چیئرمین نیب جسٹس ر جاوید اقبال پر ایک نظر

نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بلا شبہ نیب کو نئی جدت دی ہے

msuherwardy@gmail.com

میاں نواز شریف کی ضمانت نے ایک مرتبہ پھر نیب کو شہ سرخیوں میں پھنسا دیا ہے۔ حالانکہ نیب کا کام جس قدر خاموش اور تیز ہو گا اتنا ہی ملک کا فائدہ ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کے کیس نے نیب کو فائدہ دینے کے بجائے نقصان ہی دیا ہے۔ایک عمومی تاثر یہ بن گیا ہے کہ نیب میاں نواز شریف کے خلاف کیس لڑنے کے سوا کوئی کام کر ہی نہیں رہا۔ حالانکہ اگر نیب کے کام کو غور سے دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کے کیس کی اس میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ ہم نیب کی کارکردگی کو بھی اب نواز شریف کی کیس کی پیشرفت سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ اس ضمن میں نیب کے باقی سارے کام نظر انداز کر دیتے ہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نیب کے اس وقت 1200سے زائد ریفرنس پاکستان کی مختلف احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ یہ کوئی معمولی ریفرنس نہیں ہیں بلکہ ان کی مالیت 900 ارب سے زائد ہے۔ یہ کوئی معمولی رقم ہے۔ لیکن ان ریفرنس میں قابل قدر پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔ نیب کی کوشش ہے کہ یہ تمام ریفرنس بھی نواز شریف کے ریفرنس کی اسپیڈ سے ہی چلیں۔ اور ان کے فیصلے بھی جلد آئیں۔ اس کوشش میں چیئرمین نیب نے ان تمام ریفرنس میں فوری اور جلد سماعت کی درخواستیں دائر کر کے گیند کو عدلیہ کی کورٹ میں پھینک دیا ہے۔

میری چیف جسٹس پاکستان سے درخواست ہے کہ ان تمام درخواستوں کی بنیاد پر ایک سو موٹو لے کر ان تمام ریفرنس کے چھ ماہ میں فیصلے کرنے کے لیے احتساب عدالتوں کو احکامات جاری کریں۔ صرف اس صورت ملک میں کرپشن کے خلاف جنگ میں کوئی قابل قدر کامیابی ممکن ہے۔ ملک میں کرپشن کے خلاف اگر کسی مہم نے کامیاب ہونا ہے تو احتساب عدالتوں کو نیب کے شانہ بشانہ دن رات کام کرنا ہوگا۔ نیب اور احتساب عدالتوں کو یکساں اسپیڈ سے کام کرنا ہوگا۔ ایک کی رفتار بھی کم ہو گی تو کام نہیں ہوگا بلکہ معاملات پھنس جائیں گے۔ احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھانے اور ان میں دن رات کام کی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔

نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بلا شبہ نیب کو نئی جدت دی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے جسٹس جاوید اقبال سے پہلے نیب کا کام کوئی قابل قدر نہیں تھا۔ نیب میں انکوائریوں کو سرد خانہ میں ڈالنے کا ایک رواج تھا۔ انکوائریوں کے کئی کئی سال زیر التوا رہنے سے نہ صرف شکوک و شبہات پیدا ہوئے بلکہ لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا بھی موقع ملا۔لوگ سوال کرتے تھے کہ فلاں انکوائری کیوں اتنے سال سے زیر التوا ہے اور میرے کیس میں اسپیڈ اتنی تیز کیوں ہے۔ پھر کہانیاں بنتی تھیں کس کی انکوائری کس کے اشارے پر زیر التوا ہے۔ اور کس کے کیس کو کس کے کہنے پر اسپیڈ لگ گئی ہے تاہم جسٹس جاوید اقبال نے منصب سنبھالنے کے بعد اس ضمن میں بہت کام کیا ہے۔ کئی کئی سال سے زیر التوا انکوائریوں کو مکمل کیا ہے۔ بند فائلوں میں پڑے کیس کھولے۔ میگا سکینڈلز کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ بڑے بڑے لوگوں کو نیب کے شکنجہ میں لائے۔ جس سے نیب کے کام میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ نیب کے عوامی امیج میں بھی بہتری آئی ہے۔انکوائریوں کو مکمل کرنے کا ٹائم فریم طے کیا ہے۔ تفتیشی افسران کو اس ٹائم فریم کا جوابدہ بنایا گیا ہے۔


جسٹس جاوید اقبال کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کام کی تشہیر نہیں کرتے۔ اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کرتے۔ آج کل ملک میں پروٹوکول لینے اور نہ لینے کا بہت شور ہے۔ حکومتی لوگ پروٹوکول نہ لینے کا ڈھول بجا رہے ہیں۔ لیکن شائد کسی کو علم ہی نہیں کہ جسٹس جاوید اقبال نے اس حکومت کے آنے سے پہلے گزشتہ دور حکومت میں ہی چیئرمین نیب کا منصب سنبھالنے کے بعد ہی پروٹوکول نہ لینے کا حکم دے دیا تھا۔ اس لیے ان کے حکم کے بعد ان کا پروٹوکول ختم کر دیا گیا تھا۔ وہ عام آدمی کی طرح دفتر آتے جاتے ہیں اور دیگر اداروں کے سربراہوں کی طرح اپنی کارکردگی کی تشہیر پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ کسی کو انٹرویو نہیں دیتے۔کسی کو ملتے نہیں۔ انھیں نمبر بنانے کا کوئی شوق نہیں۔

آج کل چائے بسکٹ کا بھی بہت شور ہے۔ بہت ڈھول بجایا جا رہا ہے کہ حکومت نے سادگی مہم کے تحت چائے کے ساتھ بسکٹ کی پالیسی شروع کر دی ہے۔ میں نے جب اس ضمن میں نیب میں حالات جاننے کی کوشش کی تو میں حیران ہو گیا کہ اکتوبر 2017ء کے بعد جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نیب میں سرکاری چائے بسکٹ پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ حتیٰ کہ سرکاری میٹنگ میں بھی چائے بسکٹ کا بل افسران خود ادا کرتے ہیں۔ نیب میں سرکاری خرچ پرکسی قسم کی چائے کھانے پینے کی اجازت نہیں۔ بیچارے افسران سب کچھ اپنی جیب سے کرنے پابند ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چیئرمین نیب گھر سے کھا کر آتے ہیں اور گھر جا کر کھاتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے چلنے والے بورڈ اجلاسوں میں افسران اپنی جیب سے چائے سینڈ وچ کھاتے ہیں۔

یہ سب گزشتہ حکومت میں ہو گیا تھا۔ لیکن کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی۔ بیچارے نیب افسران تو شرمندگی سے نہیں بتاتے کہ انھیں چائے کا بل بھی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جسٹس جاوید اقبال نے منصب سنبھالنے کے بعد نیب کے تمام افسران سے زائد گاڑیاں واپس لے لی تھیں۔ اب کسی بھی افسر کے پا س کوئی زائد گاڑی نہیں ہے۔ ان سے پہلے زائد گاڑیاں رکھنے کا رواج موجود ہے۔ لیکن انھوں نے آنے کے بعد نہ صرف تمام زائد گاڑیاں واپس لیں بلکہ سرکاری گاڑیوں کی اخراجات بھی محدود کر دیے۔ گاڑیوں کے پٹرول ا ور مرمت کے اخراجات بھی محدود کر دیے گئے ہیں۔ کفایت شعاری کی یہ مہم کسی تشہیر کے بغیر شروع ہوئی اور جاری ہے۔

ایک دوست سے پوچھا کہ چئیرمین نیب کے یہ کفایت شعاری مہم ان کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ کے طور پر انھوں نے حکومت پاکستان سے لاکھوں روپے معاوضہ وصول کیا۔ دوست نے کہا شائد کسی کو معلوم ہی نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے ملنے والامعاوضہ61لاکھ روپے لینے سے انکار کرتے ہوئے قومی خزانے میں واپس جمع کرا دیے تھے۔ اسی طرح لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بننے والے کمیشن کے سربراہ کے طورپر بھی انھوں نے کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا۔ وہ اپنی تنخواہ کے سوا کوئی معاوضہ وصول کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔

چیئرمین نیب سے ملنے کے لیے بھی ایک شفاف طریقہ کار طے ہے۔ آپ چئیرمین نیب سے براہ راست مل کر کرپشن کی کوئی شکایت کرنا چاہتے ہیں۔تو اس کے لیے آپ نیب کے ہیڈ کوارٹر میں اپنا نام اور شکایت کی تفصیل لکھوا دیں۔ آپ کو ایک نمبر مل جائے گا۔ اور آپ کی باری آنے پر آپ کو مطلع کیا جائے گاکہ آپ ملنے آجائیں۔ میں نے پوچھا کہ سفارش ہو تو پہلے مل لیتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ممکن ہی نہیں۔ ایک با اثر صحافی نے اس ضمن میں ملنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے صاف انکار کر دیا گیا۔ اسے بتا دیا گیا کہ بڑے نام کی وجہ سے لائن نہیں ٹوٹ سکتی جنہوں نے پہلے نام لکھوایا ہے ان کی پہلے ملاقات ہوگی۔ اس ضمن میں کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔ وہ صحافی آج کل نیب سے بہت ناراض پھر رہے ہیں۔
Load Next Story