو گیا ہے، بھارت سے دوستی کا عجب بخار چڑھ گیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ مودی سے دوستی کی خواہش میں اس قدر بے تابی کیوں دکھائی جا رہی ہے۔ آپ ایک قدم چلیں ہم دوقدم چلیں گے۔ بھارت سے مذکرات چاہتے ہیں۔تجارت شروع کرنے کی بے تابی۔ سرحدیں کھولنے کی بے تابی۔ کیا ہوا ہے۔ کل تک تو جو مودی کا یار تھا وہ غدار تھا۔ آج مودی کی یاری کی بے تابی کیوں۔کل تک جن کے نزدیک مودی سے دوستی غداری تھی آج وہ مودی سے دوستی کو پاکستان سے محبت کیوں قرار دے رہے ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اب کلبھوشن کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ میرا تو خیال تھا کہ نواز شریف پر الزام لگانے والے کہ وہ اپنی تقریروں میں کلبھوشن کا ذکر نہیں کرتے، اپنی بطور وزیر اعظم پہلی تقریر میں کلبھوشن کا ذکر کریں گے۔ کل تک جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرنے کا طعنہ دیتے تھے آج یک طرفہ دوستی کا ڈھول بجاتے جا رہے ہیں۔
کہاں گئے وہ مطالبات کہ بھارت پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک بند کرے۔ کہاں گئے وہ مطالبات کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ کہاں گئے وہ بیانات کے بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے کا ذمے دار ہے۔ کہاں گئیں وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی سفارتخانوں کی مشکوک سرگرمیاں۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارتی سفارتخانوں سے پاکستان میں خود کش حملوں کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ پاکستان میں مطلوب دہشت گردوں کے بھارت میں علاج کیے گئے۔
کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کو وسائل اور سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کہاں گئے وہ نعرے کہ کشمیر کی آزادی تک بھارت سے تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ کل تک بھارت سے جندال کے آنے پر غداری کا نعرہ لگانے والے آج سدھو کے آنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ کل تک مخالفین کو بھارتی تعلقات کا طعنہ دینے والے آج بھارت سے مہمان مدعو کرنے کے لیے منتیں کیوں کرتے رہے۔ وہ پاکستان کی عزت کا رونا رونے والے آج ساری عزت کو بالائے طاق رکھ کر دوستی کے لیے بے تاب کیوں ہو رہے ہیں۔کیا اب ہم سدھو کے ذریعے بھارت سے بات کریں گے۔ کس کو نہیں پتہ کہ بھارت میں سدھو کا کیا مقام ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ بھارت کے سامنے دوستی کے لیے لیٹنے کی اتنی کیا بے تابی ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ یہ خبر سچ ہو گی لیکن امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے بھی ایک خبر دی ہے کہ پاکستان نے بھارتی اسٹبلشمنٹ سے رابطہ کرکے باہمی مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی بات کی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ ایک طرف امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا وزارت خارجہ کے ایک جونیئر افسر سے استقبال کرانے کے جس معرکہ کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسا 2013میں جان کیری کے ساتھ بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن شائد ن لیگ نے تب اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تا ہم آپ دیکھیں پاکستان سے جب یہ امریکی وفد بھارت گیا تو امریکیوں نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں کی بھر مار کر دی۔
ایک نہیں کئی دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے کیے گئے۔ جب بھی کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کوئی دفاعی یا اسٹریٹجک معاہدہ کرتا ہے۔بھارت اس پر احتجاج کرتا ہے۔ احتجاجی بیان جاری کرتا ہے۔لیکن بھارت اور امریکا کے درمیان ان معاہدوں پر پاکستان کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ کسی کو رسمی احتجاج کرنے کی جرات بھی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے سب کو چپ رہنے کا آرڈر کر دیا ہو۔
آپ حافظ سعید کی مثال ہی لے لیں۔ وہ پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کے ایک وکیل ہیں۔ اب تو وہ سیاست میں آگئے ہیں۔ ان کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں لاکھوں ووٹ لیے ہیں۔ لیکن وہ بھی چپ ہیں۔ ان کی خاموشی بھی معنی خیز ہی ہے۔
آج ہم بھارت سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ بھارت ہم سے دوستی کے لیے تیار تھا لیکن ہم تیار نہیں تھے۔ مودی پاکستان آئے تھے۔ وہ چل کر پاکستان آئے تھے۔ تنقید نگار کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان نہیں جاتی عمرہ آئے تھے۔ تنقید نگار کہہ سکتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ذاتی تعلقات تھے ہمیں پاکستان کے بھارت سے تعلقات چاہئے۔ اس لیے اس کی مخالفت کی گئی۔ لیکن تب میرا ان تنقید نگاروں سے سوال ہے کہ اس طرح تو واجپائی بھی پاکستان آئے تھے۔ وہ مینار پاکستان گئے تھے۔ لیکن تب ہم واجپائی کے پاکستان آنے کے بھی خلاف تھے۔ وہ بھی بھارت نوازی قرار دی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ہم آگرہ میں وہی معاہدے دوبارہ کرنے کی کوشش کرتے رہے جو واجپائی لاہور میں کر رہے تھے اور نا کام ہو گئے۔
پاکستان کی اس نئی نویلی حکومت کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہیں۔ ایسے میں مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سیاسی طور پر متحمل نہیں ہو سکتے۔ جب وہ آئے تھے وہ ان کے دور کا آغاز تھا۔ لیکن اب اختتام ہے۔ وہاں یہ سوچ ہے کہ اگر مذاکرات شروع کیے گئے تو کانگریس کو فائدہ ہو گا۔ اگر مذاکرات کامیاب ہو گئے تب بھی نقصان ہو گا اور اگر ناکام ہو گئے تب بھی نقصان ہوگا۔ کامیابی کی صورت میں پانچ سالہ پالیسی کی نفی ہو جائے گی اور کانگریس اس کو استعمال کرے گی۔
حال ہی میں کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے بین الاقوامی میڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے مودی کی پاکستان پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مودی کے پاس پاکستان کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ایسے میںمودی پاکستان کے ساتھ کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے حکومت کے آخری سال میں مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ سرحدوں پر گرمی قائم رکھیں گے۔ اسی لیے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کے جواب میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر دی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کسی کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی۔ ہم اکیلے ہی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔
کیا پاکستان کی جانب سے دوستی کا یہ یک طرفہ اعلان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیا اس طرح پاکستان کا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے۔ کیا اس سے پاکستان کی عالمی ساکھ خراب نہیں ہو رہی۔ کیا اس یک طرفہ راگ کے لیے کوئی ہوم ورک کیا گیا ہے۔ کیوں دوسری طرف سے جواب نہیں آرہا۔ آج یہ پاکستان کی عزت کا معاملہ نہیں ہے،کل تک تو یہ قومی غیرت کا معاملہ تھا۔ آج قومی غیرت کہاں گئی۔ کیا ہم نے بھارت سے تعلقات کو صرف نواز شریف کی دشمنی میں خراب کیا۔ جو کل تک جرم تھا، آج قومی خدمت کیسے بن گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اب کلبھوشن کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ میرا تو خیال تھا کہ نواز شریف پر الزام لگانے والے کہ وہ اپنی تقریروں میں کلبھوشن کا ذکر نہیں کرتے، اپنی بطور وزیر اعظم پہلی تقریر میں کلبھوشن کا ذکر کریں گے۔ کل تک جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرنے کا طعنہ دیتے تھے آج یک طرفہ دوستی کا ڈھول بجاتے جا رہے ہیں۔
کہاں گئے وہ مطالبات کہ بھارت پہلے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک بند کرے۔ کہاں گئے وہ مطالبات کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ کہاں گئے وہ بیانات کے بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے کا ذمے دار ہے۔ کہاں گئیں وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی سفارتخانوں کی مشکوک سرگرمیاں۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارتی سفارتخانوں سے پاکستان میں خود کش حملوں کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ پاکستان میں مطلوب دہشت گردوں کے بھارت میں علاج کیے گئے۔
کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کو وسائل اور سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ کہاں گئے وہ ثبوت کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کہاں گئے وہ نعرے کہ کشمیر کی آزادی تک بھارت سے تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ کل تک بھارت سے جندال کے آنے پر غداری کا نعرہ لگانے والے آج سدھو کے آنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ کل تک مخالفین کو بھارتی تعلقات کا طعنہ دینے والے آج بھارت سے مہمان مدعو کرنے کے لیے منتیں کیوں کرتے رہے۔ وہ پاکستان کی عزت کا رونا رونے والے آج ساری عزت کو بالائے طاق رکھ کر دوستی کے لیے بے تاب کیوں ہو رہے ہیں۔کیا اب ہم سدھو کے ذریعے بھارت سے بات کریں گے۔ کس کو نہیں پتہ کہ بھارت میں سدھو کا کیا مقام ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ بھارت کے سامنے دوستی کے لیے لیٹنے کی اتنی کیا بے تابی ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ یہ خبر سچ ہو گی لیکن امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے بھی ایک خبر دی ہے کہ پاکستان نے بھارتی اسٹبلشمنٹ سے رابطہ کرکے باہمی مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی بات کی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ ایک طرف امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا وزارت خارجہ کے ایک جونیئر افسر سے استقبال کرانے کے جس معرکہ کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسا 2013میں جان کیری کے ساتھ بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن شائد ن لیگ نے تب اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تا ہم آپ دیکھیں پاکستان سے جب یہ امریکی وفد بھارت گیا تو امریکیوں نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں کی بھر مار کر دی۔
ایک نہیں کئی دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے کیے گئے۔ جب بھی کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کوئی دفاعی یا اسٹریٹجک معاہدہ کرتا ہے۔بھارت اس پر احتجاج کرتا ہے۔ احتجاجی بیان جاری کرتا ہے۔لیکن بھارت اور امریکا کے درمیان ان معاہدوں پر پاکستان کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ کسی کو رسمی احتجاج کرنے کی جرات بھی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے سب کو چپ رہنے کا آرڈر کر دیا ہو۔
آپ حافظ سعید کی مثال ہی لے لیں۔ وہ پاکستان میں تحریک آزادی کشمیر کے ایک وکیل ہیں۔ اب تو وہ سیاست میں آگئے ہیں۔ ان کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں لاکھوں ووٹ لیے ہیں۔ لیکن وہ بھی چپ ہیں۔ ان کی خاموشی بھی معنی خیز ہی ہے۔
آج ہم بھارت سے دوستی کے لیے بے تاب ہیں۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ بھارت ہم سے دوستی کے لیے تیار تھا لیکن ہم تیار نہیں تھے۔ مودی پاکستان آئے تھے۔ وہ چل کر پاکستان آئے تھے۔ تنقید نگار کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان نہیں جاتی عمرہ آئے تھے۔ تنقید نگار کہہ سکتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ذاتی تعلقات تھے ہمیں پاکستان کے بھارت سے تعلقات چاہئے۔ اس لیے اس کی مخالفت کی گئی۔ لیکن تب میرا ان تنقید نگاروں سے سوال ہے کہ اس طرح تو واجپائی بھی پاکستان آئے تھے۔ وہ مینار پاکستان گئے تھے۔ لیکن تب ہم واجپائی کے پاکستان آنے کے بھی خلاف تھے۔ وہ بھی بھارت نوازی قرار دی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ہم آگرہ میں وہی معاہدے دوبارہ کرنے کی کوشش کرتے رہے جو واجپائی لاہور میں کر رہے تھے اور نا کام ہو گئے۔
پاکستان کی اس نئی نویلی حکومت کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہیں۔ ایسے میں مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سیاسی طور پر متحمل نہیں ہو سکتے۔ جب وہ آئے تھے وہ ان کے دور کا آغاز تھا۔ لیکن اب اختتام ہے۔ وہاں یہ سوچ ہے کہ اگر مذاکرات شروع کیے گئے تو کانگریس کو فائدہ ہو گا۔ اگر مذاکرات کامیاب ہو گئے تب بھی نقصان ہو گا اور اگر ناکام ہو گئے تب بھی نقصان ہوگا۔ کامیابی کی صورت میں پانچ سالہ پالیسی کی نفی ہو جائے گی اور کانگریس اس کو استعمال کرے گی۔
حال ہی میں کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے بین الاقوامی میڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے مودی کی پاکستان پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مودی کے پاس پاکستان کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ایسے میںمودی پاکستان کے ساتھ کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے حکومت کے آخری سال میں مودی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ سرحدوں پر گرمی قائم رکھیں گے۔ اسی لیے ایک قدم کے جواب میں دو قدم بڑھانے کے جواب میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر دی گئی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کسی کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی۔ ہم اکیلے ہی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔
کیا پاکستان کی جانب سے دوستی کا یہ یک طرفہ اعلان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیا اس طرح پاکستان کا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے۔ کیا اس سے پاکستان کی عالمی ساکھ خراب نہیں ہو رہی۔ کیا اس یک طرفہ راگ کے لیے کوئی ہوم ورک کیا گیا ہے۔ کیوں دوسری طرف سے جواب نہیں آرہا۔ آج یہ پاکستان کی عزت کا معاملہ نہیں ہے،کل تک تو یہ قومی غیرت کا معاملہ تھا۔ آج قومی غیرت کہاں گئی۔ کیا ہم نے بھارت سے تعلقات کو صرف نواز شریف کی دشمنی میں خراب کیا۔ جو کل تک جرم تھا، آج قومی خدمت کیسے بن گیا۔