مجھے سب کچھ دو

سید نور اظہر جعفری  منگل 11 ستمبر 2018

رب کائنات نے اپنے کائناتوں کے خوبصورت ترین کلام میں جن تمام باتوں کا ذکرکیا ہے، ان میں تخلیق کائنات سے لے کر وجہ تخلیق کائنات اور تمام عرصے میں پیش آمدہ واقعات کا ذکرکرتے ہوئے غوروفکرکا حکم دیا ہے اور اس غوروفکرکی دعوت جسے میں کہتا ہوں کا مقصد اپنی تخلیق کردہ اشرف المخلوقات کو وہ درجہ حاصل کرنے کا حکم ہے، جو اس کی تخلیق کا سبب بھی ہے اورضرورت بھی۔

رب نے جس چیز پر زور دیا ہے وہ ہے بقائے باہمی اور امن، ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ، صرف ادائیگی نہیں کہ وہ تو ایک لازمی امر ہے، تحفظ سے سیرت کی خوبصورتی جنم لیتی ہے جو انسانی ذات کا خاصہ ہے اور جو صرف انسانی ذات میں ہی وصف کردہ ہے۔ جانور چوپایہ تو ہے مگر عقل ودانش سے محروم ہے اور ہر صورت پیٹ بھرنے کا روا دار اور اس میں مل بانٹنے کا کوئی منظر اتفاقاً ہی نظر آتا ہے ورنہ تو چھینا جھپٹی ہی ان کا کام ہے ۔

اپنے نبی، پیغمبروں کی آزمائش کا مقصد بھی حق کو واضح کرنا تھا کہ حق انتہائی قیمتی چیز ہے اس پر چلنے کے لیے قربانی اور صبر سے ہر امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے ہم سے پہلے کے لوگوں کے لیے کہ وہ جان سکیں کہ محبت، اخلاص، بندگی اور عبودیت کیا ہے اور اس کا اعلیٰ معیارکیا ہوسکتا ہے۔ دین، احیائے دین، استحکام دین، بقائے دین کے لیے کیا کیا کرنا ہوتا ہے اورکیا کیا ضروری ہے۔

میرے پاس وہ سند نہیں ہے کہ جس کے تحت میں منبر پر قبضہ کرسکوں، مگر میرے پاس اللہ کا عطا کردہ وہ علم ہے جس کے ذریعے میں کتاب ہدایت کا مطالعہ کرسکوں ، حقائق جان سکوں، رائے قائم کرسکوں، دیکھ سکوں کہ اجتماع اکابرین کا مقصد کیا ہے کیونکہ کسی بھی اجتماع کے سربراہ کے کردار سے اس کے عزائم اور ارادوں کا پتا چلتا ہے کہ کیوں اچانک وہ ایک راستے سے ہٹ کر اب امت مسلمہ پاکستان جو ایک حیرت زدہ بچے کی طرح یہ سب دیکھ رہی ہے اس کی وکالت کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہیں۔

قرآن اور تاریخ نے یہ بات واضح کی ہے کہ غلط فیصلے کرنے والے حکمرانوں کو کچھ ایسے مذہبی پیشواؤں کی حمایت حاصل رہی کہ جن کا عام افراد پر جو ناخواندہ یا کم علم تھے اثر تھا اور وہ ان کے کہے کو حرف آخر کا رتبہ دیتے تھے تو حکمران بالواسطہ عوامی حمایت ان کے ذریعے حاصل کرکے مرضی کے فیصلے کرتے تھے جو سرا سر ان کے مفاد میں اور مفاد عامہ کے خلاف ہوتے تھے اور اس کے لیے یہ پیشوا ان سے مراعات حاصل کرتے تھے۔

یہ سلسلہ رکا نہیں ہے اور تب پٹرول ڈیزل کا زمانہ نہیں تھا زر، زن، زمین سکہ تبادلہ تھا اور یہی کچھ حاصل کیا جاتا تھا اور اب بھی خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ان کے کامیاب ہونے پر ان کے گال سرخ ہوجاتے ہیں۔ تقریر میں تو باعزت ترین شخصیات خصوصاً رسول اکرمؐ کے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے رسول کے کردار کو بیان کرتے ہوئے حضورؐ جس طرح خواتین کی عزت کرتے تھے سب کچھ بیان کردیں گے۔ مگر خود ایک فیصد بھی اس پر عمل نہ کریں گے اور دوسروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنائیں گے تاکہ خواتین حقوق نہ حاصل کرسکیں اور یہ اپنا مقصد حاصل کرلیں۔

اس علاقے کا اگر تناسب خواتین کوئی بیان کرسکے تو ہماری بات ثابت ہوجائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کسی کے ساتھ چلتے چلتے سالوں ہوگئے سب ٹھیک تھا۔ دوسرے بزرگوں کو بھی سب ’’اسلامی‘‘ نظر آرہا تھا، احتساب کے تو اب بھی مخالف ہیں کہ شاید ڈرتے ہیں کہ کہیں ادھر کا رخ نہ ہوجائے جو ضرور ہوگا، جب بھی احتساب کا سلسلہ ختم کرنے کا سوال آیا یہ اس کے حق میں ووٹ دیں گے دیتے رہے ہیں۔ الیکشن کے بعد یہ پھر آیندہ سال کے لیے سو جائیں گے عوام جائیں بھاڑ میں، مگر عوام نے جواب دے دیا ہم جاگ رہے ہیں۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کتاب مقدس کا علم رکھنے والے یہ بزرگان کس طرح اس کے اصولوں سے انحراف کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اجتماع و اتحاد کا مقصد سیاسی ہوتا ہے دینی نہیں۔ جس کے اغراض و مقاصد سے اچھی طرح واقف ہیں کہ وہ ملک وقوم سے زیادہ ذات کی حد تک ہیں اور یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ ان کے حصول کے لیے یہ اتحاد بنایا گیا ہو۔ فیصلہ ان پر ہی چھوڑتے ہیں اور اب دیکھ لیجیے گا کہ کیا ہوا ہے عوام کا رخ بدل گیا ہے۔

نااہل بھی گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ اس کے مطابق وہ تمام فوائد حاصل کیے جو وہ پہلے بھی لیتے رہے ہیں صدر نہیں ہیں مگر ہیں صدر ہیٹ لگا کر جو تقریریں کرتا رہا ہے اصل صدر نہیں لگتا ہے۔ بے چارہ چھوٹے بھائی، بڑے بھائی وہیں برقرار ہیں۔ پروٹوکول کو ان کے نوکروں کو بھی ملتا رہا ہے نام نہیں لکھتے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کون کون نامی ہوگئے جو پہلے خاندان میں ’’بے نامی‘‘ تھے۔ عابد ہوگئے جو نابلد تھے پہلے۔ بس شرط یہ تھی کہ جو ہم کہیں حمایت کرو، سوچو مت۔ ضیا الحق کی نرسری کے پودوں سے چمن کو اب تک نجات نہ ملی۔ دکھاؤے کا اسلامی نظام آج بھی زبان پر ہے ’’مجھے سب کچھ دو‘‘ کا نعرہ دوسرے الفاظ میں بیان کرتے رہے۔ جاگ جاگ کا نعرہ لگا کر پہلے قوم کو بے وقوف بنایا تین بار اب ’’مجھے سب کچھ دو‘‘ کا سلسلہ چل رہا تھا۔

دکان تو چل رہی ہے مگر ’’گدی‘‘ بھی چاہیے، کشمیریوں کا خون بہتا رہا یہ چپ رہے کشمیر کمیٹی کو رقم دے دی کہ چپ رہے وہ بھی۔ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ صرف لاہورکو پاکستان قرار دینے اور ملک اور پنجاب کا بڑا حصہ بجٹ کا لاہور پر خرچ کرکے مونچھوں پر تاؤ دینے والوں کے ’’تاؤ‘‘ کا وقت آگیا ہے۔ تانا شاہی نے بہت سرکاری وسائل ’’بھائی صاحب‘‘ پر خرچ کردیے تھے۔ وزیر اعظم بھی اس میں شریک رہتے تھے اس کا حساب لینا ضروری ہے پیسہ عوام کا تھا۔

سندھ کا بھی کھاتہ اب کھل جانا چاہیے وہاں بھی خاندان عیش کر رہا ہے عوام کے پیسے ہی سے سب کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ مخصوص علاقوں کے لوگ اعلیٰ سے ادنیٰ تک قابض ہیں۔ ’’تھر‘‘ کا وہی حال ہے۔ ایک صاحب کہتے تھے سندھ کی ترقی دیکھو میرے ساتھ چلو اسپتال دیکھو۔ کمال ہے کھانے کو روٹی نہیں ہے، روزگار نہیں ہے۔ شہر گٹر بن گئے ہیں اسپتال تو آخر میں آتا ہے۔ روڈ کہاں ہیں، صاف پانی کہاں ہے، زراعت پیشہ کسان رو رہا ہے پانی پر وڈیروں کا قبضہ ہے۔

کراچی کے ٹرانسپورٹ سے لے کر دریائے سندھ کے پانی تک پر ’’بڑوں‘‘ کا قبضہ ہے عوام کہاں جائیں، اسپتالوں کے باہر لائن لگا کر مر جائیں؟ پانی بھی کسانوں کو رینجرز دے رہے ہیں بندش کھول کر پچھلے دنوں سے۔ کتاب سے بات کا آغاز کیا تھا جن کے لیے کتاب میں فلاح کے راستے ہیں انھوں نے کتاب کا ذمے دار مخصوص لوگوں کو قرار دے کر خود دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور خوب عیش کیے اور کر رہے ہیں۔

کتاب کے سمجھنے والوں نے بھی ڈیلرکو سربراہ بنالیا ہے اب سارے معاملے ’’ڈیل‘‘ کے تحت ہوں گے۔ کشمیری مر رہے ہیں کشمیر کمیٹی نہ چھوڑی، کچھ نہ کیا ان کے لیے سب خاموش ہیں خاموش رہیں گے۔ ہر ایک نے کوئی نہ کوئی ’’ڈیل‘‘ کر رکھی ہے اور جس ’’ڈیل‘‘ کے تحت دنیا میں عالم ارواح سے آئے تھے اسے فراموش کردیا ہے مگر جس سے ڈیل کرکے آئے ہیں وہ حساب رکھنے والا، حساب لینے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔