بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں

طارق محمود میاں  جمعرات 6 جون 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

گزشتہ فرصت کے لمحوں میں ایک فلم میرے پلے پڑ گئی۔ میری سخت جانی کہ میں نے اسے آخر تک دیکھا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ فضول وقت ضایع کیا، اتنے بہت سارے کمینے ایک گاؤں میں ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔۔ اور پھر ساتھ ہی بساط سیاست پر خیالی مہرے سجانے والوں پر نظر پڑی۔ سارا منظر بدل چکا۔ پانسہ پلٹ چکا۔ زخموں پر چھڑکے جانے والی مرچوں اور نمک کی جگہ آسودہ کرنے والی مرہم نے لے لی ہے اور جس نشتر سے کچوکے لگائے جا رہے تھے وہ اب مکھن چپڑنے کا کام دے رہا ہے۔ لو ہم پورے گاؤں میں ڈھونڈ رہے تھے، وہ تو اس سے بھی چھوٹی جگہ میں مل گئے۔

عجب تبدیلی ہے کہ اس کی رفتار دیکھ کے حیرت زدہ ہوں۔ پہاڑ جیسے موقف پل بھر میں ٹائیں ٹائیں فش ہو گئے۔ کیا یہ ایک تماشا گاہ تھی جس میں حظ اٹھانے کو کرایے پر آفاقی تصورات تراشے گئے۔ کسی نے جمہوریت کے درے لگانا شروع کر دیے تو کسی نے رال ٹپکا کے سوال پوچھا یار! یہ امریکی لوگ اپنا صدر تو صرف دو لوگوں میں سے منتخب کرتے ہیں لیکن مس امریکا کا انتخاب 500 عفیفاؤں میں سے کرتے ہیں۔ بس ثابت ہوا کہ ہمارا الیکشن پراسس نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ اور ہاں مردوں کی صوابدید پر چن لی جانے والی خواتین کیا ہیں؟ صنف محترم کا ضمیر یا مصر کا بازار؟ رسوا ہونے والے ڈکٹیٹر کے شوق بھی کیسے کیسے تھے۔ آنے والوں کا ذوق بھی راسخ ہوا۔ اس حمام میں بہت بڑے بڑے، اعلیٰ کوالٹی کے پارسا بھی بے لباس ہیں۔ ان کی پسندیدگی خواتین کی نمایندگی ٹھہری۔

آج کا قاری بہت ظالم قسم کا نقاد ہے۔ فوراً ہی بال کی کھال اتار لیتا ہے۔ سو پردوں کے پیچھے یا پچاس گز لمبے تھان میں لپیٹ کے بات کہی گئی ہو اس کے عقب میں رکھا ہوا لفافہ اسے پھر بھی صاف نظر آ جاتا ہے۔ ہوا کے رخ کے ساتھ یا سر کی شدید دھمک کے باعث جو لوگ ایک دم سے بدل گئے ہیں ان کے ساتھ قاری کو کوئی ہمدردی نہیں۔ ویسے بھی یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ ایک بالکل ہی دوسرا رخ دکھانے والے سارے لکھاری اور دکھاری یکایک فلسفی ہو گئے ہیں۔ کچھ اللہ لوک ہو گئے اور کچھ سیاست سے بے زار۔ اب یہ انھیں دنیا کی سب سے واہیات چیز دکھائی دیتی ہے۔ یہی حالت رہی تو انھیں ڈسکو ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان میں سے بہت سوں کو امریکا کی امیگریشن کا انتظار ہے۔ کام بن گیا تو ٹھیک ورنہ بہت جلد انھیں نواز شریف کی قیادت میں بلا کا ولولہ دکھائی دینے لگے گا۔

بس جان لو کہ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ باقیوں نے تو فقط جھک ماری ہے انھوں نے اک عمر گنوا دی پر سرفرازی کے اس ہنر سے آشنا نہ ہوئے۔

دھئیں جوائی لے گئیں‘ بہوئیں لے گئیں پوت

کہے منوہر جانگلی‘ ہم رہے اوت کے اوت

جمہوریت پر تبصرہ بازی کے جو چیمپئن الیکشن سے قبل خود رو گھاس اور کھمبیوں کی طرح نمودار ہوئے تھے ان کے سالار اول علامہ قادری تھے۔ سب مکھیوں کی طرح ان کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ یکایک پوری سیاسی فضا میں ایک بھونچال آ گیا تھا۔ ایسے غضب کے گماشتے سامنے آئے کہ انھوں نے تربوز جتنے سائز کا منہ کھول کے بے چاری جمہوریت کی شان میں گستاخیاں کیں۔ ان کے تھوک اور چیخ سے ٹی وی کی اسکرین چٹخ گئی۔ لوگ حیران تھے کہ یہ ایک دم سے کیا ہو گیا ہے۔

اس فلم کا ہدایت کار کون تھا اور کہاں تھا یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ بس یہ ہوا کہ بہت سے بھینسے ایک ساتھ کھول دیے گئے۔ سالار اول کو ارشادات کی جگالی کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا اور ہر طرف یہی منادی ہوئی کہ اب الیکشن گئے۔ دور دور تک ان کا کوئی امکان نہیں۔ نہ حالات موافق ہیں اور نہ ہی اجازت ملے گی۔ وہ تو بھلا ہو انصاف کے مرکز کا کہ اس نے ایک منٹ میں ان کا سوئچ آف کر دیا۔ ورنہ یوں لگتا تھا کہ ایک بار پھر ’’پہلے احتساب‘‘ والا ٹولا جمہوریت کو ذبح کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایسا ہو جاتا تو انھوں نے اسی پر بس نہیں کرنا تھا۔ انھوں نے جمہوریت کے تیز مرچوں والے گولہ کباب بنا کے کھا جانے تھے۔

اسی طرح یاد کیجیے سرائیکی صوبے کا غلغلہ۔ رانجھا رانجھا کرتے سبھی رانجھا ہو گئے تھے۔ کیسے وقت میں کیسا مسئلہ اٹھا دیا گیا تھا۔ نئے صوبوں کی تخلیق کے ایشو نے یوں سر ابھارا تھا جیسے ملک کے ہر ذی روح کی اولین ترجیح یہی ہے۔ اسے سانس لینے کو آکسیجن نہیں نیا صوبہ چاہیے۔ پیٹ بھرنے کو اناج، پہننے کو کپڑا لتا، وقت ضایع کرنے کے لیے فیس بک، چٹکیاں لینے کے لیے ٹوئیٹر، روح کی آبیاری کے لیے کتاب، نظر بھر کے دیکھنے کو کوئی حسین چہرہ، کانوں میں رس گھولتی شہنائی، شہباز شریف سے وصول کیا ہوا لیپ ٹاپ، شادی کے لیے بیوی، بیوی کے لیے شوہر، ہر مہینے زور سے چیخ مارنے کے لیے بجلی کا بل، رات کو سونے کے لیے نیند کی گولی ، کبھی پھول اور کبھی زہر کو دیکھ کے یاد آنے والی مصطفی زیدی کی شاعری، تیر کی مانند اوپر کو جاتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ، شیر کی طرح دھاڑتی ہوئی لوڈشیڈنگ، بلے سے پھینٹی لگاتی ہوئی مہنگائی، بندگی بندگی پکارتی زندگی اور زندگی زندگی پکارتی بندگی۔۔۔۔۔۔انھیں اس میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے تھا۔ بس اول و آخر صوبہ ہی صوبہ۔

میں نے ایک بار سرائیکی صوبے کے بارے میں لکھا تھا کہ زمین پر اس کے مطالبے کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صرف ہوا میں ہے۔ اس کے گنے چنے حامی الیکشن لڑ کے دیکھ لیں، ان کا وہی حشر ہو گا جو سندھ میں قوم پرستوں کا ہوتا ہے۔ یہ وہی حشر ہے جو گیلانی خاندان کا اور پیپلز پارٹی کا ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے ان کے ساتھ ساتھ اس صوبے کے مطالبے کو بھی اکھاڑ پھینکا ہے۔ وہ سنجیدگی اور شرارت میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ یہ شرارت جن لوگوں نے شروع کی تھی وہ آج کل ادھر ادھر سرک گئے ہیں۔ تیل دیکھیں گے، تیل کی دھار دیکھیں گے اور پھر ایک بدلے ہوئے روپ میں دکھائی دیں گے۔

نئی حکومت پورے پانچ برس کے لیے قدم جماتی ہوئی نظر آئی تو ماہر کاسہ لیسوں کا ایک دلچسپ گروہ دکھائی دے گا۔ ان میں جمہوریت کی ٹھکائی لگانے والے بھی ہوں گے، احتساب والے بھی، صوبوں والے بھی، بنگلہ دیش ماڈل والے بھی، قومیت والے بھی، علم نجوم والے بھی اور چک شہزاد والے بھی۔ یہ سب شرماتے شرماتے تشریف لائیں گے اور ہر ایک کے ہاتھ میں اس تالیف قلب کو حلال ثابت کرنے کے لیے اپنے کسی پرانے بیان یا کسی تحریر کا ایک ٹکڑا ہو گا۔۔۔۔۔اور ہاں ان میں وہ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے کپتان میں ولی تو تلاش کر ہی لیا تھا اور اب اس سے آگے کی لگن تھی۔۔۔۔۔لیکن آج کا قاری بڑا ظالم ہے۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔