پاکستان معاشی و کاروباری ڈپریشن کا شکار
تنخواہ دار طبقے کو ایک طرف تو نوکری کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔
msuherwardy@gmail.com
خدا خدا کر کے حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ ناامیدی پھیلانے کا انھیں ہی نقصان ہے۔ سب کچھ خراب ہے کی تصویر پیش کرنے کا انھیں ہی نقصان ہوا ہے۔ ملک ڈوب گیا ہے، یہ نعرہ لگانے کا فائدہ نہیں ہوا۔ کرپشن کرپشن کا گیت گانے کا بھی انھیں نقصان ہی پہنچا ہے۔
ملک کی باگ ڈور اب عمران خان اور ان کی ٹیم کے ہاتھ میں ہے اس لیے فائدہ بھی ان کا ہے اورنقصان بھی ان کا ہے۔ اب وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں۔ اب اپنی ہر بات کی قیمت بھی انھیں ہی ادا کرنی ہے۔ اس لیے بات کرنے سے پہلے سوچنے کی ذمے داری بھی ان کی ہے۔ وہ دن گئے جب وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بات کر دیتے تھے۔ اب انھیں پہلے تولنا اور پھر بولنا ہوگا۔
اسی تناظر میں گو ابھی دنیا سے کچھ نہیں ملا ہے۔ سعودی عرب سے بھی جتنی بڑی توقعات تھیں،وہ بھی پوری نہیں ہوئی ہیں۔ چین نے بھی کوئی و اضح اعلان نہیں کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ نے اعلان کر دیا کہ معاشی بحران ٹل گیا ہے۔ ادائیگیوں کا بحران ٹل گیا ہے۔ ڈیفالٹ کرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بیلنس آف پے منٹ ٹھیک ہو گیا ہے۔ سب اچھا ہو گیا ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ لیکن یہ بات سمجھنے میں اس حکومت کو ستر دن لگے ہیں کہ نا امیدی پھیلانے کا انھیں نقصان ہے۔ وہ حکومت ہیں اگر وہی منفی باتیں کریں گے تو ملک ڈوب جائے گا۔ انھیں تو آخری لمحے تک امید کا چراغ روشن رکھنا ہے۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کو ابھی پوری نہیں آدھی عقل آئی ہے۔ انھوں نے ابھی دل سے تسلیم نہیں کیا ہے بس مجبوری میں کہہ رہے ہیں۔ اس حکومت کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے کہ اس نے ستر دن میں پاکستان میں ناامیدی اور منفی پراپیگنڈے کے ایسے چراغ جلا دیے ہیں جس نے پورے پاکستان کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ خوف کا ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر کوئی جان بچانے کی فکر کررہاہے۔
آپ کہیں گے کہ اگر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے تو اسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان میں جو بھی کہیں پہنچا ہے اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ اس کہانی نے اسے ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ حکومت نے ایک عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ جس نے کاروبار کے عمومی ماحول میں ڈپریشن پیدا کر دیا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا۔ کاروباری افراد بے لگام ہو چکے تھے۔ منافع کی شرح میں ہوش ربا اضافے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے تھے۔ عوام کو لوٹا جا رہا تھا۔ فراڈ کیا جا رہا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی پاکستان کی معیشت ہے ۔ اگر یہ بھی ختم ہو گئی ہے تو کیا ہوگا۔ یہی کارخانہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کی معیشت کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ جاگیردار، قبائلی سردار،گدی نشین وغیرہ تو ٹیکس کی مد میں کچھ نہیں دے رہے لہذا جب تک آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں ہو گا ۔ کارخانہ داریا کاروباری طبقے کو بھگانا کیا کوئی دانش مندی ہوگی۔ یہ اپنا پیسے لے کر بھاگ رہے ہیں۔ ان ستر دنوں میں ایک عمومی فضا بن گئی ہے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ لہذا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔
ملک کا رئیل ا سٹیٹ سیکٹر بیٹھ رہا ہے۔ پچھلی حکومت کی پالیسی پر بھی رئیل ا سٹیٹ سیکٹر کے لوگ نالاں تھے لیکن کام چل رہا تھا۔ لیکن اب تو کام بند ہونے کی نوبت آگئی ہے۔ لوگ رئیل ا سٹیٹ سیکٹر سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ بھی حیقیقت ہے کہ قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہو چکا تھا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سٹے بازی ہو رہی تھی۔ لیکن لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہو چکا ہے۔ جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اپٹما روزانہ اخباروں میں اشتہارات دے رہی ہے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے نے ٹیکسٹائل سمیت ہر صنعت کو تباہ کر دیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی نے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو عدم توازن کا شکار کر دیا ہے۔
ڈالر کی اتنی تیز اڑان نے حکومت کی نا تجربہ کاری اور معاشی ناکامی کو عیاں کر دیا ہے۔ برآمدات خطرے میں ہیں اور ملک میں آنے والی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ کنسٹرکشن کا شعبہ بھی چیخیں مار رہا ہے۔ اینٹ سیمنٹ کی انڈسٹری رو رہی ہے کہ ملک میں کام رک گیا ہے۔ اس ضمن میں کنسٹرکشن کے شعبہ کی چیخ و پکار بھی اشتہارات کی شکل میں میڈیا کے سامنے آچکی ہے۔ لیکن حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے۔ بینکنگ انڈسٹری بھی انحطاط کا شکار ہے۔ صاف بات ہے جب ملک میں تمام کاروبار ہی بند ہو رہے ہیں تو بینک کیسے چل سکتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری بھی تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔ شاید اتنے برے دن پاکستان کی میڈیا انڈسٹری نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ غرض کے جس شعبہ کو بھی دیکھ لیں اس میں ایک بحران نظر آئے گا۔
یہ صورتحال ستر دن پہلے تو نہیں تھی۔ معاملات اگر ٹھیک نہیں تھے تو برے بھی نہیں تھے۔ عمومی ماحول ٹھیک تھا۔کام چل رہا تھا۔ ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جوبھی خرابی ہوئی ان ستر دنوں میں ہوئی ہے۔ ملک سے کاروبار ہی ختم ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں آلو کی فصل ستر دن میں تیار ہوتی ہے کہ نہیں لیکن پاکستان کی کاروباری معیشت کی تباہی کی فصل ان ستر دنوں میں ضرور تیار ہو گئی ہے۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ہر شعبہ میں ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے۔ اداروں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ تنخواہیں کم کی جا رہی ہیں۔ بس یہی ایک تبدیلی ہے جو نظر آرہی ہے۔ لیکن حکمران اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
تنخواہ دار طبقے کو ایک طرف تو نوکری کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو تنخواہیں کم کرنے کا رحجان پیدا ہو گیا ہے۔ صنعتکار کہہ رہا ہے کہ نقصان ہو رہا ہے کم تنخواہ پر کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ گھر جائے۔ مجھے سستا ملازم مل رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بجلی گیس پٹرول سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسکول بس کے کرائے میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میںپناہ گاہ کا افتتاح کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی اسکیم ہے۔ بے گھر اور بے سہار لوگوں کو پناہ فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حکومت کی پالیسیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ملک میں بے سہار اور بے گھر لوگوں کی تعداد میں کمی نہیں اضافہ ہو رہاہے۔ سفید پوش کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے۔
ستر دن میں یہ حکومت کیا کر سکی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے جو توقعات تھیں وہ بھی نہیں پوری ہوئیں۔ کہاں ہیں وہ ڈالروں کی برسات۔ کہاں ہے وہ ڈاکٹر جس کی جھیل کنارے ویڈیو سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی تھی کہ میں واپس آرہا ہوں ۔ ایک جعلی ماحول بنایا گیا تھا۔ جھوٹ کے مینار کھڑے کیے گئے تھے۔ جو زمین بوس ہو رہے ہیں۔ کاروباری ، صنعتکار، تنخواہ دار سب ہی پریشان نظرا ٓرہے ہیں ۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کو احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ اپوزیشن سے حکومت میں آگئی ہے۔ ان کی گفتگو اور پالیسیوں نے ملک کو ایک ڈپریشن میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک معاشی ڈپریشن ۔ ایک کاروباری ڈپریشن۔ ایک نا امیدی کی فضا بنا دی گئی ہے۔ ایک نفسیاتی بحران پیدا کر دیا گیا ہے۔ خوف کے انجانے بادلوں نے سب کو گھیر لیا ہے۔ لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کوئی کرکٹ ٹیم نہیں ہے۔ یہ ایک سنجیدہ کام ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں کرپٹ لوگوں کا دفاع کر رہا ہوں ۔میں بالواسطہ نیب کے خلاف لکھ رہا ہوں نہیں ایسا نہیں ہے۔ نیب کو اپنا اور عدلیہ کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ لیکن حکومت کو نیب کا ترجمان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے ملک میں تناؤ کا ماحول بنا دیا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ لڑائی چل رہی ہے جو ملک کی معاشی فضا کے لیے زہر قاتل ہے لیکن شائد حکومت کو سمجھ نہیں آرہی۔ملک میں کاروبار کی فضا کو سازگار کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کا پہیہ چلانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح کچھ نہ ملنے پر سب اچھا کا نعرہ لگا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک میں بھی کاروباری معاشی ڈپریشن ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی باگ ڈور اب عمران خان اور ان کی ٹیم کے ہاتھ میں ہے اس لیے فائدہ بھی ان کا ہے اورنقصان بھی ان کا ہے۔ اب وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں۔ اب اپنی ہر بات کی قیمت بھی انھیں ہی ادا کرنی ہے۔ اس لیے بات کرنے سے پہلے سوچنے کی ذمے داری بھی ان کی ہے۔ وہ دن گئے جب وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بات کر دیتے تھے۔ اب انھیں پہلے تولنا اور پھر بولنا ہوگا۔
اسی تناظر میں گو ابھی دنیا سے کچھ نہیں ملا ہے۔ سعودی عرب سے بھی جتنی بڑی توقعات تھیں،وہ بھی پوری نہیں ہوئی ہیں۔ چین نے بھی کوئی و اضح اعلان نہیں کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ نے اعلان کر دیا کہ معاشی بحران ٹل گیا ہے۔ ادائیگیوں کا بحران ٹل گیا ہے۔ ڈیفالٹ کرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بیلنس آف پے منٹ ٹھیک ہو گیا ہے۔ سب اچھا ہو گیا ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ لیکن یہ بات سمجھنے میں اس حکومت کو ستر دن لگے ہیں کہ نا امیدی پھیلانے کا انھیں نقصان ہے۔ وہ حکومت ہیں اگر وہی منفی باتیں کریں گے تو ملک ڈوب جائے گا۔ انھیں تو آخری لمحے تک امید کا چراغ روشن رکھنا ہے۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کو ابھی پوری نہیں آدھی عقل آئی ہے۔ انھوں نے ابھی دل سے تسلیم نہیں کیا ہے بس مجبوری میں کہہ رہے ہیں۔ اس حکومت کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے کہ اس نے ستر دن میں پاکستان میں ناامیدی اور منفی پراپیگنڈے کے ایسے چراغ جلا دیے ہیں جس نے پورے پاکستان کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ خوف کا ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر کوئی جان بچانے کی فکر کررہاہے۔
آپ کہیں گے کہ اگر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے تو اسے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان میں جو بھی کہیں پہنچا ہے اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ اس کہانی نے اسے ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ حکومت نے ایک عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ جس نے کاروبار کے عمومی ماحول میں ڈپریشن پیدا کر دیا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا۔ کاروباری افراد بے لگام ہو چکے تھے۔ منافع کی شرح میں ہوش ربا اضافے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے تھے۔ عوام کو لوٹا جا رہا تھا۔ فراڈ کیا جا رہا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی پاکستان کی معیشت ہے ۔ اگر یہ بھی ختم ہو گئی ہے تو کیا ہوگا۔ یہی کارخانہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کی معیشت کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ جاگیردار، قبائلی سردار،گدی نشین وغیرہ تو ٹیکس کی مد میں کچھ نہیں دے رہے لہذا جب تک آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں ہو گا ۔ کارخانہ داریا کاروباری طبقے کو بھگانا کیا کوئی دانش مندی ہوگی۔ یہ اپنا پیسے لے کر بھاگ رہے ہیں۔ ان ستر دنوں میں ایک عمومی فضا بن گئی ہے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ لہذا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر ہے۔
ملک کا رئیل ا سٹیٹ سیکٹر بیٹھ رہا ہے۔ پچھلی حکومت کی پالیسی پر بھی رئیل ا سٹیٹ سیکٹر کے لوگ نالاں تھے لیکن کام چل رہا تھا۔ لیکن اب تو کام بند ہونے کی نوبت آگئی ہے۔ لوگ رئیل ا سٹیٹ سیکٹر سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ بھی حیقیقت ہے کہ قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہو چکا تھا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سٹے بازی ہو رہی تھی۔ لیکن لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہو چکا ہے۔ جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اپٹما روزانہ اخباروں میں اشتہارات دے رہی ہے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے نے ٹیکسٹائل سمیت ہر صنعت کو تباہ کر دیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی نے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو عدم توازن کا شکار کر دیا ہے۔
ڈالر کی اتنی تیز اڑان نے حکومت کی نا تجربہ کاری اور معاشی ناکامی کو عیاں کر دیا ہے۔ برآمدات خطرے میں ہیں اور ملک میں آنے والی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ کنسٹرکشن کا شعبہ بھی چیخیں مار رہا ہے۔ اینٹ سیمنٹ کی انڈسٹری رو رہی ہے کہ ملک میں کام رک گیا ہے۔ اس ضمن میں کنسٹرکشن کے شعبہ کی چیخ و پکار بھی اشتہارات کی شکل میں میڈیا کے سامنے آچکی ہے۔ لیکن حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے۔ بینکنگ انڈسٹری بھی انحطاط کا شکار ہے۔ صاف بات ہے جب ملک میں تمام کاروبار ہی بند ہو رہے ہیں تو بینک کیسے چل سکتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری بھی تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔ شاید اتنے برے دن پاکستان کی میڈیا انڈسٹری نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ غرض کے جس شعبہ کو بھی دیکھ لیں اس میں ایک بحران نظر آئے گا۔
یہ صورتحال ستر دن پہلے تو نہیں تھی۔ معاملات اگر ٹھیک نہیں تھے تو برے بھی نہیں تھے۔ عمومی ماحول ٹھیک تھا۔کام چل رہا تھا۔ ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جوبھی خرابی ہوئی ان ستر دنوں میں ہوئی ہے۔ ملک سے کاروبار ہی ختم ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں آلو کی فصل ستر دن میں تیار ہوتی ہے کہ نہیں لیکن پاکستان کی کاروباری معیشت کی تباہی کی فصل ان ستر دنوں میں ضرور تیار ہو گئی ہے۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ہر شعبہ میں ڈاؤن سائزنگ ہو رہی ہے۔ اداروں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ تنخواہیں کم کی جا رہی ہیں۔ بس یہی ایک تبدیلی ہے جو نظر آرہی ہے۔ لیکن حکمران اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
تنخواہ دار طبقے کو ایک طرف تو نوکری کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو تنخواہیں کم کرنے کا رحجان پیدا ہو گیا ہے۔ صنعتکار کہہ رہا ہے کہ نقصان ہو رہا ہے کم تنخواہ پر کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ گھر جائے۔ مجھے سستا ملازم مل رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بجلی گیس پٹرول سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ایک مثال یہ بھی ہے کہ اسکول بس کے کرائے میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میںپناہ گاہ کا افتتاح کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی اسکیم ہے۔ بے گھر اور بے سہار لوگوں کو پناہ فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حکومت کی پالیسیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ملک میں بے سہار اور بے گھر لوگوں کی تعداد میں کمی نہیں اضافہ ہو رہاہے۔ سفید پوش کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے۔
ستر دن میں یہ حکومت کیا کر سکی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے جو توقعات تھیں وہ بھی نہیں پوری ہوئیں۔ کہاں ہیں وہ ڈالروں کی برسات۔ کہاں ہے وہ ڈاکٹر جس کی جھیل کنارے ویڈیو سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی تھی کہ میں واپس آرہا ہوں ۔ ایک جعلی ماحول بنایا گیا تھا۔ جھوٹ کے مینار کھڑے کیے گئے تھے۔ جو زمین بوس ہو رہے ہیں۔ کاروباری ، صنعتکار، تنخواہ دار سب ہی پریشان نظرا ٓرہے ہیں ۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کو احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ اپوزیشن سے حکومت میں آگئی ہے۔ ان کی گفتگو اور پالیسیوں نے ملک کو ایک ڈپریشن میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک معاشی ڈپریشن ۔ ایک کاروباری ڈپریشن۔ ایک نا امیدی کی فضا بنا دی گئی ہے۔ ایک نفسیاتی بحران پیدا کر دیا گیا ہے۔ خوف کے انجانے بادلوں نے سب کو گھیر لیا ہے۔ لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کوئی کرکٹ ٹیم نہیں ہے۔ یہ ایک سنجیدہ کام ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں کرپٹ لوگوں کا دفاع کر رہا ہوں ۔میں بالواسطہ نیب کے خلاف لکھ رہا ہوں نہیں ایسا نہیں ہے۔ نیب کو اپنا اور عدلیہ کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ لیکن حکومت کو نیب کا ترجمان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے ملک میں تناؤ کا ماحول بنا دیا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ لڑائی چل رہی ہے جو ملک کی معاشی فضا کے لیے زہر قاتل ہے لیکن شائد حکومت کو سمجھ نہیں آرہی۔ملک میں کاروبار کی فضا کو سازگار کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کا پہیہ چلانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح کچھ نہ ملنے پر سب اچھا کا نعرہ لگا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک میں بھی کاروباری معاشی ڈپریشن ختم کرنے کی ضرورت ہے۔