عورت کی خودمختاری: عزت یا ذلت؟

ماہ نور خان  بدھ 17 اکتوبر 2018
والدین اپنی بیٹی کو خود ہی زندگی کے اتارچڑھاؤ سے واقف کرائیں تاکہ وہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ خودمختار ہوکر کرسکے۔ (فوٹو: یو این ڈی پی)

والدین اپنی بیٹی کو خود ہی زندگی کے اتارچڑھاؤ سے واقف کرائیں تاکہ وہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ خودمختار ہوکر کرسکے۔ (فوٹو: یو این ڈی پی)

اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہر معاشرے میں خاندان کی بنیاد عورت سے تشکیل پاتی ہے، لہٰذا عورت کا تعلیم یافتہ اور خودمختار ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو ماں بننے کے بعد اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ انہیں زندگی گزارنے کے اصول سکھاتی ہے۔ مشکل وقت سے سمجھوتہ کرنا سکھاتی ہے۔

چونکہ بچہ پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے اپنی ماں کو دیکھتا ہے، اسی کو دیکھتے ہوئے بولنا سیکھتا ہے۔ ماں کو دیکھتے ہوئے اس کا کردار بھی جنم لیتا ہے۔ اگر اس کی ماں ہی غیر تعلیم یافتہ ہو تو وہ بچہ دنیا کے ہاتھوں رُل جاتا ہے۔ اس بچے کی بنیادی تعلیم و تربیت ادھوری رہ جاتی ہے لہٰذا عورت کا تعلیم یافتہ ہونا، خودمختار ہونا اور ساتھ ساتھ با اختیار ہونا بہت ضروری ہے۔

خواتین کو اپنے فیصلے خود کرنے کا پورا اختیار ہونا چاہیے۔ ایک لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اسے اتنی آزادی دینی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی مرضی سے کرے؛ اور یہ آزادی اس کے والدین کے علاوہ کوئی دوسرا اِسے نہیں دے سکتا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی پر بھروسہ کریں اور اسے زندگی کے اتارچڑھاؤ سے واقف کرائیں تاکہ وہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ خودمختار ہوکر کرسکے۔

ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی کیونکہ اِن کی جلدی شادی کروادی جاتی ہے۔ اور جن کی جلدی شادی نہیں بھی ہوتی، اِنہیں تعلیم کے بعد نوکری کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ اِس سے ’’خاندان کی عزت‘‘ پر اثر پڑتا ہے۔ پرانے زمانے کی دقیانوسی سوچ کی وجہ سے عورت کو معاشرے میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح آگے بڑھنے سے روک دیا جاتا ہے۔

تعلیم سے لے کر نوکری کرنے اور نوکری کرنے سے لے کر شادی تک، زندگی کے ہر موڑ پر عورت کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنا چاہے تو اِس سے اِس کے خاندان کی عزت خراب ہو جاتی ہے؛ اور اگر کوئی عورت ان عورتوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا چاہے تو اِس سے ملک کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے!

ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم خواتین سے ان کے حقوق چھینتے رہیں گے؟ کب تک انہیں معاشرے میں آگے بڑھنے سے روکیں گے؟ آخر کب تک عورت کے خودمختار ہونے کو مرد کی ذلت سمجھتے رہیں گے؟

جب تک ہم اپنی اس سوچ کی نظرثانی نہیں کریں گے، خواتین کو ان کے جائز حقوق نہیں دیں گے، تب تک ہمارا معاشرہ بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا، دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﺗﺤﻔﻆ ﮐﮯلیے ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﺻﺮﻑ ﻧﻤﺎﺋﺸﯽ ﮨﯿﮟ، ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺍﻗﺪﺍﺭ کے ﺧﻼﻑ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺳﺎﺯﯼ ﭘﺮ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﮯ۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی وزیر محترمہ شیریں مزاری سے درخواست ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کےلیے عملی طور پر اقدامات بھی کریں تاکہ معاشرے میں عورت خودمختار ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔