وہ آئے اور اجالا ہوگیا

سعید پرویز  بدھ 21 نومبر 2018

اللہ کا گھر اس سرزمین پر تھا، مگر اللہ کے ہر فرمان کی نفی ہو رہی تھی۔ اللہ کے گھر میں بت رکھے ہوئے تھے، ان کی پرستش ہوتی تھی، اللہ کے گھر کا برہنہ عورتیں، مرد طواف کرتے تھے، ناچتے گاتے تھے، شراب عام تھی، رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی تھیں، رقاصائیں جسم کی لو سے شمعیں جلاتی تھیں۔

قبائلی جنگیں تھیں اور برسہا برس چلتی تھیں۔ جنگ کے میدان سجتے تھے، نقارے بجتے تھے، ہر قبیلے کا اپنا شاعر ہوتا تھا، جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ شاعر اپنے قبیلے کے بڑوں کے اوصاف بیان کرکے بہادری کے واقعات سنا کے جنگ کے میدان کو گرماتا تھا، اور پھر میدان انسانی لاشوں سے اٹ جاتا۔ پھر اگلی جنگ تک امن ہوجاتا۔ لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زمین میں زندہ گاڑ دی جاتی تھیں۔ انسان جنس کی صورت منڈیوں میں بکتے تھے۔ غلام اور لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا۔

یہ اس سرزمین کا حال تھا، جہاں اللہ نے بہت سے نبیؐ بھیجے، نوحؑ سے لے کر ابراہیم ؑ، اسمٰعیل ؑ تک۔ مگر انسان، انسان نہ بن سکا۔ پھر اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے اسی سرزمین پر اپنا آخری نبیﷺ بھیجا۔ خانہ کعبہ کی حفاظت ہی میں دراصل پورے معاشرے کی اصلاح مضمر تھی۔ ایسے گھپ اندھیروں میں اللہ نے شمع رسالت کو فروزاں کیا۔ آخری نبی آئے، تو انھوں نے اپنے تمام پیش رو انبیا کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تمام انبیا پر ایمان لائے اور قرآن شریف کے علاوہ انجیل، توریت اور زبور کو بھی الہامی کتب تسلیم کرے۔

حضرت محمدؐ نے اپنے اخلاق، پیار محبت سے دلوں کو فتح کیا۔ آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ آپؐ پوری انسانیت کے لیے سراپا رحمت تھے۔ اسی لیے آپؐ کو رحمت اللعالمین کہا جاتا ہے۔ آپؐ تمام عالم کے لیے رحمت ہیں۔ اور مسلمان بھی اس رحمت میں شامل ہیں۔ حضورؐ کے ’’پیار محبت‘‘ والے عمل پر شدت سے کاربند ہونے کی آج اشد ضرورت ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ حضورؐ کی ذات کا مکمل احاطہ کرتا ہے ’’یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم‘‘ غور فرمائیں۔ طائف شہر کے انتہائی گستاخ لوگوں کو آپؐ نے معاف کردیا اور ان کے لیے ہدایت کی دعا مانگی، آپؐ کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو معاف کردیا۔ اس ماہر نیزہ باز سیاہ فام کو معاف کردیا جس نے میدان احد میں نیزہ پھینک کر حضرت حمزہ کو نشانہ بنایا تھا۔

غلام بلالؓ کو رہائی دلا کر سیدنا بلالؓ بنادیا اور ان کے بڑے مرتبے بھی کردیے۔ اپنے صحابہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے کہا ’’قرن سے اویسؓ آئے تو اس سے دعا کروانا‘‘ یہ تھے حضرت اویس قرنی، جنھوں نے جنگ احد میں حضورؐ کا دانت ٹوٹنے پر اپنے سارے دانت توڑ دیے تھے کہ نامعلوم حضور کا کون سا دانت ٹوٹا ہے۔ اویس قرنی حضور کی خدمت میں آنا چاہتے تھے مگر آپؐ نے انھیں منع فرمایا اور کہا ’’اپنی بیمار والدہ کی خدمت کا فرض ادا کرتے رہو‘‘۔

حضور وصال فرما گئے تو ہر سال صحابی رسول خانہ کعبہ میں اعلان کرتے ’’قرن سے اویس آئے ہیں‘‘ اور پھر ایک حج ایسا آیا کہ حضرت اویس قرنی مکہ تشریف لائے۔ اعلان ہوا، پتا چلا کہ اویس قرنی اونٹ چرانے میدان عرفات گئے ہیں، یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے عرفات کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کھجور کے درخت کے سائے میں نماز پڑھ رہا ہے۔ دونوں صحابی قریب بیٹھ گئے، جب انھوں نے سلام پھیرا تو قریب بیٹھے دونوں اصحاب نے پوچھا:

’’آپ اویس ہیں‘‘

انھوں نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر حضرت اویس قرنی نے ان سے پوچھا:

’’آپ کون ہیں؟‘‘

تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ

’’یہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ ہیں اور میں علی ہوں‘‘

یہ سنتے ہی اویس قرنی تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے حضرت اویس سے نبی پاکؐ کا فرمان بیان کیا کہ

’’اویس آئے تو اس سے دعا کروانا تو آپ پورے عالم کے لیے دعا فرمائیں‘‘۔

حضرت اویس نے پس و پیش کا اظہار کیا اور کہا

’’آپ کے ہوتے میری کیا حیثیت کہ میں دعا کروں‘‘ جواباً دونوں صحابہ نے کہا ’’یہ حضور کا فرمان ہے، آپ ہی دعا کریں گے‘‘۔

یہ تھے نبی آخرالزماں، ذرا اپنے آپ کو ٹٹولیں، اور خود سے پوچھیں ’’کیا ہم نبی پاکؐ کو جانتے ہیں، پہچانتے ہیں؟‘‘

آخر میں حبیب جالب کی نعت پیش ہے، جس میں نبی پاکؐ سے آج کا دکھ بھی بیان کیا گیا ہے:

جہالت کا اندھیرا دور کرنے کے لیے آئے

محبت کا نظر میں نور بھرنے کے لیے آئے

محمد عرش سے دل میں اترنے کے لیے آئے

وہ آئے اور اجالا ہوگیا بزم دو عالم میں

مدینہ جھوم اٹھا مالک ہر دو جہاں آئے

عرب کے بھاگ جاگے حاصل کون و مکاں آئے

ہوئی کافور ظلمت، کفر و باطل کی زمانے سے

ہمیں قندیل قرآں مل گئی صرف ان کے آنے سے

ہماری زندگی پر کس قدر احسان ہے ان کا

ہمارے سامنے خود وہ ہیں اور قرآن ہے ان کا

مگر ہم ان کی تعلیمات سے غافل ہوئے ایسے

خدا کو بھول جائے عیش و عشرت میں کوئی جیسے

وہی خون غریباں سے دیے جلتے ہیں محلوں میں

وہی فرعون ناز و نعم سے پلتے ہیں محلوں میں

زبانیں کھینچ لی جاتی ہیں سچی بات کہنے پر

وہی تعزیر کہنہ رات کو ہے رات کہنے پر

حضور انسان کو نورِ ہدایت کی ضرورت ہے

حضور اک بار پھر شمع رسالت کی ضرورت ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔