سول بیوروکریٹس میں اعتماد کے فقدان کی وجوہات
عمران خان نے کافی حد تک مرض کی درست نشاندہی کی ہے اور اشاروں میں بات کی ہے
msuherwardy@gmail.com
BEIJING:
تحریک انصاف کی حکومت بن تو گئی ہے لیکن ابھی تک یہ حکومت مسائل سے نکلتی نظر نہیں آرہی حالانکہ اسے تمام اداروں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ اس کی بہت سی بنیادی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ملک کی سول بیوروکریسی میں اعتماد کا فقدان ہے۔ پاکستان کے نظام حکومت میں سول بیوروکریسی کو حکومت سازی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
کوئی بھی حکومت چاہے جمہوری ہو یا غیر جمہوری سول بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے سخت سے سخت مارشل لا حکومتوں نے بھی سول بیورکریسی کے ساتھ نہ صرف تعلقات خوشگوار رکھے بلکہ ان کے تعاون سے ہی حکومت کی۔ سول بیوکریسی کی بھی یہ اچھی بات ہے کہ یہ ہر حکومت سے تعاون کرتے ہیں اور کسی کی پارٹی نہیں بنتے۔ یہ بس اپنی ٹرانسفر پوسٹنگ کے چکر میں رہتے ہیں۔ اسی میں ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔
لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اس بار بیوروکریسی کا اس حکومت کے ساتھ تعاون نظر نہیں آرہا۔ اسی لیے عمران خان نے سنیئر ترین بیوروکریٹس کی ایک خصوصی تقریب سے خطاب کیا ہے۔ انھیں اعتماد اور حوصلہ دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جہاں تک میری چند سنیئر ترین بیوروکریٹس سے بات ہوئی ہے۔ حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ یہ گریڈ بیس اکیس بائیس کے سنیئر بیوروکریٹس کوئی عام آدمی نہیں ہیں کہ ایک اچھی تقریر سے متاثر ہو جائیں۔ یہ حالات اور عوامل دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس وقت بیوروکریسی جس قسم کی ذہنی صورتحال کا شکار ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے کافی حد تک مرض کی درست نشاندہی کی ہے اور اشاروں میں بات کی ہے کہ میں نے چیئرمین نیب سے کہا ہے کہ بے شک تحقیقات کریں لیکن بیوروکریٹس کی تذلیل نہ کی جائے۔ آپ اس فقرے کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کسی حد تک ملک کے اعلیٰ ترین منصب سے یہ اقرار ہے کہ ماضی میں کہیں نہ کہیں سنیئر ترین بیوروکریٹس کی تذلیل ہوئی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ تاثر موجود ہے کہ سول بیوروکریٹس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور زیادتی کے نتیجے میں اب ان میں اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ وہ دفتر تو آرہے ہیں لیکن بڑی بڑی فائلوں پر کام نہیں ہو رہا۔ ایک طرح سے جمود ہے۔ اسی لیے نئی نویلی حکومت بھی جمود کا شکار نظر آرہی ہے۔ شاید عمران خان کو اس کا حساس ہو گیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اداروں کا بے مثال تعاون حا صل ہے حالانکہ ماضی میں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ عدلیہ بھی ان سے تعاون کر رہی ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک سازگار ماحول بنایا جائے تا کہ حکومت چل سکے۔ اور تو اور چیئرمین نیب نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر لی ہے۔ حالانکہ اس ملاقات کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں لیکن شاید حالات ایسے تھے کہ اس ملاقات کی ضرورت تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک اپوزیشن نے بھی عمران خان سے بہت تعاون کیا ہے۔ پی پی پی تو بالکل عمران خان کی بی ٹیم بن گئی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب میں پی پی پی نے تحریک انصاف سے تعاون کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ن لیگ کو بھی ایک چپ لگ گئی ہے۔ ان کی زبان بندی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حکومت کی مضبوطی نظر نہیں آرہی بلکہ یہ تاثر بن رہا ہے کہ یہ ایک کمزور حکومت ہے اور اس کو سہاروں سے کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر غیر معمولی تعاون ایک بیساکھی اور سہارا لگ رہا ہے۔
ن لیگ کے اقتدار کے آخری ایام میں بیوروکریسی کو بے وجہ ٹارگٹ کیا گیا۔ جس طرح افسران کی انکوائریاں شروع ہوئیں اور ان کی پیشیاں ہوئیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جس طرح افسران کو پکڑا گیا اس کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ سب غلط تھا لیکن ایسا پہلا کبھی نہیں ہوا تھا۔ کہیں نہ کہیں پاکستان میں سول بیوروکریسی کو بھی مقدس گائے کی حیثیت حاصل تھی۔ سول بیوروکریٹس بھی خود کو ایک ادارہ ہی سمجھتے تھے۔ اس کی مقدس حیثیت کو پاش پاش کر دیا گیا۔ اب یہ سول بیوروکریٹس خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ ایسا ان کے ساتھ ستر سال میں نہیں ہوا۔ پاکستان کے نظام حکومت میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر کسی فائل پر دستخط نہیں کرتے۔ فائل پر فیصلہ کرنے کا اختیار بیوروکریٹس کے پاس ہے۔ وہی ٹینڈر پاس کرتے ہیں۔ حکومت مرضی کے بیوروکریٹس کو اچھی جگہ لے آتی تھی اور پھر حکومت چلائی جاتی تھی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کام نہیں ہو رہے، خوف کے سائے میں کام کیسے ممکن ہے۔
میری ایک نہیں کافی بیوروکریٹس سے بات ہوئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اب آپ بڑے فیصلے کریں گے، وہ کہتے ہیں نہ بھائی نہ، میری توبہ۔ کون بعد میں انکوائریاں بھگتے۔ایک سیکریٹری جو اس وقت بھی ایک اعلیٰ عہدہ پر قائم ہے سے میں نے پوچھا کہ کیسا چل رہا ہے۔ انھوں نے کہا بس فائلوں پر اعتراض لگا کر واپس بھیج رہا ہوں۔ میں نے کہا حکومت کچھ نہیں کہہ رہی۔کہنے لگے فون آیا تھا کہ فائلیں نکال دیں ۔ میں نے کہا بعد میں انکوائری کون بھگتے گا۔ کہنے لگے ہم بہت مضبوط ہیں۔ اب کوئی انکوائری نہیں ہوگی۔
میں نے کہا، پہلے بھی ایسے ہی کہتے تھے۔ بھائی میرے بھی بچے ہیں۔ جیل نہیں جا سکتا۔ میری توبہ۔ مجھے او ایس ڈی کردیں۔ ایک سنیئر ترین بیوروکریٹ سے میں نے پوچھا کیا ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا اس حکومت کی سب سے بڑی مشکل ترقیاتی منصوبے اور میگا منصوبے ہونگے۔ اس کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔ لیکن اب کوئی یہ کرنے کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انھوں نے مجھے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومت میں سارا زور اس بات پر تھا کہ منصوبے بر وقت ہی نہیں بلکہ وقت سے پہلے مکمل ہونے چاہیے۔ اس لیے ایک مثال لے لو۔ ایک منصوبے میں ٹھیکیدار سے یہ طے ہوا کہ منصوبہ جلد مکمل کرنا ہے۔ اس لیے تمھیں پانچ فیصد زیادہ دیا جائے گا۔ اب وہ بیوروکریٹ اس پانچ فیصد کی وجہ سے انکوائری بھگت رہا۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو نیلم جہلم سے لے کر پاکستان میں کوئی بھی میگا منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہوا ہے۔ جب منصوبہ ایک سال لیٹ ہو تو حکومتی قواعد کے تحت منصوبے کی لاگت میں دس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ قانونی ہے۔ اس پر کوئی انکوائری نہیں لیکن بروقت منصوبہ مکمل ہونے پر پانچ فیصد زیادہ لگ گئے۔ اس کی انکوائری ہورہی ہے۔
میں نے سمجھنے کے لیے ایک سمجھدار ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے رابطہ کیا۔ پوچھا باباجی کیا غلط ہو گیا۔ اس نے کہا پہلے آڈٹ پیرے بن جاتے تھے۔ وہ آڈٹ پیرے محکمے کی سطح پر حل ہوتے رہتے تھے۔ اگر نہ ہو سکتے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں چلے جاتے۔ وہاں بھی حل ہوجاتے۔گرفتاریاں تو کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ میں نے کہا، سمجھ نہیں آئی، اس نے کہا سادہ زبان میں سمجھ لو۔ جس طرح فوج میں احتساب کا اپنا نظام ہے۔ عدلیہ کا بھی اپنا احتساب کا نظام ہے۔ اسی طرح بیوروکریٹس کا بھی اپنا احتساب کا نظام تھا۔ اب ان پر نیب آ گئی ہے۔
اس لیے سب خوفزدہ ہیں۔ سب ڈر گئے ہیں۔ میں نے کہا، عمران خان نے یقین دلا یا ہے کہ اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس نے کہا ہم بیوروکریٹس نہ جلدی ڈرتے ہیں اور اگر ڈر جائیں تو جلدی ڈر اتارتے نہیں۔ اس میں بہت وقت لگے گا۔ ایک تقریر سے نہیں اترے گا۔ اعتماد برسوں میں قائم ہوتا ہے اور لمحوں میں چلا جاتا ہے۔ برسوں کا اعتماد لمحوں میں چلا گیا ہے۔ اب دوبارہ قائم ہونے میں وقت تو لگے گا۔کیا بیک جنبش قلم انکوائریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اعتماد بھی ایک تقریر سے نہیں آسکتا۔ ہاں اگر قانون بنا کر نیب سے سب انکوائریاں ختم کر دی جائیں تو کچھ ہو سکتا۔ ورنہ نہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت بن تو گئی ہے لیکن ابھی تک یہ حکومت مسائل سے نکلتی نظر نہیں آرہی حالانکہ اسے تمام اداروں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ اس کی بہت سی بنیادی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ملک کی سول بیوروکریسی میں اعتماد کا فقدان ہے۔ پاکستان کے نظام حکومت میں سول بیوروکریسی کو حکومت سازی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
کوئی بھی حکومت چاہے جمہوری ہو یا غیر جمہوری سول بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے سخت سے سخت مارشل لا حکومتوں نے بھی سول بیورکریسی کے ساتھ نہ صرف تعلقات خوشگوار رکھے بلکہ ان کے تعاون سے ہی حکومت کی۔ سول بیوکریسی کی بھی یہ اچھی بات ہے کہ یہ ہر حکومت سے تعاون کرتے ہیں اور کسی کی پارٹی نہیں بنتے۔ یہ بس اپنی ٹرانسفر پوسٹنگ کے چکر میں رہتے ہیں۔ اسی میں ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔
لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اس بار بیوروکریسی کا اس حکومت کے ساتھ تعاون نظر نہیں آرہا۔ اسی لیے عمران خان نے سنیئر ترین بیوروکریٹس کی ایک خصوصی تقریب سے خطاب کیا ہے۔ انھیں اعتماد اور حوصلہ دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جہاں تک میری چند سنیئر ترین بیوروکریٹس سے بات ہوئی ہے۔ حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ یہ گریڈ بیس اکیس بائیس کے سنیئر بیوروکریٹس کوئی عام آدمی نہیں ہیں کہ ایک اچھی تقریر سے متاثر ہو جائیں۔ یہ حالات اور عوامل دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس وقت بیوروکریسی جس قسم کی ذہنی صورتحال کا شکار ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے کافی حد تک مرض کی درست نشاندہی کی ہے اور اشاروں میں بات کی ہے کہ میں نے چیئرمین نیب سے کہا ہے کہ بے شک تحقیقات کریں لیکن بیوروکریٹس کی تذلیل نہ کی جائے۔ آپ اس فقرے کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کسی حد تک ملک کے اعلیٰ ترین منصب سے یہ اقرار ہے کہ ماضی میں کہیں نہ کہیں سنیئر ترین بیوروکریٹس کی تذلیل ہوئی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ تاثر موجود ہے کہ سول بیوروکریٹس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور زیادتی کے نتیجے میں اب ان میں اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ وہ دفتر تو آرہے ہیں لیکن بڑی بڑی فائلوں پر کام نہیں ہو رہا۔ ایک طرح سے جمود ہے۔ اسی لیے نئی نویلی حکومت بھی جمود کا شکار نظر آرہی ہے۔ شاید عمران خان کو اس کا حساس ہو گیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اداروں کا بے مثال تعاون حا صل ہے حالانکہ ماضی میں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ عدلیہ بھی ان سے تعاون کر رہی ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک سازگار ماحول بنایا جائے تا کہ حکومت چل سکے۔ اور تو اور چیئرمین نیب نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کر لی ہے۔ حالانکہ اس ملاقات کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں لیکن شاید حالات ایسے تھے کہ اس ملاقات کی ضرورت تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک اپوزیشن نے بھی عمران خان سے بہت تعاون کیا ہے۔ پی پی پی تو بالکل عمران خان کی بی ٹیم بن گئی ہے۔ جس طرح وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب میں پی پی پی نے تحریک انصاف سے تعاون کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ن لیگ کو بھی ایک چپ لگ گئی ہے۔ ان کی زبان بندی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حکومت کی مضبوطی نظر نہیں آرہی بلکہ یہ تاثر بن رہا ہے کہ یہ ایک کمزور حکومت ہے اور اس کو سہاروں سے کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر غیر معمولی تعاون ایک بیساکھی اور سہارا لگ رہا ہے۔
ن لیگ کے اقتدار کے آخری ایام میں بیوروکریسی کو بے وجہ ٹارگٹ کیا گیا۔ جس طرح افسران کی انکوائریاں شروع ہوئیں اور ان کی پیشیاں ہوئیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جس طرح افسران کو پکڑا گیا اس کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ سب غلط تھا لیکن ایسا پہلا کبھی نہیں ہوا تھا۔ کہیں نہ کہیں پاکستان میں سول بیوروکریسی کو بھی مقدس گائے کی حیثیت حاصل تھی۔ سول بیوروکریٹس بھی خود کو ایک ادارہ ہی سمجھتے تھے۔ اس کی مقدس حیثیت کو پاش پاش کر دیا گیا۔ اب یہ سول بیوروکریٹس خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ ایسا ان کے ساتھ ستر سال میں نہیں ہوا۔ پاکستان کے نظام حکومت میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر کسی فائل پر دستخط نہیں کرتے۔ فائل پر فیصلہ کرنے کا اختیار بیوروکریٹس کے پاس ہے۔ وہی ٹینڈر پاس کرتے ہیں۔ حکومت مرضی کے بیوروکریٹس کو اچھی جگہ لے آتی تھی اور پھر حکومت چلائی جاتی تھی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کام نہیں ہو رہے، خوف کے سائے میں کام کیسے ممکن ہے۔
میری ایک نہیں کافی بیوروکریٹس سے بات ہوئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اب آپ بڑے فیصلے کریں گے، وہ کہتے ہیں نہ بھائی نہ، میری توبہ۔ کون بعد میں انکوائریاں بھگتے۔ایک سیکریٹری جو اس وقت بھی ایک اعلیٰ عہدہ پر قائم ہے سے میں نے پوچھا کہ کیسا چل رہا ہے۔ انھوں نے کہا بس فائلوں پر اعتراض لگا کر واپس بھیج رہا ہوں۔ میں نے کہا حکومت کچھ نہیں کہہ رہی۔کہنے لگے فون آیا تھا کہ فائلیں نکال دیں ۔ میں نے کہا بعد میں انکوائری کون بھگتے گا۔ کہنے لگے ہم بہت مضبوط ہیں۔ اب کوئی انکوائری نہیں ہوگی۔
میں نے کہا، پہلے بھی ایسے ہی کہتے تھے۔ بھائی میرے بھی بچے ہیں۔ جیل نہیں جا سکتا۔ میری توبہ۔ مجھے او ایس ڈی کردیں۔ ایک سنیئر ترین بیوروکریٹ سے میں نے پوچھا کیا ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا اس حکومت کی سب سے بڑی مشکل ترقیاتی منصوبے اور میگا منصوبے ہونگے۔ اس کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔ لیکن اب کوئی یہ کرنے کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انھوں نے مجھے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومت میں سارا زور اس بات پر تھا کہ منصوبے بر وقت ہی نہیں بلکہ وقت سے پہلے مکمل ہونے چاہیے۔ اس لیے ایک مثال لے لو۔ ایک منصوبے میں ٹھیکیدار سے یہ طے ہوا کہ منصوبہ جلد مکمل کرنا ہے۔ اس لیے تمھیں پانچ فیصد زیادہ دیا جائے گا۔ اب وہ بیوروکریٹ اس پانچ فیصد کی وجہ سے انکوائری بھگت رہا۔ لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو نیلم جہلم سے لے کر پاکستان میں کوئی بھی میگا منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہوا ہے۔ جب منصوبہ ایک سال لیٹ ہو تو حکومتی قواعد کے تحت منصوبے کی لاگت میں دس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ قانونی ہے۔ اس پر کوئی انکوائری نہیں لیکن بروقت منصوبہ مکمل ہونے پر پانچ فیصد زیادہ لگ گئے۔ اس کی انکوائری ہورہی ہے۔
میں نے سمجھنے کے لیے ایک سمجھدار ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے رابطہ کیا۔ پوچھا باباجی کیا غلط ہو گیا۔ اس نے کہا پہلے آڈٹ پیرے بن جاتے تھے۔ وہ آڈٹ پیرے محکمے کی سطح پر حل ہوتے رہتے تھے۔ اگر نہ ہو سکتے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں چلے جاتے۔ وہاں بھی حل ہوجاتے۔گرفتاریاں تو کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ میں نے کہا، سمجھ نہیں آئی، اس نے کہا سادہ زبان میں سمجھ لو۔ جس طرح فوج میں احتساب کا اپنا نظام ہے۔ عدلیہ کا بھی اپنا احتساب کا نظام ہے۔ اسی طرح بیوروکریٹس کا بھی اپنا احتساب کا نظام تھا۔ اب ان پر نیب آ گئی ہے۔
اس لیے سب خوفزدہ ہیں۔ سب ڈر گئے ہیں۔ میں نے کہا، عمران خان نے یقین دلا یا ہے کہ اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس نے کہا ہم بیوروکریٹس نہ جلدی ڈرتے ہیں اور اگر ڈر جائیں تو جلدی ڈر اتارتے نہیں۔ اس میں بہت وقت لگے گا۔ ایک تقریر سے نہیں اترے گا۔ اعتماد برسوں میں قائم ہوتا ہے اور لمحوں میں چلا جاتا ہے۔ برسوں کا اعتماد لمحوں میں چلا گیا ہے۔ اب دوبارہ قائم ہونے میں وقت تو لگے گا۔کیا بیک جنبش قلم انکوائریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اعتماد بھی ایک تقریر سے نہیں آسکتا۔ ہاں اگر قانون بنا کر نیب سے سب انکوائریاں ختم کر دی جائیں تو کچھ ہو سکتا۔ ورنہ نہیں۔