لوٹ مار، کرپشن نہیں چلے گی

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 9 دسمبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

رابندرناتھ ٹیگور لکھتا ہے’’جہاں دماغ خوف سے آزاد ہو، جہاں سر اونچے اٹھے رہیں، جہاں علم پر پابندی نہ ہو، جہاں مقامی حد بندیوں کی دیواروں سے دنیا کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیاگیا ہو، جہاں الفاظ صداقت کی گہرائیوں سے نکلے ہوں، جہاں عقل کا شفاف سرچشمہ مردہ عادات کے ریگستان کی ریت میں اپنا راستہ نہ کھو بیٹھا ہو، آزادی کی اس جنت میں میرے ملک کو جاگنا نصیب ہو ‘‘ ٹیگورکی طرح آپ کی اور میری بھی یہ ہی خواہش اورتمنا ہے کہ ہم سب کو بھی ایسی ہی جنت میں جاگنا نصیب ہو۔

لیکن کیا کریں آپ اور میں اتنے خوش نصیب واقع نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہمیں ایسی دوزخ میں جاگنا نصیب ہوتا ہے جہاں ہر طرف آدمی کا شکار آدمی ہے ۔ ہمیں تلاش رہتی ہے ایسے شخص کی جس پر ایمانداری کا الزام لگایا جاسکے تلاش رہتی ہے، ایسے شخص کی جسے سچ بولنے کے جرم میں سولی پر چڑھاجاسکے، تلاش رہتی ہے ایسے شخص کی جسے وفا داری کے صلے میں 14 سال قید بامشقت سنائی جاسکے، ایسی بنجر زمین پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی جہاں وعدوں اوردعوئوں کی یلغار ہواور پوری کبھی نہ ہوسکیں۔

ہرطرف مردار خور چیلوں اورگدھوں کی اڑانیں ہیں ہرطرف جاہل، اقتدار کے بھوکے،کلنک کے ٹیکے لوگوں کے کھولتے جذبات واحساسات سے بے خبر مسخر ے گھوم رہے ہیں ۔ ہم سب تہذیب و تمدن سے دور، دور وحشت کی وحشت انگیز تاریکیوں کے مسافر بن گئے ہیں۔انسانوں کی ایسی حیوانی خصلتوں، ایسے بربرانہ رویوں اور ایسے سفاکانہ مظالم دیکھ کر بے اختیار جھرجھری آجاتی ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے، انہیں انسانیت کا سامنا کر نے کی جرأت کیسے ہوتی ہے ۔ یہ اپنا چہر ہ آئینے میں دیکھ کر ڈرتے کیوں نہیں ہیں ۔ یہ اپنے آپ سے نظریں کیوں کر ملاتے پاتے ہیں یہ اپنے اندر سے اٹھنے والی چیخوں کا گلاکس طرح گھونٹ دیتے ہیں ۔کیا انہیں اپنے آپ سے گھن نہیں آتی؟ کیا انہیں اپنے آپ سے بدبوکے اٹھتے بھبکوں سے نفرت نہیں ہوتی ۔

شیکسپیئر نے کہا تھا ’’ دوزخ خالی پڑی ہے سارے شیطان زمین پر ہیں‘‘ یہاں پر ایک بہت ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر اس سارے بگاڑ،افراتفر ی ، بے حسی کا اصل ذمے دار کون ہے؟کیا ہم خود اصل ذمے دار ہیں؟ کیا ریاست ذمے دار ہے یار یاست کو چلانے والے سیاست دان اس کے اصل ذمے دار ہیں۔ ارسطوکے نزدیک ریاست مختلف خاندانوں اوردیہات کے ایسے منظم اجتماع کوکہتے ہیں جس کا مقصد ایک خوشحالی اورآزاد زندگی کے قیام کے لیے سہو لتیں بہم پہنچانا ہے۔ سنڈوک کے نزدیک ریاست کے لازمی عناصر تین ہیں یعنی آبادی ، علاقہ اور حکومت ۔

لاک کہتاہے کہ حکومت کا مقصد انسانیت کی بھلائی ہے، یعنی ریاست اور حکومت دونوں کا واحد مقصد تمام شہریوں کی فلاح و بہود ہے ہر فرد کی مادی ضروریات کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ سماج کی ابتدا اس غرض سے ہوئی تھی کہ ضروریات زندگی کے حصول وتقسیم میں آسانی ہو۔ سیاست کو سمجھنے کے لیے بدقسمتی سے نفسیات کو سمجھنا پڑتا ہے انسان اور مملکت میں مشابہت ہے حکومتوں میں بھی ایساہی فرق ہوتا ہے جیساکہ انسان کی سیرتوں میں ہوتا ہے ۔ مملکت فطرت انسانی کی بنی ہوئی ہوتی ہیں جو اس کے اندر ہوتی ہیں ۔اس لیے ہم اس وقت تک بہتر مملکتوں کی توقع نہیں کرسکتے، جب تک ہمارے پاس بہتر آدمی نہ ہوں ۔

ہماری اصل بدقسمتی ہمیشہ یہی رہی کہ ہمیں اپنی مملکت چلانے کے لیے بہتر آدمی میسر نہ ہوسکے۔ پاکستان کے عوام 71 سالوں سے اپنے لیے خوشحالی، ترقی،آزادی ، مساوات کے جو بند دروازے کھول نہ سکے،اس کی بھی اصل وجہ یہ ہی ہے ۔ جب ہم اپنے سیاستدانوں کے کردار، عزائم اور اعمال کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ وہ سب اپنے لیے تو آزادی ،خو شحالی ، ترقی اور معاشی آسو دگی کو پسند کرتے ہیں مگر عوام کے لیے غلامی ، مفلسی ، بدحالی ، بے اختیاری کے خواہاں ہوتے ہیں، ان میں انتہائی نیچ کی حد تک خود غرضی نظر آتی ہے یہ دیکھ کر ایسا لگتاہے جیسے بد صورتوں کی ایک فوج آئینے توڑتی پھرر ہی ہو ۔

چار سو سال سے بھی زیادہ مدت گذرگئی ہے جب سے ’’میکیا ولیت ‘‘ کو دنیا ابلیسیت دغا بازی ، بدقماشی، بے دردی اور بد الحواری کا مترادف سمجھ رہی ہے ۔ اس اصطلاح کا بانی نکولو میکیا ولی تھا جو عام طور پر سازشی حیلہ باز، ریاکار ، بد اخلاق اور ایمان وشرافت سے عاری سیاستدان کی تمثال سمجھا جاتا ہے ، جس کا مسلک یہ ہو کہ حصول مقصد کے لیے ہر طریقے سے کام لے لینا جائز ہے خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو۔

میکیا ولی کی بدنامی ایک ہی کتاب کا نتیجہ ہے یعنی ’’بادشاہ ‘‘ جو 1513 میں لکھی گئی ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ ہر دورکے ڈکٹیٹر اور استبداد پرست ’’بادشاہ‘‘ سے مفید مشورے اخذ کرتے رہے ہیں، اسے شوق سے پڑھنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے، شہنشاہ چارلس پنجم اورکیتھرائن دی میڈ یچی اس کتاب کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہنری سوم اور ہنری چہارم قتل ہوئے تو اس کتاب کے نسخے ان کے پاس تھے ۔ فریڈرک اعظم نے پروشیا کے لیے پالیسی وضع کرتے وقت ’’بادشاہ ‘‘ سے مدد لی تھی۔ ہٹلر نے خو د لکھا ہے کہ ’’ بادشاہ ‘‘ میرے بستر پررہتی تھی۔ مسولینی نے بیان کیا ہے کہ میں میکیا ولی کی ’’ بادشاہ ‘‘ کو مدبروں کا بہترین رہنما سمجھتاہوں۔

’’ بادشاہ ‘‘ کے تمام اصول آج بھی زندہ ہیں اور ہمارے سیاستدان ان ہی اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں، میکیاولی لکھتا ہے کہ ’’کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے بد عہدی پر پردہ ڈالنے کے لیے خوشنما دلیلیں پیدا نہ کی ہوں ۔ انسان ہمیشہ سے سادہ لوح رہے ہیں وہ فوری ضروریات میں اس طرح محصور رہتے ہیں کہ ادھر ادھر دیکھ ہی نہیں سکتے اور اگرکوئی شخص انہیں فریب دینا چاہے تو ایسے سادہ لوگ یقینا مل جائیں گے، جو فریب کھانے پر آمادہ ہوں ۔

پاکستان کے عوام چونکہ بہت سادہ لوح واقع ہوئے ہیں، اسی لیے وہ71سالوں سے فریب کھاتے چلے آرہے ہیں ۔ اسی لیے ان کی زندگی کے مسائل جوں کے توں ہیں ۔ ہمارے سیاستدان دراصل جمہوریت کے نام پرکاروبارکرتے آئے ہیں سب نے اپنی اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں،ان کی نہ تو سوچ جمہوری ہے اور نہ ہی ان کے رویے جمہوری ہیں اور نہ ہی انہیں جمہوریت سے کوئی سروکار ہے، انہیں صرف اور صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی اور سر وکار ہے۔ان کے نزدیک جمہوریت کے معنی ہماری حکومت عوام کے ذریعے اور صرف اور صرف ہمارے اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے ہیں ۔

آپ سب باتیں چھوڑیں ذرا موجودہ سیاست دانوں کے 30 سال پہلے رہن سہن ، طورواطوار ، جائیدادیں ، بینک بیلنس اور ذرائع آمدنی اور موجودہ جائیدادیں رہن سہن ، طور واطوار، بینک بیلنس،کاروبارکی تحقیقات خود کرکے دیکھ لیں۔ تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں تو پھر دنیا کے دیگر ممالک میں جہاں اصل جمہوریت ہے، اسے کیا کہتے ہیں،اگر یہ قوم کے خادم ہیں تو جو اصل خادم ہیں انہیں کیاکہیں گے۔ جناب اعلیٰ معاف کیجیے گا بس بہت فریب دے چکے۔ اب جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیلنا بند کریں ۔ بہت ہو چکی ۔ ہم بہت فریب کھا چکے ۔ اب آپ کی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن نہیں چلے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔