لوکل ٹرین، بحالی کی داستان (آخری حصہ)

شبیر احمد ارمان  جمعرات 15 نومبر 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

کراچی اور دھابیجی اسٹیشن کے درمیان چلنے والی دھابیجی ایکسپریس ابتدا میں ہی بڑے خسارے کا شکار ہوگئی تھی ۔ڈاکٹر توصیفٖ احمد خان نے اپنے گذشتہ کالم میں کئی حقائق بیان کیے ہیں۔ بلاشبہ پہلے ہفتے میں دھابیجی ایکسپریس مطلوبہ ریونیو اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔

لوکل ٹرین دھابیجی ایکسپریس میں 546 مسافروں کی گنجائش ہے تاہم مطلوبہ مسافروں کے بجائے پہلے ہفتے کے دوران دھابیجی سے کراچی لوکل ٹرین میں صرف 10فیصد مسافروں نے سفرکیا ،اس ضمن میں دھابیجی ایکسپریس کی کامیابی کے لیے ریلوے حکام نے سر توڑ کوششیں شروع کردی ہیں۔ ٹرین کی کامیابی کے لیے نہ صرف دھابیجی ایکسپریس کے اسٹاپ بڑھانے بلکہ ٹرین کی تشہیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ٹرین کی تشہیر کے لیے پمفلٹ شایع کیے جائیں گے جب کہ کیبل سروس سے بھی استفادہ کیا جائے گا اور اس کام کے لیے نجی اداروں سے مدد لی جائے گی۔ اس حوالے سے مختلف ریلوے اسٹیشنوںپر بینرز آویزاں کرنے شروع کردیے گئے ہیں ۔

اس کے علاوہ پاکستان ریلوے نے دھابیجی ایکسپریس کے لیے دیگر نئی تجاویز پر بھی غور شروع کردیا ہے، ٹرین کی آمد و روانگی کے اوقات کار تبدیل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، امکان ہے کہ دھابیجی سے ٹرین کی کراچی روانگی کا وقت 6بجے سے تبدیل کرکے 7بجے صبح کردیا جائے، ریلوے حکام نے ٹرین کی کامیابی اور لوگوں کواس جانب مائل کرنے کے لیے پورٹ قاسم اتھارٹی ، پاکستان کسٹمز ، پی ایس او اور بعض بینکوں کی انتظامیہ اور سربراہان سمیت دیگر اداروں کی انتظامیہ سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کو ٹرین سے سفرکرنے پر مائل کیا جاسکے ، ماہانہ ٹکٹ بک کرنے پر دن میں کئی بار ٹرین (دھا بیجی ایکسپریس )کے ذریعے سفرکی سہولت حاصل ہوگی ۔

اب ملاحظہ کریںکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی داستان:

ایک بار پھر سندھ حکومت نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر ) پر کام کررہے ہیں ، چین کی مدد سے اس کا آغاز کیا جائے گا ، یہ منصوبہ 43کلو میٹر طویل ہے اور یہ تمام بی آر ٹی لائنزکو مدد بھی فراہم کرے گا ۔ اس تناظر میں چینی قونصل جنرل نے جمعہ 14ستمبر 2018ء کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تھی اس ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کا کام جہاں رکا تھا ، وہیں سے پھر شروع کروں گا ۔

واضح رہے کہ 29دسمبر2016ء کو چینی حکام نے سندھ کے 3اہم منصوبوں کراچی سرکلر ریلوے ، کیٹی بندر پورٹ اور ٹھٹھہ میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام کو اصولی طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ فیصلہ سی پیک سے متعلق بیجنگ میں جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں کیا گیا ۔

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی خصوصی درخواست پر اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنانے، خود مختار ضمانت ،کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی سندھ حکومت کو منتقلی اور سرکلر ریلوے کے راستوں کا قبضہ دینے سے متعلق واضح ہدایت دی تھی ۔ منصوبہ سی پیک کے تحت چینی قرضے سے تعمیر کیا جائے گا ۔

2011ء اور 2012ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس ضمن میں قبل ازیں جاپانی تنظیم جاپانانٹر نیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائکا ) نے کراچی سرکلر ریلوے کو چلانے میں دلچپسی ظاہر کی تھی اور اس حوالے سے سرکلر ریلوے ٹریک کا باریک بینی سے وزٹ کرکے اپنی فزیبلٹی رپورٹ تیارکرلی تھی۔ جائکاایک ہاتھ میں فزیبلٹی رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں منصوبے کی تیاری میں استعمال ہونے کے لیے رقم رکھ کر برسوں وفاقی حکومت اور اداروں کے دروازوں پر دستک دیتا رہا لیکن عوامی مفاد کا حامل اہم منصوبے نامعلوم وجوہ کی بنا پر تعطل کا شکار ہوکر ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا ۔

حکومت سندھ نے 11 جنوری 2017ء کو کراچی سرکلر ریلوے کی فزیبلٹی کے لیے ساڑھے 4کروڑ روپے کی منظوری دی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سرکلر ریلوے کے راستے سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تاکہ منصوبے پر پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے کام شروع ہوسکے ۔

کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی مجموعی لمبائی 43کلو میٹر ہے جس میں سے 13.43کلومیٹر ریلوے کی مرکزی لائن پر ہے اور 29.69کلومیٹر کے سی آر کی لوپ لائن پر ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے مجموعی طور پر 360ایکڑ رقبہ درکار ہے جس میں سے 260ایکڑ پاکستان ریلوے کی زمین اور 100ایکڑ مین لائن پر ہے اور 67ایکڑ زمین پر تجاوزات ہیں جس میں 47ایکڑ کے سی آر لوپ لائن پر ہے اور 20ایکڑ زمین لائن کے ساتھ ہے قبضہ کی گئی زمین پر 4653گھر تعمیر کیے گئے ہیں اور 2997دیگر تجاوزات ہیں کے سی آر کے 20فیصد حصے پر تجاوزات قائم ہیں منصوبے پر اسی صورت عمل ہوسکتا ہے کہ اس کے راستے سے تجاوزات کا خاتمہ کردیا جائے ۔

11جنوری 2017ء کواس وقت کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس وقت کے کمشنر کراچی اعجاز خان کو ہدایت کی تھی کہ وہ تمام ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ اجلاس منعقد کریں اور کے سی آر کے روٹ سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے پلان ترتیب دیں اور سات دن کے اندر رپورٹ پیش کریں ۔ انھوں نے سیکریٹری خزانہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ کے سی آر کی فزیبلٹی کے لیے 45ملین روپے جاری کردیں ۔

بعد ازاں 15فروری 2017ء کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 2013ء سے قبل کی جو تجاوزات ہیں انھیں انسانی ہمدردی کے تحت معاوضہ دیا جائے گا ، 2013ء کے بعد تجاوزات قائم کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا کوئی معاضہ نہیں دیا جائے گا اور اسی اجلاس میں تمام تجاوزات کو ہٹانے کااصولی فیصلہ کرلیا گیا ۔ 3اپریل 2017ء کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمے انسداد تجاوزات نے مچھر کالونی میں سرکلر ریلوے کی اراضی واگزار کرانے کے لیے کاروائی کی انسداد تجاوزات کے عملے کو قبضہ مافیا کی طرف سے سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا جس کے باعث کاروائی ادھوری چھوڑ دی گئی البتہ اس 2دن کی کارروائی میں کے سی آر کی قبضہ کی گئی 20ایکڑ اراضی میں سے 7ایکڑ اراضی واگزار کرالی گئی ۔

کراچی سرکلرریلوے کے اس منصوبے کے لیے بین الاقوامی ٹینڈرز اکتوبر 2017ء میں طلب کیے جانے تھے اوراس منصوبے کا آغاز بانی پاکستان محمد علی جناح کے یوم پیدائش 25دسمبر 2017ء کو ہونا تھا اور 3سال میں اسے مکمل کیا جانا تھا لیکن اگست 2017ء میں یہ منصوبہ نوکر شاہی کے حربے کی وجہ سے پھر التواء کاشکار ہوگیا تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت کاکہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کا کام جہا ں رکا تھا،وہیں سے پھر شروع کیا جائیگا ۔امید ہے کہ کے سی آر کے اطراف تجاوزات کا بروقت خاتمہ کیا جائیگا ۔سرکلر ریلوے کی تکمیل سے کراچی کے لاکھوں مزدوروں کے ساتھ شہریوں کو بھی سستی اور تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔