نیب … اچھا یا برا

ڈاکٹر مجاہد کامران کو پاکستان نے بہت عزت دی ہے۔ انھیں پاکستان نے بہت اعزازات سے نوازا ہے

msuherwardy@gmail.com

مجاہد کامران نے نیب کے خلاف ایک غیرضروری محاذ کھول دیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھیں ناجائز گرفتار کیا گیا ہے، وہ بے گناہ ہیں۔ لیکن پھر بھی انھیں اپنی رائے یا جدو جہد اپنے کیس میں انصاف تک محدود رکھنی چاہیے تھی۔ وہ ایک استاد ہیں اور فزکس کے اسکالر ہیں۔ فزکس میںنیوٹن کا تیسرا قانون ہے۔ جس کے مطابق ہر عمل کا ردعمل لازمی ہے۔

میں زندگی میں اپنے والد کو اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ انھوں نے زندگی گزارنے کا ہر گر اور فن مجھے سکھایا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک قانون دان ہیں، میرے والد کا قانون اور نظام انصاف پر یقین کامل ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ ہمارے نظام قانون اور نظام انصاف میں بہت خامیاں ہیں۔ لوگوں کو انصاف اور قانون سے مدد لینے میں بہت دشواریاں پیش آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ان کا اس بات پر بھی یقین کامل ہے کہ قانون اور نظام انصاف کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ناجائز کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

ایسی کوششیں اکثر نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔ قانون اور نظام انصاف کی کمزوریوں کے حوالے سے ایک بار میں نے اپنے والد سے کہا کہ ہمیں بھی قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ جواب میں انھوں نے مجھے کہا کہ فرض کر لو کہ ہمارا کوئی مخالف مجھے قتل کر دیتا ہے۔ اب تمھارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک راستہ کہ جس نے مجھے قتل کیا کہ تم جاکر اسے قتل کر دو۔ اور خود پھانسی پر چڑھ جاؤ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ تم تھانے جاؤ قانون کا دروازہ کھٹکھٹا ؤ۔ انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کرو۔ اور میرے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دلواؤ۔ ان کا موقف تھا کہ دوسراراستہ مشکل ہے۔ اس میں ناکامی کے بھی امکانات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دشمن بچ بھی جائے۔ لیکن درست راستہ کونسا ہے۔ ان کے دلائل نے مجھے زندگی کا ایک بہترین سبق دیا۔ جس پر میں اب قائم ہوں کہ کسی بھی غیر قانونی کام کا جواب غیر قانونی انداز سے دینا کوئی عقلمندی اور سمجھداری نہیں ہے۔

ڈاکٹر مجاہد کامران کو پاکستان نے بہت عزت دی ہے۔ انھیں پاکستان نے بہت اعزازات سے نوازا ہے۔ انھیں ان کی علمی خدمات کے عوض بہت عزت دی گئی ہے۔ ان کی نیب میں گرفتاری کے بعد بھی انھیں پاکستان نے عزت دی ہے۔ ان کو ہتھکڑی لگنے پر پاکستان کے معاشرہ نے جس طرح رد عمل دیا وہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے۔ چیئرمین نیب تک نے ان سے معذرت کی ہے۔ چیف جسٹس نے ان کے لیے ایکشن لیا ہے۔ انھیں غیر معمولی انصاف بھی ملا ہے۔ یہ مجاہد کامران ہی ہیں جن کا دوبارہ ریمانڈ لینے کی نیب کو جرات نہیں ہوئی۔ ورنہ نیب تو نوے دن تک ریمانڈ کا کھیل ہی کھیلتا رہتا ہے۔ نیب ملزمان کی اتنی جلد ی ضمانت کی کوئی اور مثال سامنے نہیں ہے۔


ادھر یہ بھی سچ ہے کہ نیب نے ہزاروں لوگوں پکڑا ہے۔ ان میں یقینا بے گناہ بھی شامل ہیں۔ نیب نے بے شمار غلطیاں کی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج نیب پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ گرفتاری کے اختیار پر سوالیہ نشان ہے۔ حتیٰ کے نیب قوانین میں ضمانت پر جو قدغن ہے اس پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہو چکا ہے۔ نیب کے اختیارات پر سوال کم اور شور زیادہ ہے۔ا س شور نے نیب کے خلاف ماحول بنا دیا ہے۔ بے شک نیب نے بہت اچھے اچھے کام بھی کیے ہیں۔ کئی گناہ گار پکڑے بھی ہیں۔ ملک میں کرپشن کے خلاف ایک آگاہی بھی نیب نے ہی پیدا کی ہے۔لہٰذا اگر کہیں غلط ہوگیا ہے تو زیادہ بہتر ہے کہ قانون کا جواب قانون سے ہی دیا جائے۔ نیب کو بھی چاہیے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزرے اور اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو تسلیم کرکے انھیں دور کرنے کی کوشش کرے۔

مجاہد کامران کی تازہ گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وہ نیب کے خلاف اپنا غصہ نکال رہے ہیں اور اسکور برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے نیب کے تفتیشی سیل کے بارے میں ایک منظر کشی کی ہے۔ ان کی اور شہباز شریف کی منظر کشی ایک جیسی ہے۔ لیکن میں سوچ رہاہوں کہ کیا واقعی نیب کے تفتیشی سیل کے حالات بدلنے کی ضرورت ہے؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آخر وہاں ملک کے طاقتور اور امیر لوگ پکڑ کر رکھے جاتے ہیں۔ ان کے شان شایان انتظامات کیے جانے چاہیے۔

اگر سیون اسٹار سہولیات نہیں دی جا سکتیں تو کم از کم فائیو اسٹار سہولیات تو دی جانی چاہیے۔ لیکن دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ کیا منطق اور جواز ہے۔ نیب کے تفتیشی سیل میں بھی وہی سہولیات ہونی چاہیے جو تھانوں کے تفتیشی سیل میں موجود ہیں۔ کیا نیب کے ملزمان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہیں ہونا چاہیے جو پاکستان کے عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا نیب کے ملزمان کو بھی وہی سہولیات حاصل ہونی چاہیے جو عام ملزم کو حاصل ہیں۔ اگر ملزمان کے لیے سہولیات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ تو ملک بھر میں سب کے لیے ہونا چاہیے۔ صرف نیب کے ملزمان کو میٹرس بیڈ اور دیگر سہولیات کیسے دی جا سکتی ہیں۔

میں ملزمان پر تشدد کے خلاف ہوں۔ پولیس کی جانب سے ملزمان پر تشدد بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح نیب کی جانب سے بھی ملزمان پر تشدد کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن عام ذہن نہیں مانتا کہ نیب ملزمان پر جسمانی تشدد کرتا ہے۔ نیب کی حراست میں ذہنی تشدد تو ہوتا ہو گا۔ حراست میں ہونا ہی ذہنی تشدد ہے۔ لوگ نیب کی حراست میں خوش تو نہیں ہو سکتے۔ نیب حراست کے دوران ان کی ذہنی وجسمانی تفریح کا انتظام بھی نہیں کر سکتا۔

اگر نیب میں اصلاحات لانے کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے تو اس کے لیے بھی قانونی اور پارلیمانی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ قانون کا دروازہ کھٹکھٹا یا جانا چاہیے۔ قانون سازی کے لیے بات کرنی چاہیے۔
Load Next Story