کیا پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ ختم کردیں؟

سلیم خالق  اتوار 14 اکتوبر 2018
اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ میں بہت پیچھے جا رہے ہیں تو سلیکشن و دیگر عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔فوٹو: فائل

اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ میں بہت پیچھے جا رہے ہیں تو سلیکشن و دیگر عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔فوٹو: فائل

’’ٹیسٹ کرکٹ کا کوئی مستقبل نہیں، اسے ختم کر دینا چاہیے‘‘ سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔

شائقین کرکٹ اسی پر بحث کرنے لگے، بیشتر لوگ عاقب کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، ان دنوں پاکستان کا آسٹریلیا سے دبئی ٹیسٹ جاری تھا،دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پانچویں دن میچ انتہائی سنسنی خیز ہو گیا اور مہمان ٹیم نے تقریباً یقینی نظر آنے والی شکست کو پرے دکھیل دیا، اس کے بعد تو جیسے تمام توپوں کا رخ عاقب جاوید کی طرف ہو گیا کہ دیکھیں جی وہ کہہ رہے تھے کہ ٹیسٹ کرکٹ بند کر دیں اور یہاں اتنے اچھے میچز ہو رہے ہیں، میں نے بھی یہی سوچا کہ عاقب بھائی نے کراچی (اسپورٹس رپورٹر) پاکستان ہاکی فیڈریشن پر اکاؤنٹس میں خردبرد کا الزام لگنے کے بعد نیب نے تحقیقات شروع کردیں۔

ذرائع کے مطابق لاہور میں نیب نے کمپلینٹ نمبر 3896/18 پر فیڈریشن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، درخواست میں کہا گیاکہ پی ایچ ایف کے الیکشن نہ کرانے کے سبب موجودہ عہدیداران کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، مزید برآں الزام عائد کیا گیاکہ فیڈریشن کے اکاؤنٹس کی تفصیلات جانچنے کیلیے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں، موجودہ فیڈریشن نے آڈٹ رپورٹ کبھی کانگریس کے سامنے پیش نہیں کی۔

ذرائع کے مطابق نیب نے الزامات پر پی ایچ ایف سے جواب طلب کرلیا ہے۔کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو کر ایسا بیان دے دیا تھا، پھرجب دبئی ٹیسٹ کے مناظر دوبارہ یاد کیے تو یہی خیال آیا کہ کم از کم وہاں تو ٹیسٹ میچز واقعی ختم کر دینے چاہئیں یا کچھ تو حکمت عملی بنانا ہوگی، پورے میچ میں مفت انٹری کے باوجود اسٹیڈیم شائقین کی راہ تکتا رہا، خالی کرسیاں پلیئرز کو منہ چڑاتی رہیں اور وہ خود ہی تالیاں بجا کر ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے پر مجبور تھے، بدقسمتی سے اب ہمارے بورڈ کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں، جب سے پی ایس ایل آئی صرف وہی توجہ کا مرکز اور باقی کرکٹ محض رسمی کارروائی پوری کرنے کیلیے ہوتی ہے۔

دیکھتے ہیں نئے چیئرمین احسان مانی کیا کرتے ہیں ورنہ نجم سیٹھی کا بس چلتا تو وہ بس پی ایس ایل ہی کراتے، یہ ٹھیک ہے کہ ٹیسٹ میں شائقین کی دلچسپی کم ہوئی ہے مگر کیا انھیں راغب کرنے کیلیے ہم نے بھی کچھ اقدامات کیے ؟

پورا میچ ورکنگ ڈے اور سخت گرمی میں شیڈول کر کے ہم توقع کر رہے تھے کہ لوگ اسٹیڈیم آ کر تالیاں بجائیں گے، یہ تو احمقانہ بات ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ اسٹیڈیم مکمل بھر جائے گا لیکن مناسب حکمت عملی اپنائیں تو پانچ، دس ہزار لوگ تو آ ہی سکتے ہیں، ایسا شیڈول بنائیں کہ ویک اینڈ پر چوتھے یا پانچویں دن کا میچ ہو ، نائٹ ٹیسٹ زیادہ کرائیں تاکہ لوگ اپنے کام نمٹا کر آ سکیں، انھیں مختلف انعامات کی ترغیب دیں، کھیل ختم ہونے پر کھلاڑیوں سے ملاقات کا موقع فراہم کریں۔

ایسے بے تحاشا اقدامات ہیں جس سے شائقین کو متوجہ کیا جا سکتا ہے مگر افسوس کہ بورڈ کچھ سوچ ہی نہیں رہا، آج عاقب تو کل کوئی اور سابق کرکٹر بھی اٹھ کر کہہ دے گا کہ ٹیسٹ کرکٹ ختم کرو، اگر قومی ٹیم کے موجودہ کرکٹرز کو بھی آپشن دیا جائے تو آدھے سے زیادہ ٹیسٹ کو چھوڑنے کیلیے تیار ہوں گے، سب کی ترجیح کم وقت میں ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، اسی لیے ہماری کارکردگی زوال پذیر ہے، جو ٹیم کبھی نمبر ون ہوا کرتی تھی اب ساتویں درجے پر پہنچ چکی ہے، ہمارا کوئی بیٹسمین یا بولر ٹاپ10میں بھی شامل نہیں، کیا ہم کرکٹ میں اتنے پیچھے چلے گئے ہیں؟

رواں برس لارڈز میں انگلینڈ کیخلاف فتح نے بہتری کی کچھ آس دلائی مگر لیڈز کے اگلے ہی میچ میں اننگز سے بدترین شکست نے خوش فہمی ہوا میں اڑا دی، سال کا دسواں مہینہ جاری اور مجموعی طور پر ہم نے چار ٹیسٹ کھیلے ہیں، اس سے بورڈ کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ برس6 ٹیسٹ کھیلے، ان میں سے صرف 2 جیتے اور چار میں شکست ہوئی، پورے سال 2 ہوم ٹیسٹ پاکستانی شیڈول کا حصہ تھے،ہمیں سری لنکا جیسی ٹیم سے ابوظبی اور دبئی دونوں وینیوز پر شکست ہوئی۔

اس سے قبل2016میں پاکستان نے انگلینڈ، یو اے ای، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں مجموعی طور پر 11 ٹیسٹ کھیلے تھے، ان میں سے صرف چار جیتے اور سات میں شکست ہوئی، یوں یہ جواز کہ کم میچز سے کارکردگی متاثر ہو رہی ہے یہ بھی مکمل ٹھیک نہیں لگتا، ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ٹیسٹ کرکٹ پر کھلاڑیوں اور بورڈ کی اتنی توجہ نہیں جتنی ہونی چاہیے، سب چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل سے پیسہ بنایا جائے۔

المیہ یہ ہے کہ سلیکشن کا معیار بھی اب لیگ میں ہی کارکردگی بن چکی، گزشتہ برس شرجیل خان،محمد عباس، شاداب خان، حسن علی، حارث سہیل اور محمد عباس کا ٹیسٹ ڈیبیو ہوا، ان میں سے عباس نے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارم کیا تھا اور ٹیسٹ میں بھی ان کا کھیل سب کے سامنے ہے، رواں برس امام الحق، فہیم اشرف، عثمان صلاح الدین اور بلال آصف کو ٹیسٹ کیپس ملیں، گوکہ ان میں سے بعض ڈومیسٹک کرکٹ کے عمدہ پرفارمرز بھی تھے مگر کئی نام ایسے ہیں جو فرسٹ کلاس کا زیادہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود فاسٹ ٹریک سے ٹیسٹ کھیل گئے۔

گزشتہ سیزن کے بولرز کی فہرست میں فہیم اشرف21 اور حسن علی 44 ویں نمبر پر تھے، شاداب کا تو نام ہی موجود نہ تھا مگر تینوں سر پر سبز ٹیسٹ کیپ سجا چکے، وجہ پی ایس ایل سے نمایاں ہونا اور محدود اوورز کی کرکٹ میں اچھی کارکردگی بنی، یقینی طور پر یہ باصلاحیت ہیں مگر ٹیسٹ کرکٹ بالکل مختلف اور اس میں انہی پلیئرز کو موقع دینا چاہیے جو فرسٹ کلاس سیزن کھیل کر چار روزہ میچز کا تجربہ حاصل کر چکے ہوں۔

ٹھیک ہے 2016-17 سیزن میں امام الحق نے 848 رنز بنائے مگر853 رنز اسکور کرنے والے آصف ذاکر کا کیا قصور تھا، اس کا سر نیم الحق نہیں تھا اس لیے چیف سلیکٹر ’’انزی دی لیجنڈ‘‘(ٹویٹر پر انھوں نے اپنا یہی نام لکھا ہے) کو ان کا ٹیلنٹ نظر نہیں آیا اور چانس کو ترستے رہے، گزشتہ فرسٹ کلاس سیزن میں سب سے زیادہ957 رنز بنانے والے سعد علی کو کیوں نہیں کھلایا، فواد عالم اور صدف حسین کی کارکردگی کیوں سلیکٹرز سے پوشیدہ ہے، رواں سیزن میں خرم منظور رنز کے ڈھیر لگا رہے ہیں ان کو کیوں نہیں پھر موقع دیا جا رہا؟

اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ میں بہت پیچھے جا رہے ہیں تو سلیکشن و دیگر عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا، اب سلیکشن کا معیار سوشل میڈیا اور ٹی وی تبصرے ہیں، جو کھلاڑی محدود اوورز میں پرفارم کرے ٹویٹر مافیا و دیگر اس کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں، سلیکٹرز بھی انھیں لائم لائٹ میں دیکھ کر موقع دے دیتے اور پورے سیزن ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ابھی رینکنگ میں ہم نمبر سات ہیں مستقبل میں مزید نیچے جا سکتے ہیں، اس کی ذمہ داری مکمل طور پر بورڈ اور سلیکشن کمیٹی پر ہی عائد ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔