امرتاپریتم اورعطاشاد کی کتابِ عشق…

خرم سہیل  منگل 25 جون 2013

بلوچی لوک ادب میں ’’شہ مریداورہانی‘‘کی داستان رومانوی تمثیل کادرجہ رکھتی ہے۔ یہ دونوں کردار مغرب کے رومیو جولیٹ کے ہم پلہ ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ’’شہ مرید اورہانی‘‘کی یہ منظوم داستان صرف عشقِ مزاجی کی مظہرنہیں ہے،بلکہ بلوچستان کی ثقافتی تاریخ کی بھی عکاسی کرتی ہے۔داستان کے یہ دونوں کردار محبت کے خالص اورالمناک پہلوؤں کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔یہ کردار صرف فکشن تک محدود نہیں ،بلکہ سزا،جزا،نیکی اوربدی کااستعارہ بھی ہیں۔یہ پندرہویں صدی میں میر چاکر خان رندکے دور میں تخلیق ہونے والی داستان ِ عشق ہے۔ اس رومانوی داستان کو بلوچی لوک ادب میں کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔

بلوچستان صرف رقبے کے لحاظ سے ہی بڑا صوبہ نہیں ہے،ادبی قدوقامت کے بڑے ادیبوں اورشاعروں کا صوبہ بھی ہے،لیکن نہ جانے کیوں بلوچستان کے اس پہلو پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔یہ گل خان نصیراورعطاشاد جیسے عظیم شاعروں کا خطہ بھی ہے۔بھارت کے معروف تنقید نگارگوپی چند نارنگ کی جائے پیدائش کاعلاقہ بھی یہی ہے۔جامعہ بلوچستان کے پہلے شیخ الجامعہ پروفیسرکرار حسین اسی خطے میں کئی برسوں تک علم کے چراغ روشن کرتے رہے۔عہدِ حاضر میں شاہ محمد مری جیسے اہلِ ادب بھی یہیں موجود ہیں۔

نصرت فتح علی خان کے گیت’’سانوں اِک پل چین نہ آوے‘‘سے مقبولیت حاصل کرنے والا ڈراما’’دھواں‘‘پی ٹی وی کے کوئٹہ سینٹر سے نشرہواتھا۔فردوس اوراعجاز کی مشہورِ زمانہ فلم’’ہیررانجھا‘‘میںمحبت کے اِن دوکرداروں کے ساتھ معاون کردار بھی ایک بلوچ تھا۔کوئٹہ میں پیداہونے والے عابد علی کاصحرائی ثقافت پر خوبصورت ڈراما’’دشت‘‘بھی اسی علاقے میں فلمایاگیا۔فیض محمد بلوچ،استاد ولی محمد،اخترچنال زہری جیسے شیریں بیاںگلوکاروں کی سرزمین بھی یہی ہے۔فلم کے معروف اورباصلاحیت اداکاراسماعیل شاہ اورٹیلی ویژن کا انتہائی سلجھاہوا اداکارحسام قاضی بھی اسی مٹی سے پیوستہ تھا۔آج کے دور کامقبول اداکار ایوب کھوسہ بھی اسی دھرتی کا سپوت ہے۔

بلوچستان کا شہر زیارت ہمارے قائداعظم کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک تھی۔ان کی بصارت میں یہ مقام کیاجچا،پورے پاکستان کے لیے زیارت کی زیارت کرناشوق کی صورت اختیار کرگیا۔یہ اُن بے لوث اورنڈر لوگوں کا صوبہ بھی ہے،جن کی وجہ سے ہماری سرحدیں کئی دہائیوں تک محفوظ رہی ہیں۔اب ایسا کیاہوگیاکہ نفرت کی آگ بڑھکتی جارہی ہے۔بھائیوں کاآپس میں لڑائی جھگڑا ہوتاہے،لیکن پھر صلح بھی ہوجاتی ہے۔ایسا بھی کیاکہ ایک دوسرے کاغصہ معصوم عوام پر اتاراجائے۔

کچھ عرصہ قبل عراق اورافغانستان کے بارے میں ٹی وی پر خبریں دیکھتے اوراخبار پڑھتے تھے،تویقین نہیں آتاتھاکہ بم دھماکوں میں اتنے لوگ مرسکتے ہیں اوریہ سوچ کر روح کانپ جاتی تھی کہ وہاں کے مکینوں کے روزوشب کیسے بسر ہوتے ہوں گے،لیکن اب ہمارااپنا ملک ایک عرصے سے انھی حالات کاشکار ہے۔ہزاروں جانوں کازیاں ہوچکاہے،مگراذیت کایہ سلسلہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہا۔ہمارے ٹیلی ویژن اوراخبارات اب انھی خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں،یقین تواب بھی نہیں آتا،مگر یہی تلخ حقیقت ہے۔اس اذیت کاسب سے زیادہ بوجھ بلوچستان اٹھائے ہوئے ہے۔

کچھ روز پہلے یہ خطہ پھر دہشت گردی کاشکارہوا۔کوئٹہ میں ایک ہی دن تین بم دھماکے ہوئے۔زیارت کاقومی سانحہ،طالبات کی بس دھماکے کا شکار اور پھر بولان میڈیکل کمپلیکس پردہشت گردوں کاحملہ۔صرف قومی پرچم ہی سرنگوں نہیں ہوا،دل بھی حالتِ سوگ میں رہا۔شعلوں میں گھری ہوئی قائداعظم کی پسندیدہ عمارت۔طالبات کے خون آلود ہ چہرے اورزخمیوں سے بھراہوا اسپتال۔عہدِ حاضر کا یہ منظر نامہ شرمندگی کی سیاہی اوربے گناہی کے خون سے تَر ہے۔یہ صرف چند واقعات نہیں ہیں،بلکہ وہ لمحات ہیں،جوقوم پر بھاری پڑرہے ہیں۔بے چینی اوراذیت کانہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔یہ وہ درد ہے،جسے صرف جسم ہی نہیں جھیلتا،بلکہ روح بھی برداشت کرتی ہے۔

بلوچی زبان کے معروف شاعر گل خان نصیرکے لیے،جدید بلوچی شاعری کے نمایندہ شاعر عطاشاد نے ایک قطعہ نذر کرتے ہوئے لکھاتھا۔

ڈھلی جو شام سفر ِ آفتاب ختم ہوا
کتاب ِ عشق کا ایک او ر باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقد ِجاں ہی باقی تھی
سواس حساب میں یہ بھی حساب ختم ہوا

کیساحسُنِ اتفاق ہے،تخلیق کارکسی بھی خطے سے تعلق رکھتاہو،وہ سوچتاایک ہی زاویے سے ہے۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہجر کے سفر میں کتنے اجسام کٹے تھے۔ایک دوسرے کی جدائی کا صدمہ سہناپڑاتھا۔ایک ساتھ پلنے بڑھنے والے ہمسایے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوگئے تھے،مگر آزادی کاولولہ تھا،جس نے ہمیں جوڑے رکھا۔اس خون کے لت پت منظرنامے پرہمیں ایک بھرپور اورتوانا آواز سراپااحتجاج سنائی دی۔یہ آواز امرتاپریتم کی تھی۔اس شاعرہ نے پنجاب کی دھرتی کے عظیم شاعر وارث شاہ کو اپنی مشہورِ زمانہ نظم’’اَج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘میں پکارا اور واسطہ دیا تھاکہ ’’کتابِ عشق کا کوئی اگلاورق پلٹو۔امن کاپیام دینے والی بانسری کی مترنم دھن بجاؤکیونکہ میری دھرتی لہولہان ہے۔‘‘اسی کتابِ عشق کے استعارے کاذکر عطا شاد کے ہاں بھی ملتاہے۔

درد کی اذیت اورمحبت کااحساس کسی صوبے کامحتاج نہیں ہوتا۔دھماکا کوئٹہ میں ہویاکہیں اورمگرپوراپاکستان خون کے آنسو روتاہے۔عام آدمی کسی سیاسی اداکاری کامظاہرہ نہیں کرتا،نہ ہی اس کے آنسو کسی مفاد کی خاطر مگرمچھ کے آنسوؤں میں تبدیل ہوتے ہیں۔عام آدمی تو صرف اپنے آپ سے شرمندہ ہوتاہے کہ اس کے بہن بھائی موت کے منہ میں جارہے ہیں اوروہ بے بس ہے۔

ان ساری کیفیات کے باوجود ایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ بے بسی اب بے حسی میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ٹی وی دیکھتے ہوئے ریموٹ کے بٹن پر صرف چینل ہی نہیں بدلتے،دل بھی بدلنے لگاہے۔ہم فراموش کردیتے ہیں،ان گھرانوں کی اذیت کو،جن کے پیارے بے رحم موت کے ہاتھوں ان سے بچھڑجاتے ہیں۔کاش کوئی ’’شاہ مرید اوردھانی ‘‘کی اس منظوم داستان کو پڑھ کر اس خطے میں پھونک دے۔نفرت پھیلانے والوں کو کوئی امرتاپریتم اورعطاشاد کی شاعری کامفہوم سمجھائے۔کوئی ایسا معجزہ ہو،جومعصوم پھولوں کومرجھانے سے محفوظ رکھے،ظالموں کے دل بدل دے۔کسی بھی طرح سے یہ سلسلہ اب بند ہوناچاہیے۔

’’شہ مرید اورہانی‘‘کی اس منظوم داستان کے مصرعوں کوجب بھی میں پڑھتاہوں،توسوچتاہوں ،بلوچستان جیسی رومان پرور دھرتی کے یہ کردار ہی بجاطورپر اس کی حقیقی صورت ہیں ،نہ کہ نفرت پھیلانے والے مٹھی بھرشرپسندعناصر،جنھیں نہ عطاشاد کی خبر ہے اورنہ امرتاپرتیم سے واقفیت۔کاش کوئی ان کے لکھے ہوئے مصرعوں کالہجہ سمجھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔