گزرے سودن نہیں اگلے سو دن فیصلہ کن ہیں

سوال یہ بھی اہم ہے کہ عمران خان کو اگلے سو دن کیا کرنا چاہیے

msuherwardy@gmail.com

عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن پر بہت بات ہو رہی ہے۔ اس پر مزید بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ سب ہی کو معلوم ہو گیا ہے کہ پہلے سو دن کیسے گزرے ہیں۔ میرے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دن کی پہلے دن سے ہی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہ ایک پانی کا بلبلہ تھا۔ سب کو ہی معلوم تھا کہ سو دن میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن عمران خان اس میں خود ہی پھنس گئے تھے۔ اس لیے باقی سب نے اس کا بہت فائدہ اٹھایا۔لیکن جہاں پچھلے سو دن کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

وہاں اگلے سو دن بہت اہم ہیں۔ جہاں پچھلے سو دن کی غلطیوں سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ہے۔ وہاں اگلے دو دن کی غلطیاں نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ جہاں پہلے سو دن کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ وہاں اگلے سو دن کو سنجدہ لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں پہلے سو دن میں عوام کو کچھ نہیں ملا ہے۔ وہاں اگلے سو دن میں عوام کو ریلیف دینا اہم ہوگا۔ جہاں پہلے سو دن میں بہت سے تلخ فیصلہ کیے گئے ہیں جن کی تکلیف عیاں ہے۔ وہاں اب مزید تلخ فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف نے اپنا سارا زور پہلے سو دن پر لگا دیا ہے۔ لیکن اب اگلے سو دن میں حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔اگر پہلے سو دن ہنی مون تھا حالانکہ اقتدار میں ہنی مون نہیں ہوتا۔تو اگلے سو دن ہنی مون نہیں ہیں۔ اگر پہلے سو دن ٹرائل تھا تو ٹرائل ختم ہوگیا۔ اگر پہلے سو دن ناتجربہ کاری کا بہانہ تھا تو وہ بھی ختم ہو گیا۔

عمران خان کا ووٹر یقینا ان سو دنوں کی کارکردگی پر خوش نہیں۔ اس کی امیدیں پوری نہیں ہوئی ہیں۔ وہ کسی حد تک مایوس ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ابھی عمران خان کے ساتھ ہی ہے۔ ناامیدی اور مایوسی کے بادلوں میں بھی اسے ایک امید ہے کہ بہتری ہوگی۔ وہ ان سو دنوں کی کارکردگی کا دفاع تو نہیں کر سکتا لیکن اسے اگلے سو دنوں میں بہتری کی کہیں نہ کہیں امید ہے۔ وہ بہتری کی انتظار میں ہے۔ وہ وعدوں کی تکمیل کے انتظار میں ہے۔ وہ اچھے دنوں کے انتظار میں ہے۔ اگر آگے سو دنوں میں تھوڑی سی بھی بہتری ہو گئی تو پہلے سو دنوں کی غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ اس کو عمران خان اور اس کی ٹیم کی نا تجربہ کاری مان لیں گے۔ لیکن اگر اگلے سو دن بھی پہلے سو دن جیسے ہونگے تو یقینا عمران خان اور ان کے اقتدار کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ اگر پہلے سو دن نے اقتدار کے لیے خطرات پیدا نہیں کیے تو اگلے سو دن کی خراب کارکردگی اقتدار کو ڈگمگا دے گی۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ عمران خان کو اگلے سو دن کیا کرنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ باتیں کم اور کام زیادہ کرنا چاہیے۔ بولنا بند کرنا چاہیے۔ اب شاید عمر ان خان اور ان کی ٹیم کی خاموشی کا وقت آگیا ہے۔ بغیر کارکردگی کے روز روز کا بولنا کسی کام نہیں بلکہ اس کا نقصان زیادہ ہے۔ عمران خان کو خاموشی کی سیاست اپوزیشن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کارکردگی ہو گی تو بولنے کا فائدہ ہے۔ بغیر کارکردگی کے بولنے سے نقصان ہو رہا ہے۔ آپ دیکھ لیں مرغیاں پالنے والے مشورے پر کیا حال ہوا ہے۔ لوگ اس طرح بات نہیں سنیں گے۔ پہلے کچھ کر کے دکھانا ہو گا پھر عوام آپ کی بات سنے گی۔

معاشی ٹیم کے بدلنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ نواز شریف مت بنیں۔ ان کے اسد عمر اسحاق ڈار نہیں ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف کو اپنی غلطیوں کے تدارک کے لیے معاشی ٹیم کی قربانی دینا ہوگی۔ اسد عمر کی قربانی کا وقت آگیا ہے۔ کہیں نہ کہیں عمران خان کو یہ ماننا ہوگا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔


ابھی بہت ابہام اور غیر یقینی صورتحال بن چکی ہے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔ ڈالر مزید اوپر جائے گا۔ بجلی اور گیس مزید مہنگے ہوںگے۔ عمران خان کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے چند بڑے اعلانات کرنے چاہیے۔ بجلی گیس اور دیگر بنیادی ضروریات زند گی کی قیمتیں اگلے ایک سال تک منجمند کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ روپے کی قدر مزید نہ گرنے دینے کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ کاروباری ماحول مستحکم ہو سکے۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات لینے کا اعلان کرنا چاہیے۔یہ ماننا ہوگا کہ مہنگائی ہو گئی ہے اور کم کی جا ئے گی۔ میں نہ مانوں کی پالیسی سے فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔

کرپشن کے خلاف اور ملک میں گڈ گورننس کے قیام کے لیے عمران خان کے بیانیہ کو بھی ان سو دنوں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا نقصان نہیں ہے جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ پہلے سو دنوں کے نقصان کی تلافی اگلے سو دنوں میں ممکن ہے۔ پہلے سو دنوں میں حکومت بنانی تھی اس لیے کڑوے فیصلے کرنا مجبوری تھی۔ لیکن اب تو حکومت بن گئی ہے۔ مستحکم ہو گئی ہے۔ لوگ کرپشن کے خلاف فیصلہ کن اقدمات کی انتظار میں ہیں۔ لوگ گڈ گورننس کے اعلی معیار قائم کرنے کے انتظار میں ہیں۔ لوگ داغدار لوگوں کو سائیڈ پر کرنے کے انتظار میں ہیں۔ لوگ عمران خان سے ان کی غلطیوں کے تدارک کے انتظار میں ہیں۔

عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ کرپشن کے خلاف صرف باتوں سے وہ اب عوام کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ انھیں کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔ صرف شریف خاندان کرپٹ نہیں ہیں۔ صرف زرداری کرپٹ نہیں ہیں۔کرپشن کے خلاف جنگ صرف نیب کے کندھوں پر ڈال کر عمران خان اور ان کی حکومت آرام سے سے سو نہیں سکتی۔ کرپشن کے خلاف حکومتی اداروں کو متحرک کرنا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کوئی کرپشن نہیں ہو رہی صرف ماضی میں ہی کرپشن ہوئی ہے کہ نعرے پر مزید سیاست ممکن نہیں۔ لوگ کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کے متلاشی ہیں۔ عمران خان کو اپنی صفوں سے بھی کرپٹ لوگ نکالنا ہوںگے۔ صرف اپوزیشن کے احتساب سے عمران خان کو کوئی نیک نامی نہیں مل سکتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن کے خلاف جنگ کے لیے اگلے سو دن نہایت اہم ہیں۔ اگر حکومت اور دیگر ادارے کرپشن کے خلاف اپنی تحریک میں انصاف نہ لاسکے تو یہ تحریک اپنی قوت کھو دے گی۔ عمران خان اور دیگر اداروں کے ذمے داران کو احساس کرنا ہوگا کہ عوام کرپشن کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن دیکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حکومت کمزور ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کو اداروں اور مقتدر قوتوں کی غیر معمولی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے عوام ہر کرپٹ آدمی کو بلا تفریق نشان عبرت بننا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں عمران خان کوکرپشن کے خلاف جنگ کی ساکھ کو بچانے کے لیے اگلے سو دنوں میں اپنے ساتھیوں کی بھی قربانی دینا ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ ہوگا۔ جس طرح ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ انھیں یہ سنہری موقع چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے کھونا نہیں چاہیے۔

عوام اور بالخصوص تحریک انصاف کا ووٹر عمران خان سے حکومت میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور گڈ گورننس کے خواہاں ہیں۔ اس ضمن میں بھی حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ہے۔ آپ اعظم سواتی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ عمران خان آئی جی کو بدلنے کے بجائے اعظم سواتی کو جیل بھیج دیتے۔ پولیس اصلاحات پر بھی اگلے سو دن میں عملی کام کرنا ہوگا تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ میرٹ کی پالیسی کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ لوگ عمران خان سے اقربا پروری اور دوست نوازی کی توقع نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے اس پالیسی پر بھی اگلے سو دن میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ انھیں مڈل کلاس اور غریبوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے امیروں کی جیب سے دولت نکالنے کی حکمت عملی بنانی ہوگی۔ وہ امیروں کے بڑے گھر اور بڑے اکاؤنٹسس ضبط بھی کر لیں تو شور نہیں ہوگا۔ بلکہ عوام ان کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ لیکن اگر اب مڈل کلاس پر مزید بوجھ ڈالا گیا تو کوئی معاف نہیں کرے گا۔ آپ نے اپنے پہلے سو دن میں اپنا سارا بیلنس استعمال کر لیا ہے۔ اب عمران خان اور ان کی ٹیم کے پاس اگلے سو دن کے لیے کوئی بیلنس نہیں۔ ان سو دنوں میں تو ووٹ بینک کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ہے۔ لیکن اگلے سو دن میں نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگلے سو دن پچھلے سو دنوں سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ اگلے سو دن عمران خان کی سیاست کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ان کے ووٹ بینک کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ان سے وابستہ امیدوں کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ان کے ایجنڈے کے لیے فیصلہ کن ہیں۔
Load Next Story