استاد: آجر و اجیر کی زنجیروں میں جکڑا مقدس رشتہ

صبا ادریس  ہفتہ 15 ستمبر 2018
پڑھانے والے اساتذہ تو بہت ہیں مگر ایسے اساتذہ بہت کم ہیں جو واقعی ’تعلیم‘ دیتے ہوں اور آدمی کو انسان بنانے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پڑھانے والے اساتذہ تو بہت ہیں مگر ایسے اساتذہ بہت کم ہیں جو واقعی ’تعلیم‘ دیتے ہوں اور آدمی کو انسان بنانے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

واقعہ مشہور ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر سے کہا گیا کہ مسلسل جنگ کے نتیجے میں ہمارے بہت سے قیمتی لوگ مررہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے قیمتی اور قابل ترین لوگوں سے محروم ہوجائیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا کیا جائے؟ ہٹلر نے جواب دیا کہ اگر ممکن ہو تو اپنے اساتذہ کرام کو کہیں دور لے جا کر چھپادو۔ اگر اساتذہ موجود رہیں گے تو یہ قیمتی لوگ پھر سے تیار ہوجاٸیں گے۔

محترم اساتذہ سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ وہ ہیں جنہیں نسلوں کے قیمتی لوگ تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انبیائے کرام کے بعد آپ ہی کا مقام افضل ترین ہے۔

بے شک جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا، وہ میرا استاد ہے۔ بےشک آپ ذہنوں کی تعمیر کے ذمہ دار ہیں۔ دور حاضر کی ہر قوم نے اپنے نوخیز ذہن آپ کے حوالے کیے اور کہا کہ انہیں سنواردیجیے، انہیں نکھار دیجیے، اور انہیں اس قابل بنادیجیے کہ یہ معاشرے کے اچھے فرد بن سکے۔

یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ بہترین اساتذہ ہونے کا حق ادا کریں، اپنے فراٸض بخوبی انجام دیجیے۔

پڑھانے والے اساتذہ تو بہت سے ہیں مگر ایسے اساتذہ بہت کم ملتے ہیں جو واقعی ’’تعلیم‘‘ دیتے ہیں اور آدمی کو انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں؛ لیکن آج کے مصنوعی دور میں تعلیم و تدریس کا کلیہ ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ جہاں تک استاد اور شاگرد میں تعلق کا معاملہ ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج یہ رشتہ روحانی والدین اور اولاد کا نہیں بلکہ خادم و مخدوم، آجر اور اجیر کا تعلق بن کر رہ گیا ہے۔

ہمارے نٸے تعلیمی نظام نے کٸی نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ سب تبدیلیاں قدیمی و روایتی نظام تعلیم سے تعلق توڑ لینے، بین الاقوامی رویوں کو بغیر سوچے سمجھے اپنانے، اور ’’نیا پن‘‘ اختیار کرنے ہی کو اپنی معراج تصور کرنے کا منطقی نتیجہ ہیں۔

نٸے تعلیمٕی نظام نے شاگرد پر توجہ کےلیے استاد کے پاس وقت ہی کہاں چھوڑا ہے؟ شاگرد وقت کی اس منجدھار میں اکیلا ہے۔ آج کل کے دور میں ایک عام شاگرد اپنی رہنماٸی کےلیے انٹرنیٹ کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔

تخلیقی عمل کےلیےانتہاٸی درجے کا سکون اور خاموشی درکار ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا اس سکوت کو بار بار توڑتا اور خلوت کو جلوت میں بدلتا رہتا ہے۔ انٹرنیٹ کے دورمیں کتاب بینی ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ علم کی خاطر مشقت اٹھانامشکل لگتا ہے۔

جدید تعلیمی نظام میں استاد اور شاگرد کا تعلق صرف خادم و مخدوم کا بن کر رہ گیا ہے۔ اساتذہ مصروف ضرور ہیں لیکن درس و تدریس میں نہیں بلکہ ادارے کے انتظامی امورمیں۔

تعلیم اور درس و تدریس انسانی فطرت کا بہترین سودا ہے۔ اگر اس عمل میں سے جذبات، ہمدردی، غم خواری یا پھر اکتساب میں پیچھے رہ جانے والے شاگردوں کےلیے (استاد کی جانب سے) خصوصی توجہ، استاد کا ادب واحترام، بہترین اخلاق اور اپنے کام میں امانت و دیانت نکال دیئے جائیں تو تعلیم کی غرض و غایت ہی بدل کر رہ جاتی ہے۔

میں سوچتی ہوں کہیں ایسا نہ ہوکہ اس روشن خیالی کے دور میں آگے بڑھنے کی لگن میں ہم اپنی روایات کو پیچھے نہ چھوڑدیں؛ کیونکہ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمارے معاشرے میں برابری اور اتحاد کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایک اچھا استاد، شاگرد کے ظاہر سے ہی نہیں بلکہ اس کے باطن سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کی پوری شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے اسے بنانے سنوارنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔

میں تو بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ تعلیم کے اس ’’جدید نظام‘‘ میں ہم صرف تعلیم کو داخل کرنے پر دھیان نہ رکھیں بلکہ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ اساتذہ کرام کوٸی خلاٸی مخلوق نہیں اور نہ ہی شاگرد کوٸی روبوٹ ہیں۔

علم تو ایک وجود کی دوسرے وجود سے، انفس و آفاق سے آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔

شاگر استاد سے سیکھتا ہے اور استاد اپنے شاگردوں سے؛ اور یہ بہاؤ، یہ تبادلہ و مبادلہ اسی طرح تمام عمر جاری رہتا ہے۔

میری اساتذہ کرام سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ شاگردوں کو اعتماد میں لیں، شاگرد کی کردار سازی میں، اس کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔

کبھی کسی طالب علم سے یہ نہ کہیے کہ تم یہ نہیں کرسکتے؛ آپ کے ایسا کہنے سے جو کچھ وہ کرسکتا ہے، اس کی کوشش بھی شاید وہ ترک کردے گا۔ اس لیے یہ یقین، یہ اعتماد ان کی روح میں پھونکیے کہ وہ کرسکتا ہے؛ اور وہ کرے گا۔

اپنے طلبہ کی شخصیت میں ایسا حیران کن اور مثبت انقلاب لاٸیے کہ وہ آپ کو کبھی بھلا نہ پاٸیں۔ اگر آپ اپنے تدریسی عمل سے، اپنے اخلاق سے، اپنی محنت سے چند ایک طلبہ کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لے آٸے تو یقین کیجیے کہ آپ نے اپنا حق ادا کردیا… آپ اپنے مقام پر پہنچ گٸے، اپنے مقصدِ حیات کی معراج کو پاگئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صبا ادریس

صبا ادریس

بلاگر فیصل آباد سے تعلق رکھتی ہیں اور فاٸن آرٹس میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ آج کل درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ مصوری میں کمال رکھتی ہیں اور کالج و ضلع کی سطح پر مصوری کٸی مقابلے جیت چکی ہیں۔ سماجی اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں بھی شریک رہتی ہیں۔ Art Plus By Saba کے نام سے اپنا یوٹیوب چینل بھی چلا رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔